مملکتِ خداداد کا منظرنامہ 70ء کی دہائی کا ایکشن رِی پلے بنتا چلا جا رہا ہے۔ نو جماعتی اتحاد تب ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی مشکلات بڑھائے چلے جا رہا تھا جبکہ آج کل پی ٹی آئی نے تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ پنجاب سیاسی اکھاڑا بن چکا ہے۔ لاہور میں تحریک انصاف کی ریلی پر مبینہ پولیس تشدد سے پی ٹی آئی کا ایک کارکن جاں بحق اور درجنوں زخمی ہونے کے علاوہ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ کے صائب فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن پنجاب میں انتخابات کے لیے الیکشن شیڈول جاری کر چکا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی عدلیہ کے ساتھ یکجہتی کے لیے نکالی جانے والی ریلی کو روکنے کے لیے دفعہ 144 کے نام پر جو حربے اور جو طاقت استعمال کی گئی‘ اسے دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ پنجاب میں نگران حکومت نہیں بلکہ پی ڈی ایم ہی برسرِ اقتدار ہے کیونکہ نگران حکومت کے سبھی فیصلے اور پالیسیاں وفاقی حکومت کے ایجنڈے اور ترجیحات کے گرد ہی گھومتی نظر آتی ہیں۔
سیاست میں بڑھتا ہوا اشتعال اور تشدد حالات کو اس نہج پر نہ لے جائے کہ متوقع انتخابات ہی کھٹائی میں پڑ جائیں جبکہ دوسری طرف انتخابات ہونے کی صورت میں ناخوشگوار واقعات کے اندیشے بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ دور کی کوڑی لانے والوں کو تو دور دور تک انتخابات نظر ہی نہیں آرہے‘ خیر آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ انتخابات سے قبل نئے چیئرمین نیب کی تقرری ہو یا انہیں بااختیار بنانے کا فیصلہ‘ یہ سبھی عوامل سپریم کورٹ کی طرف سے نیب قوانین میں تبدیلی بارے تحفظات کو مزید تقویت دینے کے واضح اشارے ہیں۔ حالیہ کسی کالم میں پہلے بھی باور کروا چکا ہوں کہ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے شدید تحفظات کے بعد عین ممکن ہے کہ نئے نیب قوانین پر نظامِ انصاف حرکت میں آجائے۔ اگر ایسا ہوا تو کلین چٹیں لیے پھرنے والے نہ اِدھر کے رہیں گے نہ اُدھر کے۔ مل بانٹ کر کھانے والوں نے اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کے ساتھ ساتھ پچاس کروڑ سے کم مالیت کی کرپشن کو نیب کے دائرۂ کار سے نکالنے کے علاوہ مہنگے ترین کیسوں میں پکڑے جانے والے سبھی سستے میں چھڑوا لیے۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ نے عمران خان کی مختلف کیسوں میں ضمانتیں منظور ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر خان صاحب پر زیادہ مہربانی ہوئی تو نظامِ انصاف کی غیرجانبداری پر حرف آسکتا ہے۔ وزیر موصوف کا اقبال بلند ہو‘ ان کے اکثر بیانات اور اعلانات سن کر گمان ہوتا ہے کہ خدا جانے وہ کس دنیا کے باسی ہیں۔ اپنی آنکھوں میں شہتیر لیے پھرنے والے دوسروں کی آنکھ میں بال پر وبال کھڑے کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ریکارڈ کی درستی اور یاد دہانی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ شہباز شریف کے کیسز جن احتساب عدالتوں میں زیر سماعت رہے‘ وہ عدالتیں تادیر ججز کی تقرری کی ہی منتظر رہیں۔ تھوڑی سی کوشش کریں تو شاید یہ بھی یاد آجائے کہ شہباز شریف ہائی پروفائل کیسز کے باوجود لمبا عرصہ ضمانتوں اور جیل کے بجائے منسٹرز انکلیو میں ہی مقیم رہے۔ شیخ رشید کے بیانات بھی یاد کراتا چلوں کہ وہ بطور وزیر داخلہ‘ دہائی دیا کرتے تھے کہ شہباز شریف کی گوٹی فٹ ہے۔ اس سارے تماشے کے مرکزی کردار تحریک انصاف کی حکومت کے مشیرِ احتساب شہزاد اکبر بھی دونوں طرف خوب کھیلنے کے علاوہ مبینہ طور پرپرائیویٹ جہازوں پر سیر سپاٹے اور ذوق و شوق کے مطابق مہمان داریاں کراتے اور ناز بھی برابر اٹھواتے رہے ہیں۔ بات ہو رہی تھی نئے نیب قوانین پر اعلیٰ عدلیہ کے تحفظات اور نئے چیئرمین نیب کو بااختیار بنانے کے فیصلے کی‘ خاطر جمع رکھیے! سستے چھوٹنے والوں کو سبھی فیصلے مہنگے بھی پڑ سکتے ہیں۔
