ملکِ عزیز میں مہنگائی 48سال کی بلند ترین سطح کو چھو چکی ہے جبکہ عوام کی حالتِ زار ہے کہ پست ترین گڑھوں میں جا پہنچی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ مہنگے کیسوں میں دھرے جانے والے سبھی سستے چھوٹتے چلے جا رہے ہیں۔ روپے کی مسلسل بے قدری پر بانیٔ پاکستان کی روح بھی یقینا دکھی اور ملول ہوگی۔ مملکتِ خداداد کے کرتا دھرتوں کو چاہیے کہ وہ روپے کا کچھ تو بھرم رکھ لیں۔ صبح شام ٹکے ٹوکری ہوتا پاکستانی روپیہ بھی یقینا شرمسار ہوگا۔ تاہم قائداعظمؒ سے مزید شرمسار ہونے کے بجائے اپنی نالائقی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی طلب کرنی چاہیے۔جب تک روپے کی بے قدری ختم نہیں ہو جاتی اور پاکستانی کرنسی کو اس کا کھویا ہوا مقام اور قدر واپس نہیں مل جاتا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ شاید قائداعظمؒ کو ہماری یہ ندامت اور پشیمانی پسند آجائے اور وہ بارگاہِ الٰہی میں فریاد کریں کہ یااﷲ! میری قوم کے سپوت تیری عطا کی ہوئی مملکت کو سنبھال نہیں پا رہے‘ انہیں ہدایت دے‘ انہیں توفیق دے کہ وہ تباہی کے دہانے پر کھڑے ملک کی قدر کرنا سیکھ لیں اور اﷲ تعالیٰ ان کی یہ فریاد سن کر مملکتِ خداداد میں بسنے والوں پر رحم فرما دے۔ بدحالیوں‘ تباہیوں اور بربادیوں کے جابجا ڈیرے ختم ہو جائیں‘ گورننس کی بنجر زمین سرسبز و شاداب ہو جائے‘ میرٹ زندہ ہو جائے۔ مہلت کی مٹھی سے سرکتی ہوئی آپشنز کی ریت بھی بس ختم ہونے کو ہے‘ اس کے بعد مٹھیاں بھی خالی ہو جائیں گی اور تہی دست تو ہم پہلے ہی ہو چکے ہیں۔ معاملہ اب تو بس رحم و کرم اور دعاؤں پر ہی آن پہنچا ہے کیونکہ اقدامات و اصلاحات کا جو حشر پون صدی سے دیکھتے چلے آئے ہیں‘ اس کے بعد ان سیاسی رہنمائوں کے منہ سے اصلاحات کے الفاظ سن کر چِڑ سی ہونے لگی ہے۔ اب تو یہ چِڑ بھی قوم کی مستقل چڑچڑاہٹ بن چکی ہے۔ جہاں اصلاحات اور اقدامات مفادات میں لتھڑے ہوئے ہوں‘ وہاں ریفارمز نہیں ڈیفارمز کے انبار ہی جا بجا نظر آتے ہیں۔
ہمارے ایک بزرگ دوست اپنے بٹوے میں دس ڈالر اس لیے رکھتے ہیں کہ شاید ڈالر کی سربلندی دیکھ کر سرنگوں روپے کو کچھ لحاظ آجائے۔ ان کی اس بات پر کئی بار ہلکی پھلکی بحث بھی ہو جایا کرتی ہے۔ میں نے گزشتہ روز بھی تقریباً احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو بہت حقیقت پسند اور معاملات کے تلخ پہلوؤں پر گہری نظر رکھتے ہیں‘ پھر آپ اس خوش گمانی میں کیوں مبتلا ہیں کہ ڈالر کو بٹوے میں رکھنے سے روپے کی صحت پر بھی کوئی مثبت اثر پڑے گا۔ اس بار بھی ان کا وہی روایتی جواب سننے کو ملا: کچھ بھی ہو‘ روپے کی صحت پر اثر پڑے نہ پڑے‘ اسے اپنی بے قدری کا احساس ہو نہ ہو‘ وہ اپنے کھوئے ہوئے مقام پر بھلے شرمسار ہو نہ ہو‘ میں اسے اسی طرح شرم اور غیرت دلاتا رہوں گا۔ تم بھی دس‘ بیس ڈالر گھر میں یا بٹوے میں پاکستانی کرنسی کے ساتھ رکھا کرو۔
اکثر سوچتا ہوں قائداعظمؒ اپنی بیماری کا علاج کروانے کے لیے انگلستان تو جا ہی سکتے تھے جہاں ان کی بیماری کا علاج ممکن بھی تھا‘ لیکن انہوں نے اپنی بیماری کو محض اسی لیے چھپائے رکھا کہ اگر یہ خبر عام ہو گئی تو پاکستان مخالف عناصر قیامِ پاکستان کے عمل کو کھٹائی میں ڈالنے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جائیں گے اور قائداعظمؒ کو یہ خدشہ بھی لاحق تھا کہ اگر یہ موذی مرض جان لیوا ثابت ہوا تو بعد ازاں تحریک پاکستان نہ صرف دم توڑ دے گی بلکہ انہیں اپنی صفوں میں متبادل قیادت بھی دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ تاہم انہوں نے اپنی بیماری کو چھپا کر نہ صرف جان کا روگ لگا لیا بلکہ حصولِ پاکستان کی کوششوں کو تیز سے تیز تر کرتے چلے گئے۔
