شہباز شریف کے اس بیان کا مطلب کہ اگر وہ انکار نہ کرتے تو عمران خان وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے‘ یہ ہے کہ گویا 2018ء کے الیکشن سے قبل شہباز شریف کا انکار ہی عمران خان کیلئے اقتدار کی سیڑھی بنتا چلا گیا۔ شہباز شریف کے اس بیان کے بعد کسی طرف سے تردید یا جوابی بیان نہ آنے کا مطلب یہی ہے کہ شہباز شریف ڈیل کی آفر ٹھکرا کر ایوان سے زندان کے راہی بن گئے۔ مملکتِ خداداد بھی عجیب خطہ ہے کہ جہاں زندان سے ایوان اور ایوان سے زندان کا سفر چٹکیوں میں طے ہو جاتا ہے۔ ان سبھی تماشوں کے جو بھی عذر‘ جواز اور حیلے ہوں یا من گھڑت قانونی توجیحات‘ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک ڈھکوسلا اور لطیفہ ہی لگتی ہیں۔
اس خطے کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ سبھی قانونی رعایتیں اور غیرمعمولی آسانیاں صرف اشرافیہ کیلئے مختص ہیں۔ انہیں گھر بیٹھے ضمانتیں اور ریلیف اس طرح مل جاتا ہے جیسے آج کل بچے آن لائن آرڈر کرکے من چاہے برگر اور پیزے منگوا لیتے ہیں‘ ادھر فون پر آرڈر کیا ادھر کچھ ہی دیر میں ڈِلیوری بوائے آپ کا مطلوبہ آرڈر لے کر دروازے پر حاضر ہوگیا۔ جس طرح ڈیجیٹل دور کی ہر بات اچھوتی اور نرالی ہے‘ ہر مسئلے کا حل رہنمائی کی صورت میں آپ کے موبائل فون میں موجود ہے۔ اسی طرح اشرافیہ کے پاس بھی ہر مصیبت اور کڑے وقت کو ٹالنے کے لیے سبھی آپشنز ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ قانونی جواز اور آئینی توجیحات سے لے کر حیلوں اور بہانوں کے ذخائر ان سبھی کے پاس موجود ہیں۔ خاصے کی بات یہ ہے کہ یہ سارے ریلیف اور آسانیاں صرف اور صرف خواص کیلئے ہیں‘ عوام کو داد رسی اور انصاف کیلئے غیر انسانی سلوک سے لے کر دھتکار اور پھٹکار کے کیسے کیسے اذیت ناک مراحل سے گزر کر بھی کہیں پناہ ملتی ہے نہ امان! سبھی قوانین‘ ضابطے اور اصول عوام پر تو آزمائے جاتے ہیں جبکہ اشرافیہ قانون اور آئین کو کہاں مانتی ہے۔
تعجب ہے! اقتدار کی دھینگا مشتی میں گتھم گتھا سبھی ضمانتوں پر اور ریلیف یافتہ ہیں۔ اقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل زندان اور ایوان کے گرد ہی گھومتا ہے۔ آج جو حکومتی ایوانوں میں ہیں‘ وہ کل زندان میں ہوں گے اور جو آج زندان میں ہیں وہ ایوان میں جانے کیلئے سبھی حدیں پار کیے ہوئے ہیں۔ یہ سارے ہی سبھی حدیں اس لیے پار کر جاتے ہیں کہ ان سب کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔ ذاتی خواہشات سے لے کر اَرمانوں اور حسرتوں کی تکمیل کیلئے کیسی کیسی حدود توڑتے چلے آئے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ حدیں پار کروانے سے لے کر حدود توڑنے تک سبھی مراحل میں آسانیاں اور ریلیف فراہم کرنے والے بھی ہر دور میں پیش پیش ہی رہے ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ ضمانتوں اور ریلیف پر سماج سیوک بنی ساری اشرافیہ نہلے پہ دہلا اور ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔
ان سبھی کی طرزِ حکومت ہو یا طرزِ سیاست دونوں ہی اس قول کی ایک تصویر ہیں کہ ''جب ہر کوئی کشتی میں اپنے حصے کا سوراخ کر رہا ہو تو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ فلاں کا سوراخ میرے سوراخ سے کہیں بڑا تھا‘ اسی لیے کشتی ڈوب گئی‘‘۔ جب کشتی میں سوار ہی مقابلے پر اتر آئیں کہ کون کتنا بڑا سوراخ کرتا ہے تو کشتی کو ڈوبنے سے کون بچا سکتا ہے۔ اس پر کمال مہارت یہ کہ کشتی پر سوار ہونے کے باوجود یہ سبھی ڈوبنے سے برابر بچتے چلے آئے ہیں۔ یہ کیسے کاری گر ہیں کہ ہمیشہ کشتی ہی ڈوبتی چلی آئی ہے‘ یہ سارے صاف بچتے چلے آرہے ہیں۔
