میں کوئی سکالر ہوں نہ فلاسفر اور نہ ہی مجھے موٹیویشنل ٹائپ دانشوری کا کوئی خمار ہے‘ لیکن ایک بات پر میرا اعتقاد ایمان کی حد تک قائم ہے کہ جس دن ہمارے اخلاقیات بہتر ہونا شروع ہوگئے ہماری معیشت اور گورننس سمیت بہت کچھ سدھرتا چلا جائے گا۔ پہلے بھی عرض کرتا چلا آیا ہوں کہ معاشی بدحالی کا حل صرف اخلاقیات سدھارنے میں پوشیدہ ہے۔ انتظامی بھونچال اور تبادلوں کے سیلاب کے پس پردہ ایجنڈے اور دھندے کارفرما ہوں تو الیکشن کمیشن بددلی سے دئیے جانے والے انتخابی شیڈول واپس بھی لے سکتا ہے۔
خیر انتخابات کے التوا کی خبر ہرگز غیر متوقع نہیں۔ یہ اونٹ اِسی کروٹ بیٹھنا تھا‘ سو بیٹھ گیا‘ اب ڈھول بجاؤ یا شور مچاؤ اونٹ ٹس سے مس ہونے والا نہیں۔ سابق پرنسپل سیکرٹری محمد خان بھٹی کے اقبالی بیانات اور چونکا دینے والے انکشافات نے نیا پینڈورا باکس کھول دیا ہے‘ یہ اور بات کہ اتنے پینڈورے کھل چکے ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس کا باکس بڑا ہے۔ ایک دور کی کوڑی لانے والے کا کہنا ہے کہ محمد خان بھٹی تو وقت کی کمی اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی نزاکت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ٹی ٹونٹی کھیل رہے تھے عجلت میں ایسے ہی شارٹیں لگتی ہیں لیکن کئی ٹورنامنٹ کھیلنے والے ایک اور سابق پرنسپل سیکرٹری کسی کو یاد ہی نہیں‘ شاید یہاں بھی مخصوص مائنڈ سیٹ کام کر رہا ہے۔ محمد خان بھٹی کا تعلق نہ صوبائی سروس سے ہے اور نہ ہی وفاقی سروس سے۔ وہ بیچارہ بس سرکاری ملازمت کے جگاڑ میں بھرتی ہوا تھا آگے قسمت اور سائیں برابر ساتھ دیتے چلے گئے تو وہ کہیں پکڑا ہی نہیں گیا اور گریڈ22 حاصل کر کے ہی چھوڑا۔ گریڈ22ملنے پر جن حلقوں میں تشویش اور مزاحمت پائی جاتی تھی وہ حالات کی نزاکت اور تختِ پنجاب کے حکمرانوں سے غیر معمولی قربت کے پیش نظر برداشت تو کرتے رہے لیکن موقع ملتے ہی انہوں نے سبھی حساب برابر کر ڈالے۔ تاہم کئی ٹورنامنٹ کھیلنے والے پرنسپل سیکرٹری کے لگائے ہوئے ٹیکے اور ٹی کے (T.K) سبھی کو یاد ہیں لیکن شاید ہم سروس ہونے کی وجہ سے انہیں محفوظ راستہ دے کر محفوظ کر دیا گیا ہے جبکہ نیب میں ان کی فائل کا حجم کاغذوں کی گنتی کے بجائے وزن سے کیا جاتا تھا‘ نیب کا غیب تو سبھی پر آشکار ہو چکا ہے۔
بات ہو رہی تھی اخلاقیات کی‘ اگر ہمارے اخلاقیات زندہ اور کہیں باقی ہوتے تو حالات اس قدر مایوس کن نہ ہوتے۔ دور نہ جائیں‘ چند روز قبل آنے والے زلزلے کو ہی یاد کر لیں تو ہوش میں آنے کے لیے یہی کافی ہے لیکن چند منٹوں کی بھگدڑ اور استغفار کے بعد سبھی اپنے اصل روپ میں واپس آچکے ہیں‘ نہ کوئی اسباب جاننے کی کوشش کرتا ہے اور نہ ہی حالات۔ جس ملک میں ایک دوسرے کا حق کھانے سے لیکر چور بازاری‘ ملاوٹ اور ناپ تول میں ڈنڈی مارنا کاروباری حربہ مانا جاتا ہو وہاں دھرتی ایسے ہے کانپا کرتی ہے۔ غضب خدا کا بچوں کی بنیادی غذا دودھ اور جان بچانے کی ادویات تک ملاوٹ سے پاک نہ ہوں تو زلزلے کیوں نہ آئیں؟ سماجی انصاف اور قانون کی بالادستی صرف بھاشنوں میں سننے کو ملے‘ جہاں دادرسی اور شنوائی کے بجائے دھتکار اور پھٹکار عوام کا مقدر ہو‘ طرزِ حکمرانی ظالم اور طاقتور کو تحفظ فراہم کرتی ہو‘ مظلوم اور کمزور انصاف کے لیے آسمان تکتا ہو‘ ناحق مارے جانے والوں کی روحیں انصاف کے لیے عالمِ ارواح میں بھٹکتی ہوں‘ لاچار اور بیکسوں کے مقدمات تھانوں کے بجائے قدرت کی مدعیت میں آسمانوں میں درج کیے جاتے ہوں وہاں زمین کیوں نہ لرزے؟ زلزلے کیسے نہ آئیں؟ کوئی اﷲ کے دیے ہوئے مال سے زکوٰۃ و خیرات دینے سے گریزاں ہے تو کوئی چیریٹی کے نام پر زکوٰۃ‘ خیرات‘ صدقات اور عطیات سے حاصل ہونے والے بھاری رقومات کو سروس چارجز کے نام پر اس طرح لٹا رہا ہے کہ ان کے آگے اچھے اچھے لٹیرے بھی کچھ نہیں بیچتے۔ کوئی منصب کے نام پر تو کوئی اعتماد اور ساکھ کی آڑ میں چیریٹی کے پیسے پر نازاں اور اتراتا پھر رہا ہے۔جھوٹی شہادتیں اور من چاہے فیصلے قیمتاً دستیاب ہوں تو کہاں کی عدالتیں اور کیسی وکالتیں۔عیدین اور رمضان کے چاند دیکھنے تک۔ کھانے والے سبھی کچھ برابر کھائے چلے جا رہے ہیں۔ معیشت کا پیندا چاٹ کھانے والوں نے اس طرح چاٹ کھایا ہے کہ اصلاحات اور اقدامات کے سمندر بھی انڈیل دیں تو معیشت کا برتن خالی ہی رہے گا۔ سرکاری وسائل بھنبھوڑنے اور اقتدار کی بندر بانٹ کے سبھی مناظر صبح و شام عذاب ِالٰہی کو آوازیں دے کر بلا رہے ہیں۔ بخدا! دھرتی کو کھانا چھوڑ دیں تو کسی معاشی سقراط و بقراط کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
کسی مہذب ملک میں کسی کمزور کے ساتھ کوئی ظلم ہو جائے تو وہ بڑے فخر سے کہتا ہے کہ میں اپنا معاملہ کورٹ آف لاء میں لے کر جاؤں گا لیکن ہمارے ہاں غریب اپنا معاملہ اﷲ کے سپرد اور قیامت کے دن ظالم کا گریبان پکڑنے کی تسلی میں ہی کئی ظلم برابر برداشت کیے چلاجارہا ہے۔ اخلاقی گراوٹ کے سبھی نمونوں نے معاشیات سے لے کر اخلاقی و سماجی قدروں کو لیرولیر کر ڈالا ہے۔ حرام حلال سے بے نیاز سبھی سرپٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ اکثر مناظر دیکھ کر یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ جن عبادات کا اخلاق و کردار پر اثر نہ ہو وہ محض مشقت ہے۔
اختیار کو رَب کی عطا کے بجائے اپنی استادی اور یا کوئی چمتکار سمجھنے والے یقینا بڑی بھول میں ہیں۔ مخلوق کی ضروریات اور حاجات سے وابستہ ہونا جہاں باعثِ اعزاز ہے وہاں حساب بھی برابر دینا پڑے گا۔ جتنا بڑا انعام ہے اس سے کہیں بڑا امتحان ہے۔ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک قدرت نے جسے بھی گورننس عطا کی ہے اس نے اس عطا میں خطا کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ خطا در خطا کے باوجود بھی عطا جاری رہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ مہلت مل رہی ہے‘ مہلت کو غنیمت اور نعمت سمجھ کر اپنے معاملات اور طرزِ حکمرانی پر بھی نظر ثانی کر لینی چاہیے۔ حکمران کوئی کوئی مسیحا نہیں ہوتا جو مردوں کو زندہ کر دے‘ البتہ اس میں یہ خصوصیت ضرور ہونی چاہیے کہ اس کی طرزِ حکمرانی اور فیصلوں کے نتیجوں میں کوئی ناحق نہ مارا جائے۔ کسی پر عرصۂ حیات تنگ نہ ہو‘ کوئی زندہ درگور نہ ہو جائے‘ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جسے بھی گورننس عطا ہوئی اس نے رب کی اس عطا کو اپنی ہی کاریگری اور جگاڑ سمجھ کر وہ اُودھم مچایا کہ الامان الحفیظ۔
مملکت کا نظام چلانے کے لیے کبھی ریاست مدینہ بنانے کے خواب دکھائے جاتے رہے ہیں تو کبھی چینی ماڈل بنانے کے‘ کبھی ایرانی انقلاب کے استعارے سنائے جاتے رہے ہیں تو کبھی سماجی انصاف اور کڑے احتساب کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ ان سبھی ماڈلز میں سے کسی ایک کے نصف پر بھی عمل درآمد ہو جاتا تو نجانے کتنے فیصلہ سازوں کے ہاتھ نہیں ہوتے اور کتنوں کی گردنیں ان کے شانوں پر ۔