عمران خان کوحفاظتی ضمانت مل گئی ہے‘ متعدد بار طلبی کے بعد عمران خان جس طرح عدالتِ عالیہ میں پیش ہوئے وہ مناظر قانون اور انصاف کی بالادستی کو چار چاند لگانے کے لیے کافی ہیں۔ خیر طلب کرنے والے جانیں اور پیش ہونے والے۔ کرئہ ارض پر مملکتِ خداداد واحد خطہ ہے جہاں ایوان سے زندان اور زندان سے ایوان کا سفر چٹکیوں میں طے ہو جاتا ہے۔یوں لگتا ہے سوائے عوام کے سبھی ضمانتوں پر ہیں۔ حکمران اتحاد کے قائدین کچھ عرصہ قبل زیرِ عتاب اور عدالتوں سے ضمانتوں پر ضمانتیں حاصل کر رہے تھے۔ شریف برادران اور زرداری صاحب کل اسیر تھے آج حکمران ہیں۔عمران خان کل حکمران تھے آج اسیری کے شدید خطرات سے دوچا رہیں جبکہ ان کے سرکردہ اور کئی قریبی ساتھی اندر کی ہوا کھا آئے ہیں۔ سبھی مناظر نئے ایڈیشنز کے ساتھ ماضی کا ایکشن ری پلے ہی لگتے ہیں۔ مسندِ اقتدار پر بیٹھنے والے کب کنٹینروں پر آ جائیں اور کنٹینروں پر کھڑے ہو کر واویلا کرنے والے کب برسرِ اقتدار آ جائیں‘یہی تو ہماری جمہوریت کا اصل حسن ہے اور اس حسن کے جلوے ہوں یا لشکارے سبھی ملک وقوم کو گہنائے چلے جا رہے ہیں۔
پرانے کالموں پر کبھی نظر پڑ جائے تو صرف کردار اور چہروں کی تبدیلی کے ساتھ سبھی کچھ حسبِ حال لگتا ہے۔ حالاتِ پریشاں سے لیکر سماج سیوک نیتاؤں کے بھاشن اور آنیوں جانیوں سمیت کچھ بھی نہیں بدلا۔ 2019ء کا ایک کالم بعنوان ''عوام بھی ضمانت پر رہائی مانگتے ہیں‘‘ آج بھی تازہ اور حالات پر فِٹ بیٹھتا ہے‘ چند سطریں پڑھ کر ہی قارئین کو اندازہ ہو جائے گا کہ صرف باری بدلی ہے کھیل وہی پرانا ہے۔ اسی طرح آئندہ بھی باریاں ہی لگتی رہیں گی اور کھیل یونہی جاری رہے گا۔ یہ سبھی حکمرانی کے مزے بھی لیتے رہے ہیں گے اور انہیں ضمانتیں بھی برابر ملتی رہیں گی۔چند سطریں ملاحظہ فرمائیے۔
'' ان سماج سیوک نیتائوں کے لیے اسیری اور رہائی گیم پلے کا حصہ اور ادھر ڈوبے اُدھر نکلے والا معاملہ ہے۔ یہ تو ڈوب کر نکل آتے ہیں لیکن ان کے ہاتھوں ڈوبے عوام کہیں بھنور میں ہچکولے کھا رہے ہیں تو کہیں غوطے پر غوطے کھائے چلے جارہے ہیں۔ نواز شریف کی ضمانت تو ہوگئی‘ زرداری بھی آج نہیں تو کل طبی بنیادوں پر باہر آکر چلتے پھرتے نظر آسکتے ہیں‘ لیکن نصیبوں جلے عوام کی ضمانت تاحال ضبط ہے۔ بے کس اور لاچار عوام بھی رہائی چاہتے ہیں اورپوچھتے پھرتے ہیں کہ وہ اپنی رہائی کے لیے کون سی زنجیرِ عدل ہلائیں کہ ان کی سیاہ بختی اور ذلتِ جاریہ کچھ تو کم پڑے۔ کہیں تو اس کا زور ٹوٹے اور عوام کے اوسان اور سانسیں بحال ہوںاور یہ محسوس کرسکیں کہ وہ بھی حضرت انسان کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں‘ان کے بھی کوئی حقوق ہیں جن سے انہیں سوچی سمجھی سکیم کے تحت تاحال محروم رکھا گیا ہے۔
نواز شریف اور زرداری اینڈ کمپنی سب کچھ کرکے معصوم بن کر ضمانتیں مانگتے پھرتے ہیں‘ لیکن بیچارے عوام نے تو کچھ بھی نہیں کیا‘وہ پھر بھی ضمانت پر رہائی کے طلبگار بنے پھرتے ہیں۔وہ ان حکمرانوں کے اس شکنجے سے رہائی مانگتے ہیں جو اِن کے طرزِ حکمرانی کے نتیجہ میں عوام کوجکڑے ہوئے ہے۔اس طوق سے نجات مانگتے ہیں جو ان کی گردنوں میں مینڈیٹ کی صورت میں پڑ چکا ہے۔ کوئی روٹی کے ہاتھوں تو کوئی علاج معالجہ کے ہاتھوں‘کوئی عزتِ نفس کے ہاتھوں تو کوئی سماجی انصاف کے ہاتھوں‘ان حکمرانوں کے ہاں گروی پڑا نظر آتا ہے۔