سلام ہے باوقار اور عالیشان قائداعظم ؒ کو‘ جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد بھی علاج کے لیے برطانیہ جانے کے بجائے نوزائیدہ مملکت کو درپیش کٹھن مراحل کو اوّلین ترجیح جبکہ خود کو لاحق موذی مرض کو ثانوی تصور کر لیا۔ لمحہ لمحہ بگڑتی صحت اور روز بروز ریزہ ریزہ ہوتی طاقت کے باوجود ہمت نہیں ہاری‘ کمال حوصلہ اور مہارت سے اپنی اندرونی کیفیات کی تکلیف دہ لمحات کا زہر قطرہ قطرہ خود ہی پیتے رہے۔ افسوس! قیام پاکستان کے بعد ان کے علاج معالجہ اور دیکھ بھال کے معاملے میں کوئی بھی اقدام ان کے شایانِ شان نہیں کیا گیا۔ انہیں دور دراز مقام پر بھجوانے سے لے کر ایمبولینس کا پٹرول ختم ہونے تک کس کس کا رونا روئیں۔ اس تناظر میں قائداعظمؒ کو مملکتِ خداداد کا پہلا شہید بجا طور پر کہا جا سکتا ہے‘ جنہوں نے جانتے بوجھتے اس موت کو گلے لگایا جسے وہ باقاعدہ علاج کروا کر ٹال سکتے تھے۔ خود اختیاری مرضِ موت کی اذیتیں اور تکلیفیں اپنے جسمِ ناتواں پر ہی جھیلتے رہے اور آخری سانس تک قوم کے لیے بے چین اور بے قرار ہی رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انہیں بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ بدلتی نظروں کا بخوبی احساس تھا لیکن روز بروز گرتی ہوئی صحت اور بگڑی ہوئی حالت برابر آڑے آتی رہی۔ زندگی کے آخری ایام کے دوران زیارت میں عیادت کے لیے اکثر آنے والوں کے بارے میں بھی بخوبی جانتے تھے کہ وہ مزاج پرسی کرنے نہیں بلکہ حالت دیکھنے آتے ہیں کہ ابھی کتنی سانسیں باقی ہیں۔ افسوس!
جو قومیں اپنے محسنوں کی قدر نہیں کرتیں‘ وہ اسی طرح بے قدری اور بے توقیری کا شکار ہوتی چلی جاتی ہیں۔ صد افسوس! ہم نے نہ قائداعظمؒ کی قدر کی اور نہ ہی ان کے افکار و تعلیمات پر عمل کیا۔ ناقدری کی مرتکب یہ قوم خود بے قدری اور بے توقیری کے ساتھ ساتھ بدحالی کی بدترین سطح پر بھی اسباب اور وجوہات تلاش کرنے کے بجائے آج بھی بغلیں بجا رہی ہے۔ ہوش کریں! یہ روپیہ نہیں‘ ہم ٹکے ٹوکری ہو چلے ہیں۔ قومی خزانے کا پیندا کھایا جا چکا ہے‘ اقدامات ادھ موئے اور اصلاحات منہ چھپائے پھر رہی ہیں۔ قرضے کی قسط ادا کرنے کے لیے بھی قرضے مانگتے پھر رہے ہیں۔ دوست ممالک میں کشکول لیے پھرنے کے باوجود کچھ بھی پلے نہیں ہے۔ انا اور خود داری سے لے کر غیرتِ قومی پر سمجھوتوں پر سمجھوتے جاری ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد جن ممالک کو تکنیکی و مالی معاونت سمیت قرضے بھی دیتے رہے ہیں‘ آج ان سے مزید قرضے مانگنے کے قابل اس لیے نہیں ہیں کہ ہمارا اعتبار اور اعتماد بھی باقی نہیں رہا۔ صبح شام دیوالیہ پن کی بازگشت سماعتوں کو پھاڑے چلے جا رہی ہے۔ خدا جانے حکمران کس گمان میں اور کیونکر نازاں وشاداں ہیں؟ وفاقی کابینہ کی تعداد 78ہو چکی ہے۔ ان درجنوں وزیروں اور مشیروں میں کوئی ایک ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں انگلی اٹھا کر گواہی دی جا سکے اور اس نے حقِ حکمرانی ادا کیا ہو۔
زرِ مبادلہ کے ذخائر گھٹتے گھٹتے نو سال کی نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے نے سرکاری بابوؤں کے اثاثے سامنے لانے کا مطالبہ کر ڈالا ہے۔ 1988ء سے مسلسل قرضے دینے والوں کو جب اپنا سب کچھ ڈوبتا نظر آنا شروع ہوا تو انہوں نے بھی اب ان سوراخوں کی نشاندہی کی ہے جن کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں اور پرانا جانتے ہیں۔ خیر‘ دیر آید درست آید‘ دیکھنا یہ ہے کہ بند گلی میں آنے کے بعد یہ سوراخ کب اور کس طرح بند ہوتے ہیں؟