بات ہو رہی تھی کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل شہباز شریف کو ڈیل آفر کی گئی تھی۔ ہماری سیاسی تاریخ ایسی ڈیلز اور پیشکشوں سے بھری پڑی ہے۔ جہاں انتقالِ اقتدار کے پیچھے ڈیل کار فرما ہو تو وہاں برسرِ اقتدار آنے والوں کا طرزِ حکمرانی بھی ڈیل ہی بن جاتا ہے۔ ڈیل یقینا یکطرفہ نہیں ہوتی‘ دونوں فریق اپنی اپنی سہولت اور فائدے کو مدنظر رکھ کر ہی کوئی فیصلہ اور سمجھوتا کرتے ہیں۔ ان فریقین کے درمیان اصل فریق اور سٹیک ہولڈر عوام کا کوئی ذکر ہے نہ کوئی کردار۔ کاش! کوئی ڈیل‘ کوئی آفر‘ کوئی ریلیف‘ کوئی سمجھوتا‘ کوئی این آر او عوام کے لیے بھی ہوتا! قانون کی کتابیں اور آئینی دستاویزات اشرافیہ کے لیے جواز اور توجیحات کے انبار لگا دیتی ہیں لیکن کوئی نکتہ عوام کے حق میں ایسا نہیں ہے جو عوام کو کوئی ریلیف دے سکے۔ کیا کبھی عوام کو بھی ضمانت مل سکے گی‘ جو ناکردہ جرائم کی سزائیں نسل در نسل بھگت رہے ہیں۔
عوام کو ناختم ہونے والی سزاؤں سے ریلیف اور ضمانت شاید اس لیے بھی نہیں مل سکتی کہ عوام ووٹ کی سیاہی کو اپنے ہاتھوں سے اپنے مقدر پر ملتے چلے آرہے ہیں۔ عوام کو ان دھوکوں اور جھانسوں کی لت لگ چکی ہے جو وہ سیاسی اشرافیہ سے کھاتے چلے آئے ہیں۔ دھتکار اور پھٹکار بھی عوام کی خوراک بن چکی ہے۔ اس خوراک کے حصول کیلئے یہ دربدر بھٹکتے اور قطاریں لگائے پھرتے ہیں۔ انا اور عزتِ نفس پر سمجھوتوں سے لے کر توہینِ انسانیت کے سبھی رویوں پر رونے کے بجائے ہنسی خوشی جھیل جاتے ہیں۔ پتھر دِل رہنمائوں کو بار بار مینڈیٹ دے کر بھی ان کی سنگ دلی سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ اپنے بچوں کے ہاتھوں میں کتابوں کے بجائے اوزار دیکھ کر بھی ان کی اصلیت نہیں پہنچانتے‘ ایسے میں عوام کو ضمانت اور ریلیف کیسے مل سکتا ہے۔
تاہم ہنرمندانِ آئین اور ریاست ایک موقع اشرافیہ کے بجائے عوام کو دے کر دیکھیں‘ ایک بار عوام سے ڈیل کرکے دیکھیں‘ بخدا عوام نہ اپنے وعدوں سے منحرف ہوں گے‘ نہ اپنی ذمہ داریوں سے بھاگیں گے۔ اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی اور منافرت پھیلانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ ناشکری اور احسان فراموشی کرنے والی اشرافیہ کو پیشکشیں کرنے کے بجائے اس بار عوام کو پیشکش کر ڈالیں۔ خواص کے حق میں فیصلہ کرنے کے بجائے عوام کے حق میں فیصلہ کرکے تو دیکھیں‘ آزمائے ہوؤں کو بار بار آزمانے کے بجائے ایک بار عوام کو ضرور آزما لیں۔ عوام کو ان کے دکھوں سے ریلیف دے کر تو دیکھیں‘ ان کے ناکردہ جرائم کی ضمانت منظور تو کریں‘ یہ ہرگز مایوس نہیں کریں گے۔ ان کے مسائل کا حل انتخابات میں ہے اور نہ ہی بار بار دیکھے ہوئے چہروں میں‘ عوام ان سبھی سے نجات مانگتے ہیں‘ پون صدی میں ہونے والے انتخابات اور جمہوری عمل نے انہیں آج تک دیا ہی کیا ہے۔ باپ کی جگہ بیٹا‘ دادا کی جگہ پوتا نسل در نسل عوام پر شوقِ حکمرانی تو پورا کرتا ہے لیکن عوام کی ضروریات پوری کیوں نہیں کرتا؟ بنیادی ضرورتوں سے عاجز عوام تو بنیادی انسانی حقوق سے بھی اس لیے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ اشرافیہ عوام کو انسان بھی نہیں سمجھتی۔ خدارا الیکشن کرانے سے پہلے گزشتہ سبھی انتخابات کا حساب بھی کر لیں‘ خسارے کے سوا کچھ نہیں نکلے گا اور یہ سبھی خسارے صرف عوام کے حصے میں ہی آئے ہیں‘ حکمرانی کرنے والے تو سبھی فائدے میں رہتے ہیں۔ اگر وہی مشقِ ستم دہرانی ہے‘ ان سبھی کو اقتدار کی میوزیکل چیئر کے گرد دوڑا کر پھر باریاں لگوانی ہیں تو خاطر جمع رکھیں‘ خسارے در خسارے کے بعد اب لٹانے اور گنوانے کو بھی کچھ باقی نہیں رہا۔ یہ سبھی آزمائے جا چکے ہیں‘ ان کی طرزِ حکمرانی اور طرزِ سیاست ان کی نیت اور ارادوں کا بھید کھول چکی ہے‘ کسی کے پلے کچھ نہیں ہے‘ اس بار عوام کے پلے ہی کچھ ڈال دیں۔