یہ عوام آخر کب تک محصور اور یرغمال رہیں گے؟ یہ اب رہائی مانگتے ہیں۔ یہ بھی جینے کا حق اور دو وقت پیٹ بھر روٹی کے طلبگار ہیں۔ یہ بھی علاج معالجہ کا وہی بنیادی حق رکھتے ہیں جن کے حقدار نواز شریف اور زرداری سمیت تمام اشرافیہ اور دیگر کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ معصوم اور کم سن بچے ننھے منے ہاتھوں میں وائپر پکڑے سڑکوں اور چوراہوں پر گاڑیوں کے شیشے چمکانے کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں۔ اس کے عوض جو کچھ انہیں ملتا ہے اس سے گھر کا چولہا تو نہیں البتہ دل اور خون ضرورجلتا ہے۔ انصاف سرکار کے لنگر خانے اور پناہ گاہیں بھی انہیں پناہ دینے سے قاصر ہیں‘ کیونکہ پناہ گاہیں نہ صرف ٹوٹ پھوٹ کا شکار بلکہ ان کے ملازمین بزدار سرکار سے پناہ مانگتے پھرتے ہیں کہ خدا کے لیے ہماری تنخواہیں اور واجبات دے دو۔ گویا پناہ گاہیں بھی پناہ مانگتی پھرتی ہیں۔ ایسے میں سڑکوں پر کھلے آسمان تلے رُل کر پلنے والے ان معصوموں کی بھی کوئی پناہ گاہ ہے؟
تھانہ‘پٹوار اور ہسپتال سے لے کر ایوان اقتدارتک کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ بے حسی‘ ڈھٹائی اور ذلت کے سارے مناظر جوں کے توں جاری ہیں۔ جیلوں میں اسیر نہ جانے کتنے ایسے ہیں جو ہیپاٹائٹس‘ٹی بی اور سرطان جیسے مہلک امراض لیے اپنی اسیری کے دن پورے کررہے ہیں۔ ادویات اور علاج معالجہ تو درکنار صاف پانی اور محفوظ خوراک تک میسر نہیں۔ وہ بھی ان جان لیوا بیماریوں سے پناہ مانگتے ہیں‘وہ بھی جینا چاہتے ہیں۔ کیا انہیں بھی کوئی ریلیف‘ کوئی ضمانت مل سکتی ہے؟ ہرگز نہیں‘انہیں یہ ضمانت اس لیے نہیں مل سکتی کہ ان کا تعلق اشرافیہ سے نہیں بلکہ کرموں جلے بدنصیب عوام سے ہے۔انہیں اسی گلے سڑے نظام میں سڑنا ہوگااور سڑ سڑ کر ہی مرنا ہوگا جبکہ سیاسی اشرافیہ کے لیے جیل میں خدمتگاروں سے لے کر من پسند انواع و اقسام کے پکوان سمیت سبھی سہولیات ان کا استحقاق ہوتا ہے‘‘۔
ماڑا اور بے وسیلہ بندہ پولیس کا ریمانڈ سے بھگتنے کے بعد اپنے پیروں پر نہیں ہوتا۔ عدالت میں پیشی کے لیے اسے میلے کچیلے لباس‘ ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کر لایا جاتا ہے لیکن سیاسی اشرافیہ عدالتوں میں اعلیٰ پوشاکیں پہنے‘ بال سنوارے‘ چم چم کرتے جوتے پہنے‘ وکٹری کا نشان بنائے اس طرح پیش ہوتی ہے گویا یہ کوئی معرکہ مار کر آرہے ہوں۔ ماضی کے سبھی ادوار ہوں یا حالاتِ پریشاں آنے والا ہر دن ان کا تسلسل اور مرگِ نو کا باعث ہے۔ سماج سیوک نیتا اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر ساری موجیں اور ساری مراعات فقط انہی کے لیے ہیں۔ عوام کے لیے تو جینا آسان ہے نہ مرنا۔ایسے میں عوام کو ضمانت کیسے مل سکتی ہے۔ یہ ضمانتیں‘ رعایتیں اور مراعات تو صرف اشرافیہ کے لیے ہیں۔
چلتے چلتے ان انتخابات کا ذکر بھی کرتے چلیں جن کا اعلان صدر مملکت کر چکے ہیں لیکن الیکشن کمیشن اور حکمران اتحاد گھبراہٹ اور بوکھلاہت کا شکار نظر آتا ہے۔ اس تناظر میں الیکشن سے بھاگنا یا تاخیری حربے استعمال کرنا دونوں صورتوں میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ فیصلہ آچکا ہے۔ انتخابات کو ٹالنے والے دراصل اس شکست کو ٹالنے کے حیلے بہانے تلاش کر رہے ہیں جو انہیں نظر آرہی ہے۔ یہ تلاش انہیں اس مقام پر نہ لے جائے کہ دو صوبوں کے انتخابات سے بھاگتے بھاگتے عام انتخابات ہی کروانے پڑ جائیں۔
سالِ رواں کو آئین کی گولڈن جوبلی کے سال کے طور پر منانے کے بجائے آئین کو بچانے کے لالے نہ پڑ جائیں۔ اُلٹی پڑتی تدبیریں اور ختم ہوتے آپشنز کے باوجود ہوش کے ناخن نہ لیے تو ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ عوام سے مسلسل بدعہدی اور بے وفائی کے مرتکب سماج سیوک نیتاؤں سے کیا زمین بھی ناراض ہے؟ ان کی سبھی چالیں اُلٹی اور سارے حربے دھرے پڑے ہیں‘ ان کی نیت اور ارادے ہوں یا دلوں کے بھید بھاؤ سبھی بے نقاب اور بے لباس ہوچکے ہیں۔ پون صدی سے جاری اس اُدھم پر کہیں زمین ہی ان کی ضمانت ضبط نہ کرلے۔