ہماری اشرافیہ کے لیے اقتدار کتنی بڑی نعمت اور باعثِ شفا ہے کہ ماضی قریب میں جو کبھی وہیل چیئرز پر تو کبھی لڑکھڑاتے قدموں اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ عدالتوں میں پیش ہوا کرتے تھے‘ انہیں چند ماہ سے بخار بھی چھو کر نہیں گزرا۔ طبّی بنیادوں پر عدالتوں سے ضمانتیں اور ریلیف طلب کرنے والے اب شفایاب ہو کر بھلے چنگے‘ بھاگے پھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ معمہ بھی آج تک حل نہ ہو سکا کہ غریبوں کے حقوق کے لیے لڑتے لڑتے لوگ کس طرح امیر سے امیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور غریب بدحالی کی پستیوں میں دھنستا ہی چلا جاتا ہے۔ سیاست کو تجارت سمجھنے اور تجارت کے لیے سیاست کرنے والوں نے ایسے حالات پیدا کر ڈالے ہیں کہ اب عوام بھی ضمانت اور ریلیف کے سوا کچھ نہیں مانگتے۔
خوشحالی اور آسائشیں تو درکنار‘ وہ ان بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں جو بحیثیتِ انسان ان کا پیدائشی حق ہے۔ کوئی سیاہ بختی ہے یا آسیب کا سایہ‘ مملکتِ خداداد میں اکثریت کا عالم یہ ہے کہ آدھی بازی تو پیدا ہوتے ہی ہار جاتے ہیں‘ باقی کی زندگی یا قسمت یا نصیب... وطنِ عزیز کے حالاتِ پریشاں اس طرح مستقل منظرنامہ بن چکے ہیں۔ پون صدی کا احاطہ کیا جائے تو سبھی ادوار کئی اضافوں کے ساتھ ایک دوسرے کا تسلسل ہی لگتے ہیں۔ بدترین طرزِ حکمرانی کے سب ریکارڈز ریکارڈ مدت میں توڑنے والے سیاسی رہنماؤں نے ملک کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ الفاظ بھی اظہار سے قاصر اور دھاڑیں مارتے نظر آتے ہیں؛ تاہم احتیاط اور اختصار کا تقاضا یہ ہے کہ اشاروں اور استعاروں میں ہی کچھ بیان ہو جائے۔ جنگل میں شدید قحط پڑ گیا تو شیر نے بکری سے کہا: اس مشکل وقت میں قربانی کی ضرورت آن پڑی ہے۔ آئندہ تم چارہ صرف ایک وقت کھاؤ گی اور دودھ تین مرتبہ دو گی۔ بکری بولی: بادشاہ سلامت ہم تو ہمیشہ سے قربانی دیتے چلے آئے ہیں‘ کمزور اور محکوم جو ٹھہرے‘ اس مرتبہ جنگل میں بسنے والے طاقتور جانوروں سے بھی قربانی طلب کی جائے۔ آپ تو جنگل کے بادشاہ ہیں‘ آپ سے بڑھ کر طاقتور کون ہو سکتا ہے؟ شیر دھاڑا: کیا تمہیں اتنا بھی علم نہیں‘ قربانی صرف حلال جانور کی ہی ہو سکتی ہے اور میں تو حرام ہوں۔ سمجھنے والے سمجھ گئے جو نہ سمجھے وہ اناڑی ہے۔ عوام تو کب سے حلال ہوتے چلے آرہے ہیں۔
مملکتِ خداداد میں ایک بار پھر ماضی کے کئی تماشوں سے جڑا نیا تماشا لگا ہوا ہے۔ تختِ پنجاب پر نگران حکمران براجمان ہو چکے ہیں۔ اس بار بھی عوام کو نگہبانوں کے بجائے نگرانوں کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ نگران سیٹ اَپ بنتے ہی سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر مقابلے کا سماں ہے۔ کہیں حکمرانوں سے وابستگی اور مراسم پر مبنی پوسٹیں اور تصاویر کی بھرمار ہے تو کہیں تعریفوں کے پل باندھنے والے دانشور توجہ حاصل کرنے کے لیے نگران حکومت کے فضائل و خصائل بیان کرتے نظر آر ہے ہیں تو کہیں درخواستی گروپ رابطوں اور ملاقاتوں کے حوالے دے کر جگاڑ لگانے کے درپے ہیں۔ نگران کابینہ میں ایک ایسے کاریگر بھی فٹ ہو چکے ہیں جنہوں نے بدترین کورونائی صورتحال میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ماہرانہ بریفنگ دیتے ہوئے یہ خوشخبری بھی سنائی تھی کہ حضور آپ فکر نہ کریں‘ ہم نے کورونا ویکسین کی تیاری پر کام شروع کر دیا ہے اور جلد ہی قوم کو کورونا سے بچاؤ کیلئے ویکسین کا تحفہ دیں گے۔ عثمان بزدار ان سے پوری طرح واقف نہ ہونے کی وجہ سے دھوکا کھا گئے اور ان کی ماہرانہ گفتگو سے اس قدر متاثر ہوئے کہ بیان دے ڈالا کہ ہم ویکسین کی تیاری کر رہے ہیں۔ بعد ازاں وزیراعلیٰ کو جس سبکی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑا اس کا حال وہ خود ہی بہتر بتا سکتے ہیں؛ تاہم ماہر موصوف نے اس راز سے پردہ آج تک نہیں اٹھایا کہ کورونا ویکسین کسی لیبارٹری میں تیار کر رہے تھے یا کسی ورکشاپ پر تیار کروا رہے تھے۔ خیر! پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ ہم ضرورت مندوں کے اُس عہد میں زندہ ہیں جہاں اہداف اور ضروریات کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
