گزشتہ کالم پر بیشتر احباب اور قارئین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ تم نے تو اچھے دنوں کا امکان ہی ختم کر ڈالا۔ خواہ مخواہ مایوسی پھیلائے چلے جارہے ہو۔ پہلے کیا کم ڈپریشن ہے جو آئے روز حالات کا ایسا ماتم کرتے رہتے ہو۔ اب تم 75برس کی تباہیوں اور بربادیوں کی قیمت چکانے کی تھیوری لے آئے ہو جس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے گزشتہ پون صدی کی فصل کاٹتے کاٹتے نجانے اگلی کتنی نسلوں کے ہاتھ لہولہان ہوتے رہیں گے۔ حالاتِ پریشان میں مزید پریشان کرنے کے بجائے کوئی راستہ بھی تو بتاؤ نا! کہ کس طرح حالاتِ بد کی دلدل سے نکلا جا سکتا ہے۔ مجھ پر اعتراض اٹھانے والوں کو میرا کل بھی یہی جواب تھا‘ آج بھی یہی جواب ہے کہ ملامتی حالات میں صرف ماتمی کالم ہی لکھا جا سکتا ہے۔ میں کوئی سکالر ہوں نہ مجھے دانشوری کا کوئی خمار ہے لیکن قانونِ فطرت پر میرا ایمان کامل ہے۔ مکافات کی چکی آہستہ آہستہ ضرور چلتی ہے لیکن پیستی برابر ہے۔ دراز رسی بالآخر گلے کا طوق بھی ضرور بنتی ہے۔ لمحۂ موجود کو مہلت کی ضمانت سمجھنے والے کل بھی بھول میں تھے اور آج بھی خسارے کا کاروبار کررہے ہیں۔ مملکتِ خداداد پر شوقِ حکمرانی پورے کرنے والے سبھی حکمران اس کی تباہی اور بربادی کے حصہ بقدر جثہ برابر کے ذمہ دار ہیں۔
حالات کی قبروں کے منہ چڑاتے کتبے پڑھنے کے بجائے عوام مجاور بنے بیٹھے ہیں۔ حکمرانوں کی نیت اور ارادوں سے لے کر فیصلے اور اقدامات سبھی عوام کی آسوں اور امیدوں کے قتلِ عام کا باعث کب نہیں بنے۔ عوام کو بہلانے اور جھانسہ دینے کے لیے ان کے انقلابی اور اصلاحاتی اعلانات عوام کے ارمانوں کی قبر کب نہیں بنے۔ حکمرانوں کی طرف سے آنے والی اچھی خبروں کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ جتنی خبریں اتنی قبریں۔ تاہم عوام شریکِ جرم اس لیے ہیں کہ انہوں نے ان سبھی سے ایک آدھ بار نہیں‘ بار بار تواتر سے اتنے جھانسے اور دھوکے کھائے ہیں کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنا حال ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی حالاتِ بد کے گڑھے میں دھکیلے چلے جارہے ہیں۔ ہر الیکشن کے بعد جس ووٹ کی سیاہی عوام کے مقدر پر ملی جاتی ہے اس کے ذمہ دار حکمرانوں سے کہیں بڑھ کر خود عوام ہیں۔ جانتے بوجھتے نسل در نسل باپ کے بعد بیٹے اور دادا کے بعد پوتے کے ہاتھوں دھوکے پہ دھوکا کھانے کے باوجود آج بھی دھوکا منڈی میں لٹنے کو تیار ہیں۔ وہی اسمبلیاں ہیں‘ وہی سیاستدان ہیں‘ وہی منڈی لگی ہوئی ہے‘ وہی سیاسی اکھاڑا ہے۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی بھی اسی طرح جاری ہے۔
پنجاب اسمبلی میں لگا تماشا ماضی کے کتنے ہی ادوار کا ایکشن ری پلے ہی تو ہے۔ جمہوری اور اخلاقی اقدار سے کوسوں دور سبھی جمہوریے اپنی اَنا اور شوقِ اقتدارکے ہاتھوں اس قدر مجبور اور ضرورت مند ہیںکہ کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کے لیے سبھی حدیں پار کرنے کو تیار ہیں۔ سیکرٹری پنجاب اسمبلی کے مبینہ 'اغوا‘ سے لے کر عوامی مینڈیٹ کی خرید و فروخت کی منڈی لگانے والے آج بھی وہی بیوپار کرتے نظر آتے ہیں۔ اُس دور کے حلیف آج حریف بنے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں تو تعجب کیا؟ یہی ہماری جمہوریت کا حسن ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جمہوریت کا حسن پاؤں میں بیڑیاں اور گلے میں طوق ڈالے نجانے کب سے رقصاں ہے اور جمہوریت پسند عوام اس رقص کے دیوانے بنے برابر دھمال ڈال رہے ہیں۔ یہ سرکس اور تماشا نہ جمہوریت کی بقا کے لیے لگا ہے‘ نہ ہی احساسِ عوام کے لیے۔ ان سبھی سیاستدانوں کو بوئے سلطانی کی لت لگ چکی ہے۔ اس لت میں لت پت حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سبھی کے لیے اقتدار سے دوری کا تصور ہی جان جانے کے برابر ہے۔ ان کی جان عوام میں نہیں اقتدار میں اٹکی ہوئی ہے۔ عوام پر شوقِ حکمرانی کے سبھی شوق آزمانے والوں کے ماضی کا جائزہ لیا جائے تو ہوش اڑا دینے والے انکشافات کے ڈھیر لگ جائیں۔ سیاست میں آنے سے پہلے ان کی سماجی حیثیت سمیت بینک بیلنس اور اثاثے کیا تھے اور آج ان کے ٹھاٹ باٹ اور شاہانہ طرزِ زندگی‘ ملکی و غیر ملکی اثاثے اور مال و دولت دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ برسراقتدار آتے ہی ان کے اثاثوں اور مال و دولت نے صبح‘ دوپہر‘ شام انڈے اور بچے دینا شروع کردیے۔
