ملک کے طول و عرض میں کوئی ایسا کونا نہیں جہاں سے کوئی اچھی خبر آتی ہو۔ کہیں تنگدستی کے مارے خاندان کی اجتماعی خودکشی کے واقعات ہیں تو کہیں بھوک سے بلکتے بچوں کو ہمیشہ کے لیے سلانے کی دلخراش خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ دہشت گردی کی لہر ایک بار پھر شدت اختیار کرتی نظر آرہی ہے۔ پشاور میں دورانِ نماز خودکش حملے نے ملک بھر میں صفِ ماتم پچھا ڈالی ہے‘ درجنوں شہید نمازیوں کا ماتم کریں‘ لسبیلہ میں پل سے نیچے گرنے والی مسافر کوچ میں 42اموات کا سوگ منائیں یا کوہاٹ کے تانڈہ ڈیم میں کشتی پر سوار ماؤں کے 51 لعل ڈوب جانے کا افسوس کریں۔ طبیعت بوجھل‘ دل لہو لہو اور اعصاب شل ہیں۔ قلم سے نکلنے والی سیاہی بھی لہو بن کر کاغذ کو تر کیے ہوئے ہے۔ ملک و قوم پر چھائے مایوسیوں اور ناامیدیوں کے بادل فضا کو سوگوار اور درد کو مزید بڑھائے چلے جا رہے ہیں۔
ایسے میں مملکتِ خداداد کے کرتا دھرتا یقینا داد کے مستحق ہیں کہ عوام کو وہاں لا پھنسایا ہے کہ ہر خاص و عام ملک چھوڑنے کی بات کرتا نظر آتا ہے۔ حالاتِ پریشاں نے اس قدر پریشان کر ڈالا ہے کہ ہر صاحبِ استطاعت ملک چھوڑنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے اور بیرونِ ملک سکونت اختیار کرنے کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران میرے اپنے خاندان میں کوئی فیملی امریکہ تو کوئی کینیڈا جا بسی ہے اور اکثر کامیاب ہجرت کرنے والوں سے مشورے میں ہیں۔ حلقۂ احباب میں بھی آئے روز ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس آپشن پر صرف وہی لوگ عمل کر سکتے ہیں جنہیں وسائل دستیاب ہیں مگر یہاں بسنے والوں کی اکثریت کی حالت یہ ہے کہ اُنہیں ملک چھوڑنے کے وسائل دستیاب ہونا تو درکنار‘ اُن کا ملک میں زندہ رہنا محال ہو چکا ہے۔ گویا:
چنگے آ پھسے آں
اُجڑے آں نہ وسے آں
ایسے موقع پر قربان علی سالکؔ بیگ کا یہ شعر‘ جسے لوگ غالبؔ سے منسوب کر دیتے ہیں‘ اکثر یاد آتا ہے کہ:
تنگدستی اگر نہ ہو سالکؔ
تندرستی ہزار نعمت ہے
تنگدستی کا آسیب صبح شام نجانے کتنوں کی تندرستیاں اور زندگیاں نگلنے کے باوجود بھی بھوکا اور بوکھلایا پھر رہا ہے۔ یعنی وہ بھوک ہے کہ اعضا کہیں اعضا کو نہ کھا لیں۔ گزر اوقات اس قدر مشکل ہوتی چلی جارہی ہے کہ اچھے اچھوں کے چھکے چھوٹ چکے ہیں لیکن بھاشن اور بیانیے تواتر سے جاری ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ سبھی سیاستدان اعلانات کے بادشاہ ہیں۔ بے پَر ایسی ایسی چھوڑتے ہیں کہ جس کا زمینی حقائق سے کوسوں دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا۔ روٹیوں کے ایسے لالے پڑے ہیں کہ ماؤں کے کم سن لعل ہاتھوں میں کتابوں کے بجائے اوزار اور بوٹ پالش اُٹھائے ہوئے ہیں۔ ضروریاتِ زندگی کے آگے بندہ ناچیز اس قدر حقیر اور بونا ہوتا چلا جا رہا ہے کہ کہیں عزتِ نفس پر سمجھوتا کرتا ہے تو کہیں غیرت پر۔ بے بسی کا ایسا ایسا دل دہلا دینے والا منظر صبح شام دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے کہ الامان الحفیظ۔
یہ سبھی مصائب اور نحوستیں اس حکمرانی کا عذاب ہے جو پون صدی سے عوام نسل در نسل بھگتتے چلے آرہے ہیں۔ اس عذابِ مسلسل کی اصل اور بڑی وجہ یہ ہے کہ شوقِ حکمرانی کے مارے خاندان آسیب کی طرح سسٹم کو جکڑے ہوئے ہیں۔ باپ کی جگہ بیٹا اور دادا کی جگہ پوتا عوام کی کتنی ہی نسلوں کو برباد کرتا چلا آرہا ہے۔ رسد کی چادر طلب کے آگے رومال بن چکی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عوام پون صدی سے قطاروں میں ہی لگے ہوئے ہیں۔ کبھی آٹے کی قطار تو کبھی تنوروں پر سستی روٹی کی قطاریں‘ کبھی چینی اور گھی کی قطاریں تو کبھی پٹرول کی قطاریں‘ کبھی مالی امداد اور راشن کی قطاریں‘ کہیں شہریت کے ثبوت کیلئے شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات بنوانے والوں کی قطاریں تو کہیں سرکاری جرمانے اور محصولات جمع کروانے والوں کی قطاریں‘ کہیں داد رسی کے لیے قطاریں ہیں تو کہیں حصولِ انصاف کے لیے۔ تھانہ‘ ہسپتال اور پٹوار خانے سے لے کر نجانے کہاں کہاں قطاروں میں لگی عوام نما رعایا کبھی اپنے محبوب قائدین کے درشن کے لیے قطاروں میں کھڑی نظر آتی ہے تو کہیں سیاسی رہنمائوں کے استقبال کے لیے۔ نسل در نسل یہ ذلت آمیز سبھی قطاریں اس عوام کا مقدر ہیں جسے سیاسی رہنما رعایا بھی نہیں سمجھتے۔
صاحبِ حیثیت اقلیت کیلئے اشیائے ضروریہ کی نہ کبھی قلت ہوتی ہے اور نہ ہی کہیں قطاریں لگتی ہیں۔ جب چاہیں‘ جہاں چاہیں ضرورت کی ہر معیاری شے ہمہ وقت دستیاب ہے۔ اس کے برعکس قطاروں میں کھڑی اکثریت جس آٹے کے حصول کے لیے دن بھر خوار ہوتی ہے‘ وہ غیر معیاری آٹا تو کھانے کے قابل ہی نہیں ہے۔ سمجھوتوں اور مجبوریوں میں جکڑی ہوئی یہ اکثریت‘ اقلیت کے آگے بے بس اور یرغمال ہے۔ اقلیت کے پاس نعمتوں کی فراوانی کا اصل راز اکثریت کی محرومیوں میں چھپا بیٹھا ہے۔ جب تک عوام بنیادی ضروریات سے محروم رہیں گے‘ ان کے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کی آسائشیں اور عیاشیاں جاری رہیں گی۔ نیلسن منڈیلا کا قول ہے کہ ''غربت کا خاتمہ خیرات سے نہیں‘ انصاف سے ممکن ہے‘‘۔ جس معاشرے میں وسائل اشرافیہ کا استحقاق اور مسائل عوام کا مقدر بنا دیے جائیں‘ وہاں انصاف کیونکر ممکن ہے؛ تاہم امدادوں‘ خیراتوں اور قطاروں پر اتراتے حکمران عوام کے ٹیکسوں کے پیسے پر موجیں مارتے پھرتے ہیں۔ مملکتِ خداداد پر پہاڑ جیسے قرضوں کی قسط دینے کے لیے بھی بھاری سود پر قرض لینے والے راشن اور حقیر رقوم کی امداد کرتے ہوئے حاتم طائی کی ڈمی بنے کس ڈھٹائی سے فوٹو سیشن کراتے ہیں۔
پون صدی سے وسائل صرف اشرافیہ کے درمیان اور مسائل عوام میں بانٹے جا رہے ہیں۔ بظاہر ایک دوسرے کے خلاف نظر آنے والے یہ سیاستدان وسائل کے بٹوارے اور اقتدار میں حصہ داری کے فارمولے پر مفادات کے جھنڈے تلے سب ایک ہیں۔ یہ بیانیے اور بھاشن عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ہیں‘ اپنی اپنی برانڈنگ اور مارکیٹنگ کے ساتھ لانگ مارچ کرنے والے ہوں یا دھرنے دینے والے‘ ریلیاں نکالنے والے ہوں یا جلسے جلوس کرنے والے‘ یہ سبھی شعبدے بازیاں تو جھانسوں اور دھوکوں کے سوا کچھ نہیں۔ عوام اس قدر سادہ ہیں کہ ان بازیگروں سے ہر بار ہنسی خوشی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ عوام کو دھوکے کی لت لگ چکی ہے اور ان کے سیاسی رہنمائوں کو بوئے سلطانی کی‘ سبھی اپنی اپنی لت میں لت پت اور مجبور ہیں‘ کیا عوام کیا حکمران۔
عوام کو قطاروں میں لگا کر خود اقتدار کی باریاں لگانے والوں کو عوام سے کوئی سروکار ہے نہ عوام کے مسائل سے‘ انہیں تو بس مملکتِ خداداد کے وسائل سے پیار ہے جس پر وہ کنبہ پروری بھی کرتے ہیں اور بندہ پروری بھی۔ حالات اب اس نہج پر آچکے ہیں کہ مسلسل لٹتے اور مٹتے عوام کے پاس آپشنز ختم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اب ان کے پاس نہ لٹانے کو کچھ بچا ہے اور نہ ہی مزید مٹنے کی سکت باقی ہے اور جس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہ رہ جائے اس کے لیے کیا جینا کیا مرنا‘ روز روز کے مرنے سے کسی کو مار کے مرنا ہی آپشن باقی رہ جاتا ہے۔ وسائل اور مسائل کے بے خبر تقسیم کاروں کو خبر ہونی چاہیے کہ قطاروں میں بٹے عوام اس تقسیم سے انکاری ہونے جا رہے ہیں۔ قطاریں یکجا ہوگئیں تو مفادات میں بندھے سیاستدان تتر بتر ہوتے اور پناہ مانگتے پھریں گے۔