اس موقع پر اپنے ہی ایک کالم کا حوالہ دینے کے لیے طبیعت بے قرار اور بضد اس لیے ہے کہ وہ کالم آج بھی حسبِ حال اور فٹ بیٹھتا ہے تاہم پرانے کالم بعنوان ''ضرورت مندوں کا کلب‘‘ سے کچھ حصہ مستعار لینے جا رہا ہوں تاکہ یہ ثابت کر سکوں کہ حکمرانی کسی کی بھی ہو‘ دور کوئی بھی ہو‘ ماضی کا ایکشن ری پلے اور تسلسل ہی لگتا ہے۔ تاہم اس میں حصہ بقدر جثہ اضافہ ضرور ہوتا چلا آرہا ہے۔ صرف اپنی ضرورتوں سے عاجز ہی ضرورت مند نہیں ہوتا بلکہ زائد از ضرورت سامانِ زندگی کے باوجود قیمتی پوشاکوں‘ لگژ ری گاڑیوں اور وسیع و عریض محلات کے اندر بھی ضرورت مندوں کا ہجوم پایا جاتا ہے۔ اکثر اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا ملک ہی ضرورت مندوں کا جمِ غفیر ہے۔ اونچے شملے والا ہو یا رعب و دبدبے والا‘ کوئی بھلے کتنا ہی بااختیار کیوں نہ ہو‘ وہ بھی ضرورت مند ہی پایا گیا ہے۔ کوئی اہم ترین قلمدان کے لیے تو کوئی پُرکشش منصب کے لیے اور کوئی پہلے سے موجود درجنوں فیکٹریوں اور لمبے کاروبار کو مزید چار چاند لگانے کے لیے ضرورت مند نظر آتا ہے۔ کوئی اپنا پندار بیچ کر دنیا سنوارنے کے لیے بے چین ہے تو کوئی غیرت پر ضرورت کو فوقیت دینے پر۔ یہ سبھی ضرورتوں کے مارے اپنی اپنی حاجت لیے کسی نہ کسی در پر حاضری اور تابعداری اس قدر عقیدت سے کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ الفاظ میں بیان ممکن ہی نہیں۔
سہولت کاری اور جان نثاری کے یہ مناظر صرف ضرورت اور غرض تک ہی محدود ہوتے ہیں‘ جب تک غرض باقی رہتی ہے‘ تعلق چلتا رہتا ہے۔ جوں جوں غرض کم ہوتی چلی جاتی ہے تعلق کے آہنی ہاتھوں پر رعشہ طاری ہونا شروع ہو جاتا ہے اور بالآخر غرض کا تعلق ایک در پہ دم توڑنے کے بعد تازہ دم ہوکر کسی اور در پر فرمانبرداری کی اداکاری کرتا دکھائی دیتا ہے۔ الغرض سبھی ایک دوسرے کے ضرورت مند ہیں اور ہر طرف آدمی کا شکار آدمی ہی نظر آتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ معاشرہ ضرورت مندوں کا کلب بن چکا ہے۔ اہداف کے حصول کے لیے کمزور کو کچلنا اور طاقتور سے ہاتھ ملانا اس کلب کا مین مینو ہے۔ یہی ہمارا اصلی اور پورا سچ ہے۔ جس معاشرے میں سب چلتا ہو وہ معاشرے بس اسی طرح چلتے ہیں۔ حالانکہ آدمی آدمی کوکیا دے سکتا ہے۔ اگر غرض اور ضرورت کا آپس میں دھندہ نہ ہو تو یہ سبھی بیکار اور ایک دوسرے سے بیزار ہیں۔ ایک دوسرے کی ضرورتوں کی خرید و فروخت کرکے یہ سبھی چھوٹے موٹے زمینی خدا بن جاتے ہیں۔ انہی چھوٹے موٹے زمینی خداؤں میں سے جو خود کو زیادہ طاقتور‘ بااختیار اور بڑا سہولت کار ثابت کردیتا ہے وہ پھر انہی کا خدا بن جاتا ہے۔
ایسے میں کیسے کیسے عالم‘ فاضل‘ فلسفی‘ دانشور‘ سقراط‘ بقراط کی ڈمی بنے پھرتے ہیں۔ زندگی کے اسرار و رموز سے لے کر سبھی بھید بھاؤ بیان کرنے والے موٹیویشنل سپیکر بھی مارکیٹ میں خاصی تعداد میں آ چکے ہیں جو علم کی روشنی کے بغیر اندھا دھند الفاظ کی فضول خرچی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لچھے دار لفاظی اور اندازِ بیان سے سامعین اور حاضرین جھومے چلے جاتے ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ ان کے لیکچرز قیمتاً سننے کے لیے باقاعدہ بکنگ کروانا پڑتی ہے۔ ضرورتوں پر مبنی دھندے اور ایجنڈے ماضی کی طرح آئندہ بھی یونہی چلتے رہیں گے اور ہم یہ کالم لکھتے اور دہراتے رہیں گے۔