ہر گرزتے دن کے ساتھ سبھی کچھ کھلتا چلا جا رہا ہے۔ کہیں نیت اور ارادے تو کہیں دلوں کے بھید بھاؤ کھلنے کے ساتھ ساتھ آئے روز کی آڈیو لیکس نے بھی کیسوں کے بھرم درہم برہم کر ڈالے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کسی کے پَلے کچھ باقی نہیں رہا‘ سبھی اپنی اپنی ضرورتوں اور مجبوریوں کی دلالی کرتے نظر آتے ہیں۔ بڑی بڑی اور معتبر شخصیات کی آڈیو لیکس کے مندرجات پر غور کریں تو سبھی بڑے‘ بونے دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ مملکتِ خداداد کے حکمران ہوں یا انتظامی و سیاسی اشرافیہ‘ سبھی ضرورت مند ہی پائے گئے ہیں۔ ضرورت مندوں کے اس نیٹ ورک میں غیرسرکاری اور غیرسیاسی شخصیات بھی برابر فٹ بیٹھتی ہیں بالخصوص کاروباری شخصیات کے بغیر تو ضرورت مندوں کا نیٹ ورک مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی ضروریات۔بظاہر ایک دوسرے سے جدا نظر آنے والے پس پردہ آپس میں اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ گویا ایک دوسرے کے بغیر گزارا ہی نہ ہو۔ مفادات کی زنجیر میں جکڑے ہوئے یہ سبھی ضرورت مند عوام کی ضروریات پوری کرنے سے ہمیشہ ہی فرار اور قاصر ہی دکھائی دیے ہیں۔
ملک بھر میں لگے سیاسی سرکس‘ افراتفری اور غیریقینی صورتحال پر قلم آرائی کے دوران یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کے حالاتِ بد کا ایکشن ری پلے لکھ رہا ہوں۔ کوئی بھی پرانا کالم اُٹھا کر دیکھ لیں‘ موجودہ حالات میں بھی فٹ بیٹھتا ہے۔ ویسے بھی سالہا سال گزر جائیں‘ کتنے ہی موسم بدل جائیں‘ ایوانوں اور کنٹینروں کے رنگ بدل جائیں لیکن عوام کے دن بدلتے ہیں نہ حالات۔ آج پھر سال بھر پرانا کالم اس لیے پیش خدمت ہے کہ ایک ایک لفظ اور ایک ایک سطر ہر حوالے سے حالاتِ حاضرہ کی معنوی تصویر ہے۔ مذکورہ کالم کا حوالہ دینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ عوام کو یہ باور کروایا جا سکے کہ بدنصیبی اور حالاتِ پریشاں کو ان کا مقدر بنانے والے کہیں باہر سے نہیں آتے‘ یہ سبھی ان کے اپنے ہی سیاسی رہنما ہیں۔ انہی کے نجات دہندہ اور انہی کے لیڈر اور رہبر ہیں۔ یہ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پر دہلا ہیں۔ اپوزیشن میں ہوں تو عوام کے درد میں مرے جاتے ہیں‘ اقتدار میں آتے ہی یہ سبھی ایک ہی مائنڈ سیٹ کے تابع اور غلام بن جاتے ہیں۔ آئیے ''جلتا ہوا گھر سامنے ہے‘‘ کے عنوان سے اس پرانے کالم کا کچھ حصہ پڑھیے اور محسوس کیجیے کہ حالات کا ماتم اور رونا دھونا دو چار دن کا نہیں ہے‘ یہ سالہا سال اور کئی دہائیوں سے جوں کا توں جاری ہے۔
''قسم ہے اس خاک و خون کی۔ قسم ہے ان لازوال قربانیوں کی۔ قسم ہے انسانی تاریخ کی ہولناک ترین ہجرت کی۔ قسم ہے خون کا دریا پار کرنے والوں کی بے سروسامانی کی۔ قسم ہے اس بے بسی اور فلک شگاف چیخوں کی۔ قسم ہے ان لرزتی کپکپاتی بہنوں اور بیٹیوں کی۔ قسم ہے ان فریادوں اور آہ و بکا کی۔ قسم ہے اس دھرتی ماں کی جس کے حصول کے لیے مال و اسباب سے لے کر بہنوں‘ بیٹیوں اور معصوم بچوں تک کو قربان کر دیا گیا۔ قسم ہے ان سفید بالوں والوں کی جو زخم صاف کرتے اور لاشیں اٹھاتے اٹھاتے خون سے رنگے جا چکے تھے۔ اتنی قسمیں اس لیے اٹھائی ہیں کہ کسی طور عوام کو یہ یقین آجائے کہ ان کے رہبر و رہنما‘ ان کے نجات دہندہ‘ ان کے لیڈر‘ ان کے آئیڈیل‘ خاک و خون کی المناک داستان سے لے کر دہلا دینے والی قربانیوں اور دن کے چین سے لے کر راتوں کی نیندیں برباد کر دینے والی بربریت اور ہولناک مناظر تک سب کچھ فراموش کر چکے ہیں۔ ان کے لیے یہ مملکتِ خداداد محض ایک خطہ ہے جہاں وہ شوقِ حکمرانی سے لے کر اپنی تمام من مانیوں تک کو برابر پورا کر سکیں۔
