الیکشن کمیشن کی طرف سے پنجاب کا انتخابی شیڈول جاری ہونے کے باوجود انتخابات کھٹائی میں پڑتے نظر آرہے ہیں۔ نگران سرکار کسی طور الیکشن کروانے کا موڈ نہیں بنا پارہی جبکہ سرکردہ انتظامی بابو بھی خاصے پراعتماد ہیں کہ گلشن کا کاروبار یونہی چلتا رہے گا۔ بھلے ملک چلے نہ چلے بس ان کا سِکّہ چلنا چاہیے۔ ریاستی رِٹ اور گورننس کے معاملات پر پہلے ہی آسیب کا سایہ ہے اس پر ان کے نت نئے جگاڑ دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ یہ سبھی سانپ سیڑھی والی لڈو کھیل رہے ہیں۔ ان کی گوٹی بمشکل 96پر پہنچ تو جاتی ہے لیکن وہاں سانپ پہلے ہی پھن پھیلائے بیٹھا ہوتا ہے نتیجتاً واپس 16پر آنا پڑتا ہے۔ اسی طرح نگران سرکار 16 اور 96کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ انہیں کچھ ایسے کاموں میں الجھا دیا گیا ہے کہ الجھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ آئے روز ہونے والے درجنوں تبادلوں کا سکور سینکڑوں میں جا پہنچا ہے۔ تبادلوں پر اٹھنے والے بھاری مالی اخراجات صوبائی خزانے کے لیے صدمے سے ہرگز کم نہیں ہیں۔ ایک طرف مالی بحران اور دیگر معاشی چیلنجز دوسری طرف خوامخواہ کے یہ انتظامی اخراجات... خدا جانے کون سقراط اور بقراط ہیں جو نگران حکومت کو بند گلی میں دھکیلے چلے جا رہے ہیں۔
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ کابینہ کی تشکیل میں کچھ احتیاط اور ویژن اپلائی کر لیا جاتا تو شاید صورتحال اسقدر مایوس کن نہ ہوتی۔ سرکاری پوزیشن کی آڑ میں پریکٹس اور کئی پروجیکٹ چلانے والے ہوں یا بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے یہ سبھی تو ہمیشہ ہی نان سٹاپ متحرک رہے ہیں۔ اب اقتدار ہاتھ لگا ہے تو ایسا نادر موقع کون گنوائے؟ اس دور میں کس کس کو چار چاند لگتے ہیں اس کا پتا تو تبھی چلے گا جب چاند چڑھیں گے۔ خدا جانے کون سا آسیب ہے‘ کیسی مجبوریاں ہیں جو نگران وزیر اعلیٰ جیسی ویژنری اور سمارٹ شخصیت کو بھی روایتی فیصلوں کی دلدل میں دھنسائے چلی جارہی ہے۔ نگران حکومت کی طرف سے تھوک کے بھاؤ تبادلوں سمیت طرزِ حکمرانی کے روپ دیکھ کر جابجا مباحثوں کا سماں ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو وزیراعلیٰ کے ویژنری اور آؤٹ آف باکس فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ بنتے چلے جا رہے ہیں جبکہ دیگر وزرا کی طلب تو بس جھنڈے والی گاڑی اور وہ منصب ہی تھا جو صرف نگران وزیراعلیٰ کی نظر ِعنایت سے ہی ممکن ہو سکتا تھا۔ ایسے حالات میں کیے جانے والے فیصلوں کے نتائج اس سے بہتر کیونکر ہو سکتے ہیں ‘تاہم ان فرمائشی فیصلوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جن پر عملدرآمد سے انکار اور فرار ممکن نہیں‘ ا س کا مارجن نگران حکومت کو ضرور دینا چاہیے۔
بات شروع ہوئی تھی انتخابی شیڈول اور نگران حکومت کے موڈ سے... اُمیدوار کاغذاتِ نامزدگی اور فیسیں اس اُمید پر جمع کروا رہے ہیں کہ وہ انتخابی دنگل میں زور آزمائی کریں گے لیکن الیکشن سے بھاگنے والے اپنا زور بھی لگائیں گے۔ خدا خیر کرے! وہ کیا حالات ہوں گے‘ کیسے عذر ہوں گے‘ کیا جواز بنائے جائیں گے کہ انتخابی بلا کو ٹالا جاسکے۔
مسلم لیگ(ن) کے حالات یہ ہیں کہ جانے مانے اُمیدوار بھی گھبرائے ہوئے ہیں کہ کس طرح حلقوں میں جائیں گے‘عوام کا سامنا کیسے کر پائیں گے‘ ان کے چبھتے ہوئے سوالات کا جواب کہاں سے لائیں گے؟اور کس بوتے پر ووٹ مانگیں گے؟ جبکہ پی ٹی آئی والوں پر بس ایک ہی دھن سوار ہے کہ شیڈول کے مطابق کسی طرح انتخابات ہو جائیں۔ انہیں نہ عوام کے سوالوں کی پروا ہے اور نہ ہی اپنی حکومت کی کارکردگی پر کوئی ملال ہے‘ وہ نازاں اور شاداں ہیں کہ بس نام ہی کافی ہے۔ پی ٹی آئی کے اندر بھی ٹکٹوں کے حصول کے لیے کانٹے دار مقابلہ جاری ہے۔لابنگ‘ سفارشیں اور جوڑ توڑ سمیت نجانے کیا کچھ ہورہا ہے۔ ٹکٹ کے لیے بھاگ دوڑ کرنے والے برملا کہتے نظر آتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی ٹکٹ نہیں پکی سیٹ ہے‘ جسے ٹکٹ مل گئی سمجھو اسے سیٹ مل گئی۔