انتخابات سے بھاگنے والے ہوں یا انتخابات کے لیے مہم جوئی کرنے والے‘ سبھی کو اقتدار کی بھوک بے حال کیے ہوئے ہے۔ کسی کو عوام سے کوئی غرض ہے نہ عوام کے مسائل سے کوئی سروکار! عوام سبھی کو برابر بھگت چکے ہیں۔ جہاں مینڈیٹ کی خرید و فروخت کو اراکینِ اسمبلی اپنا استحقاق سمجھتے ہوں‘ ضرورتوں کی دلالی کو مفاہمت اور جمہوری رویوں کا نام دیتے ہوں‘ ووٹ کی سیاہی عوام کے منہ پر مل کر سیاہ بختی ان کا مقدر بنا ڈالتے ہوں وہاں انتخابات محض شوقِ حکمرانی کے لیے ہوتے ہیں۔ اس شوق کی تکمیل کے لیے ملک و قوم کے ساتھ بھلے کوئی بھی کھلواڑ کرنا پڑے‘ گدھوں پر لکیریں بنا کر زیبرے بنانے کے کارخانے ہوں یا سسٹم میں عرصۂ درازسے نقب لگائے ہوئے نام نہاد سقراط و بقراط‘ کس کس کا نام لیں‘ کس کس کا رونا روئیں؟ ان نجات دہندوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے کب دعائیں نہیں مانگی گئیں‘ انہیں بے پناہ چاہنے والے ان سے کب پناہ نہیں مانگتے پھرے۔ شوقِ حکمرانی کے مارے یہ سبھی مملکتِ خداداد کو اس مقام پر لے آئے ہیں کہ نہ انتخابات سے کچھ بدلنے والا ہے اور نہ ہی انتخابات کے بعد آنے والی نئی حکومت سے۔ معاملات ان سبھی کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں۔ ان میں سے اکثریت اپنی اگلی نسلوں کو اقتدار میں لانے کے لیے جتن کر رہی ہے‘ تو کوئی منہ کو لگی حکمرانی کے ہاتھوں مجبور ہے۔ پون صدی کی بداعمالیوں کا بوجھ کب تک اٹھایا جا سکتا ہے۔
اپنے ہی ایک کالم ''کالا دھن اور سفید خون‘‘ سے چند سطریں مستعار لے کر حالات کی نزاکت اور سنگینی کا احساس دلانے کی ایک اور کوشش کرتا چلوں۔ ''اس تھیوری کو لے کر نجانے کب سے لکھ رہا ہوں کہ ماضی کی فصل کاٹے بغیر کس طرح حال اور مستقبل سنوارا جا سکتا ہے۔ نازک دور اور نازک موڑ کے عذر اور ڈھکوسلے اٹھائے پھرنے والے سبھی حکمران ملک کو اس مقام پر لے آئے ہیں کہ مملکتِ خداداد سچ مچ نازک موڑ اور نازک دور سے دوچار ہو چکی ہے۔ ان کے جھوٹے بہانے پورا سچ بن کر ان کا منہ چڑا رہے ہیں۔ یہ حالات کی نزاکت کا احساس کرنے کے بجائے حالات کی سنگینی سے آنکھیں چراتے اور گمراہ کن بیانیے بیچنے سے آج بھی باز نہیں آ رہے۔ اقتدار کی دھینگا مشتی میں ایک دوسرے سے دست و گریباں سیاسی اشرافیہ کو خبر ہونی چاہیے کہ اقتدار کے لیے ملک کا ہونا ضروری ہے۔ گورننس اور میرٹ سے لے کر اقدامات اور اصلاحات سمیت ریاستی رِٹ جہاں غیر مؤثر ہوکر رہ جائے وہاں حکمرانی کیا خاک ہو گی؟ البتہ ملکی وسائل اور قرض کی صورت میں تھوڑی بہت خزانے کی کھرچن موجود ہے جو اب مصاحبین اور وزیروں‘ مشیروں کے اللے تللوں اور موج مستی کے لیے شاید ناکافی ہو۔ جن کو لت لگ چکی ہو‘ ان کے لیے تو کافی بھی ناکافی ہوتا ہے۔ پون صدی سے کوڑھ کاشت کرنے والے کس منہ سے کپاس اور گندم کی فصل کاٹنے کی تیاری کررہے ہیں؟ کوڑھ تو کوڑھ ہے‘ خودفریبی کے لیے اسے گندم کہہ لیں یا خوش فہمی کا شکار ہوکر اسے کپاس کا نام دے لیں۔ ماضی کی فصل کاٹے بغیر ہریالی کے خواب دیکھنے والے یاد رکھیں کہ قانونِ فطرت کسی آرڈیننس اور قرارداد سے ہرگز نہیں بدلتا‘‘۔
ہنر مندانِ آئین و ریاست سے کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ یہ ملک ان سبھی کے شوقِ حکمرانی کے لیے نہیں بنایا گیا تھا‘ انسانی تاریخ کی دلخراش تقسیم اور خاک و خون کی داستان ان کی نسلیں پالنے کے لیے نہیں لکھی گئی تھی‘ نسل در نسل تباہیاں اور بربادیاں پھیلانے والوں کا کہیں تو اَنت ہونا چاہیے۔ بار بار آزمانے اور روایتی فیصلوں کے بجائے اس بار کچھ فیصلے آؤٹ آف باکس نہ کیے گئے تو نجانے کیا کچھ آؤٹ آف فوکس ہونے جا رہا ہے۔