عوام کے مینڈیٹ کو بیچنے سے لے کر سرکاری وسائل کو بھنبھوڑنے اور اس پر کنبہ پروری سمیت نجانے کیسے کیسے اللے تللے کرنے والے یہ رہنما ملک کو بالآخر اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں سیاست سے لے کر اخلاقیات‘ قانون اور ضابطوں سے لے کر جزا اور سزا کے تصور تک سبھی کچھ تار تار ہو چکا ہے۔ نہ احترامِ آدمیت ہے نہ شرم و حیا۔ نہ کہیں برداشت ہے اور نہ ہی تحمل و بردباری۔ نہ منصب کا احترام ہے نہ مرتبے کا لحاظ۔ قول و فعل سے لے کر زبان و بیان تک انہوں نے کسی کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلا ہی ثابت ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سیاسی اکھاڑے کا منظرنامہ اس قدر تشویشناک ہے کہ یہ خوف بڑھائے جا رہا ہے کہ ان سیاسی رہنمائوں کی زبانوں سے اگلتے ہوئے شعلے کہیں وہ آگ نہ لگا ڈالیں کہ رہا سہا بھرم بھی خاکستر ہو جائے۔ ان کی بد زبانیاں ہوں یا اشتعال انگیز بیانیے‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سبھی سیاستدان نہیں بلکہ گلی محلوں کے گینگسٹر ہیں اور ان کے درمیان کوئی سیاسی معرکہ نہیں بلکہ گینگ وار چل رہی ہے۔ جوں جوں سیاسی اکھاڑے میں کشیدگی اور تنائو بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ توں توں اس اکھاڑے کے اثرات گلی محلوں اور سڑکوں پر نمودار ہونے کے خطرات بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار آئندہ کسی سیاسی معرکہ میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی اور حلیف تو بجا طور پر بن سکتے ہیں‘ لیکن ان کی یہ عیاری عوام کو ایک دوسرے سے دست و گریباں اور متشدد حالات سے دوچار کرنے کا باعث ہے۔ کس کو معلوم کہ یہ آگ کہاں تک پہنچے۔ عوام کو تواتر سے دکھائے گئے خواب اور حالات کی سنگینی کے اظہار کے لیے افتخار عارف کا ایک شعر بطور استعارہ پیش خدمت ہے ؎
نہیں معلوم اب اس خواب کی تعبیر کیا ہو
میں نرغے میں ہوں اور جلتا ہوا گھر سامنے ہے
ایک بار پھر عوام کے مینڈیٹ کو بیچنے سے لے کر اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کے لیے ایک دوسرے کو آسرے اور جھانسے دیے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے بار بار ڈسے جانے والے ایک بار پھر ایک دوسرے کو آزمانے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ جو طرزِ حکمرانی عوامی مینڈیٹ کو فروخت کر ڈالے‘ آئین اور حلف سے انحرافِ روایت بن جائے‘ حکمرانوں سے وفا اور بیماروں سے شفا چھین لے‘ داد رسی کے لیے مارے مارے پھرنے والوں سے فریاد کا حق چھین لے‘ اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود بنیادی حقوق سے محروم کر ڈالے‘ چہروں سے مسکراہٹ چھین لے‘ جذبوں سے احساس چھین لے‘ بچوں سے ان کا بچپن چھین لے‘ بڑے بوڑھوں سے ان کے بڑھاپے کا آسرا چھین لے‘ قابل‘ پڑھے لکھوں اور ہنر مندوں سے ان کا مستقبل چھین لے‘ منہ زور اور طاقتور کے سامنے غریب کی عزتِ نفس اور غیرت چھین لے‘ حتیٰ کہ وہ سہانے خواب بھی چھین لے جو ہر دور میں لوگوں کو تواتر سے دکھائے جاتے ہیں‘ جو سماجی انصاف کی نفی کی صورت میں اخلاقی قدروں سے لے کر تحمل‘ برداشت اور رواداری تک سبھی کچھ چھین لے‘ ایسے نظام کے تحت زندگی گزارنا کس قدر جان جوکھوں کا کام ہے‘ اکثر تو اس کی قیمت جان سے گزر کر ہی چکانا پڑتی ہے‘‘۔
سال بھر پرانے کالم کے یہ سطریں آنے والے سالوں میں بھی پڑھیں گے تو یقینا ہر دور میں حسبِ حال ہی محسوس ہوں گی۔ اس کالم کا عنوان جلتا ہوا گھر سامنے ہے‘ افتخار عارف کے ایک شعر سے مستعار لیا تھا لیکن یوں لگتا ہے کہ یہ گھر ماضی میں بھی جل رہا تھا اور آج بھی شعلے آسمان کو چھو رہے ہیں جبکہ آگ بجھانے والے ہاتھ آگ تاپ رہے ہیں۔