ایسے حالات میں مسلم لیگ(ن) سمیت پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں انتخابات سے کیوں نہ بھاگیں؟ انتخابات سے بھاگتے بھاگتے یہ سبھی میدان سے باہر ہی نہ نکل جائیں۔ بھاگنے والے بھاگے جا رہے ہیں‘بھگانے والے انہیں آگے لگائے ہوئے ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ جہاں سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے وہاں شاہ محمود قریشی کے دل میں چھپی خواہش بھی ان کی زبان پر آ ہی گئی۔ شاہ جی فرماتے ہیں ''عمران خان گرفتار ہوئے تو پارٹی کی قیادت میں سنبھالوں گا‘‘۔ شاہ جی! کافی عرصے سے وزارتِ عظمیٰ کے ازخود اُمید ہیں۔ اشاروں کنایوں میں وہ اپنی طرف توجہ بھی دلاتے رہے ہیں‘ توجہ کرنے والے ہی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔چودھری پرویز الٰہی کو تحریک انصاف کی صدارت ملنے کے بعد شاہ جی! خاصے گھبرائے اور جلدی میں لگتے ہیں۔ انہیں یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں کہیں پارٹی قیادت پرویز الٰہی کے ہتھے نہ لگ جائے‘ جس پر شاہ جی نجانے کب سے نظرلگائے ہوئے ہیں۔
تحریک انصاف میں چودھری پرویز الٰہی کی شمولیت کے بعد شاہ جی کو اپنی منزل مزید دور اور دشوار گزار نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ انہی خدشات اور تحفظات سے گھبرا کر انہوں نے ان دلی خواہشات کا اظہار بھی کر ڈالا جو روز بروز ان کی حسرت بنتی چلی جا رہی ہیں۔ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے انہیں عمران خان کی گرفتاری بھی شاید منظور ہے بشرطیکہ پارٹی قیادت انہیں سونپ دی جائے۔ جیل بھرو تحریک کی کال پر شاہ جی نے بڑھ چڑھ کر گرفتاری بھی خود کو پارٹی میں ممتاز رکھنے کے لیے ہی دی تھی لیکن پارٹی نے انہیں وہ پذیرائی نہیں دی جس کے حصول کے لیے انہوں نے جیل جانے کا رسک لے لیا تھا۔
عمران خان ایک بار پھر ریلی کی کال دے چکے ہیں‘ دوسری طرف کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے کے دن بھی آن پہنچے ہیں لیکن تاحال انتخابی ماحول بنتا دکھائی نہیں دے رہا۔ تحریک انصاف کی طرزِ سیاست ہو یا طرزِ حکومت‘ دونوں ہی طلسماتی طور پر چل رہے ہیں۔ حکومت میں تھے تو میرٹ اور گورننس سے لیکر سبھی معاملات میں ماضی کی بدترین طرزِ حکمرانی کے سبھی ریکارڈ ریکارڈ مدت میں توڑتے رہے۔ اب اپوزیشن میں آئے ہیں تو اکثر فیصلوں کو اندرونی تنقید اور مزاحمت کے باوجود پذیرائی اور وہ عوامی مقبولیت نصیب ہو رہی ہے کہ کچھ مت پوچھئے۔ جبکہ مسلم لیگ(ن) کی سبھی تدبیریں اور ترکیبیں نہ صرف اُلٹی پڑتی چلی جارہی ہیں بلکہ اکثر فیصلوں کے نتائج بھی ان کی توقعات کے قطعی برعکس نکل رہے ہیں۔ ایسی صورت میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف کے ستارے برابر چمک رہے ہیں اور (ن)لیگ کے ستارے گردش سے نہیں نکل رہے۔
سیاسی منظرنامہ روز بروز مسلم لیگ(ن) کیلئے غیر موافق ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کا نام آتے ہی ان پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ متوقع انتخابات میں انہیں ان تمام فیصلوں کی قیمت بھی چکانا پڑ سکتی ہے جو حکومتی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے مجبوراً کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس تناظر میں مسلم لیگ(ن) کے لیے یہ انتخابی معرکہ گزشتہ عام انتخابات (2018ء) کی نسبت زیادہ کٹھن مرحلہ بنتا چلا جا رہا ہے جبکہ نگران سرکار کے غیر مقبول اور ناموافق فیصلوں کا بوجھ بھی (ن)لیگ ہی کو اٹھانا پڑے گا۔ ایسے میں مسلم لیگ(ن) کے تگڑے اُمیدوار بھی انتخابی بلا ٹلنے کی دعائیں مانگتے نظر آتے ہیں۔