تعجب کا مقام ہے کہ عوام کے حقوق اور مفادِ عامہ کے علمبردار حکمران ہوں یا فلاحی تنظیمیں چلانے والے سیاسی رہنما‘ ان سبھی کا ماضی ہر دور میں حال کا منہ ہی چڑاتا ہے۔ مال و دولت کے انبار ہوں یا لگژری گاڑیاں‘ پُرتعیش طرزِ زندگی ہو یا اللے تللے اور موج مستیاں‘ یہ سبھی تو ایک دن اور ایک دھیلے کا حساب نہیں دے سکتے۔ کئی دہائیوں کا حساب کیسے دے سکتے ہیں۔ مفادِ عامہ کے منصوبوں کے فنڈز ہوں یا فلاحی اداروں کے لیے خیرات‘ صدقات اور زکوٰۃ کے نام پر اکٹھی ہونے والی خطیر رقومات۔ شکم پروری‘ بندہ پروری‘ کنبہ پروری اور سیر سپاٹوں کے واقعات اور مناظر دیکھ کر خوف آتا ہے کہ رب کی عطا کو اپنی ادا کا چمتکار سمجھنے والے اس کا حساب کیسے دے پائیں گے؟
میرے ماتمی کالموں پر اعتراض کرنے والے آج نہیں تو کل ضرور سمجھ جائیں گے کہ ان 75برسوں میں کوئی ایسا نہیں آیا جسے گورننس عطا کی گئی ہو اور اس نے حقِ حکمرانی ادا کیا ہو۔ عوام نے اسے نجات دہندہ سمجھ کر مینڈیٹ دیا ہو اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے دعائیں نہ مانگی ہوں۔ جنہیں محبوب لیڈر سمجھ کر بے پناہ چاہا ہو اور پھر انہی سے پناہ نہ مانگتے پھرے ہوں۔ یہ باریاں لگا کر حکمرانی کرنے والے مملکتِ خداداد میں بسنے والوں کو انسان ہی کب سمجھتے ہیں۔ اگر انہیں انسان سمجھتے تو انہیں کم از کم وہ حقوق تو ضرور دیتے جو بحیثیت انسان ان کے بنیادی حقوق اور ریاست کی ذمہ داری ہیں۔ اپنی ذمہ داریوں سے مسلسل فرار حکمران‘ وقت پڑنے پر ملک سے بھی فرار ہو جاتے ہیں۔ حالات موافق اور معاملات طے ہوتے ہی کس ڈھٹائی سے پھر وطن لوٹ آتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کا اکھاڑا پھر لگنے جارہا ہے۔ پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لیتے ہیں یا نہیں۔ عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کو پورا کر پائیں گے یا نہیں۔ عدالت کا فیصلہ کسے خاک بناتا ہے اور کسے زر کرتا ہے۔ اراکینِ اسمبلی کی منڈی کا بیوپار کسے پار لگاتا ہے‘ کسے ڈبو ڈالتا ہے۔ ایک ناختم ہونے والی بحث صبح و شام جاری ہے حالانکہ حالات و معاملات ان سبھی کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔
اقتدار کسی کے بھی ہتھے لگ جائے‘ ہاتھ صاف کرنے میں سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پے دہلا ہیں۔ گورننس اور میرٹ کی جو درگت بن چکی ہے‘ اس کے بعد اب اور کیا دیکھنا باقی رہ گیا ہے۔ سرکاری عہدوں کی بولیاں اور وصولیاں آج بھی جاری ہیں۔ وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج کی وہ موجیں لگی ہوئی ہیں کہ ماضی کے بڑے ریکارڈ بھی چھوٹے پڑ گئے ہیں۔ متوقع الیکشن کے بھاری اخراجات اٹھوانے کے لیے سہولت کاروں کو خوب کاروباری فائدے دینے کے لیے قانون اور ضابطے آج بھی ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ سرکاری بابو کلیدی عہدوں کی قیمت دے کر عوام سے من چاہی قیمت وصول کررہے ہیں۔ ساری سیاسی اشرافیہ بیک وقت حکمران بھی ہے اور ایک دوسرے کی اپوزیشن بھی۔ ایسے حالات میں کالے کو سفید اور اندھیرے کو اجالا کیسے لکھ دوں؟ چلتے چلتے ایک بار پھر باور کرواتا چلوں کہ زمینی قانون کو بے بس کرنے والے قانونِ فطرت کے آگے آج نہیں تو کل بے بس ضرور ہوں گے۔ پون صدی کی تباہیوں اور بربادیوں کا بوجھ سروں پر اٹھائے خاطر جمع رکھیں کہ کچھ مقدمات آسمانوں پر درج کر لیے جاتے ہیں جن کی مدعی خلقِ خدا ہوتی ہے۔