مملکتِ خداداد ان دنوں تاریخی موڑ اور گہری کھائیوں سمیت اونچی نیچی پگڈنڈیوں سے ہوتی ہوئی اس مقام پر آن پہنچی ہے کہ آہستہ آہستہ سبھی پردے چاک ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ از خود نوٹسز اور مراسلوں نے بھرم اور شرم کے تو پول ہی کھول ڈالے ہیں۔ ماضی کے دو ادوار کے از خود نوٹسز نے ریاستی رِٹ اور انتظامی معاملات کے بارے اس تاثر کو خوب تقویت دی کہ اگر از خود نوٹس نہ لیے جائیں تو مملکت کے امور چلانے والے نجانے کون کون سے چاند چڑھا ڈالیں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ سبھی عقدے کھلتے چلے گئے۔ کثرتِ استعمال اختیارات کا ہو یا زبان کا‘ بتدریج اپنا اثر کھو دیتا ہے۔
بیرونی مداخلت اور امریکی سازش سے جڑے خط کا ترجمہ کرنے والوں نے غیرتِ قومی اور حبّ الوطنی کا وہ تڑکا لگایا کہ آناً فاناً منظر نامہ ہی بدل گیا‘ ساڑھے تین سال کی طرزِ حکمرانی نے عمران خان کو مقبولیت کے پہاڑ سے پستیوں میں جا دھکیلا تھا لیکن ان کے بیانیے نے انہیں آسمان سے چھوتے مقبولیت کے کوہِ ہمالیہ پر جا بٹھایا۔ یہ اور بات ہے کہ امریکہ مخالف بیانیے پر وہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکے اور تھوڑے ہی عرصے بعد نہ صرف اس بیانیے سے دستبردار ہو گئے بلکہ اشاروں کنایوں میں امریکہ کی بلائیں لیتے ہوئے بھی پائے گئے۔
اسی طرح صدرِ مملکت بھی امریکی مداخلت اور بیرونی سازش کے بیانیے سے متعلق برملا کہہ چکے ہیں کہ وہ ایسا نہیں سمجھتے؛ تاہم ایک بات طے ہے کہ عمران خان اس اعتبار سے قسمت کے دھنی ہیں کہ ان کے طرزِ حکمرانی سے بیزار اور متنفر عوام جادوئی انداز میں اس طرح پلٹے کہ تحریک انصاف والے خود حیران اور ششدر رہ گئے کہ ایک بیانیے نے عوام پر کیا جادو کر دیا۔ پی ٹی آئی کے وزرا اور اراکینِ اسمبلی تو اپنے انتخابی حلقوں میں جانے سے گریزاں اور گھبرائے ہوئے تھے لیکن اس بیانیے نے تو انہیں اس مقبولیت سے ہمکنار کر دیا جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ خیر! ہماری سیاسی تاریخ شعبدے بازی اور قلابازیوں سے بھری پڑی ہے۔ عوام ہر دور میں سبھی کرتبوں پر داد دیتے اور تالیاں بجاتے ہی چلے آئے ہیں۔ تالیوں سے یاد آیا جن ازخود نوٹسز پر عوام پُرجوش اور خوب تالیاں بجایا کرتے تھے‘ ان کے عقدے اور بھید بھاؤ کھلنے کے باوجود بھی تالیاں اور بغلیں بجانا نہیں بھولے۔
ادھر صدرِ مملکت کے خط کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے اسے تحریک انصاف کی پریس ریلیز قرار دے دیا‘ اسی طرح شیریں مزاری کی طرف سے اقوامِ متحدہ کو لکھے گئے خط کا بھی خوب چرچا ہے۔ جس میں انہوں نے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر سخت اقدام اٹھانے کے لیے مداخلت کی اپیل کی ہے۔ ایک طرف امریکہ مخالف طرزِ سیاست اور دوسری طرف اقوامِ متحدہ کو مداخلت کے لیے خط... تعجب ہے! جب دہرا معیار ہی طرزِ سیاست بن جائے تو حالات اور وقت کے مطابق چہرے پہ کئی چہرے چڑھا لیے جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات بارے بین الاقوامی اداروں اور غیر ملکی حکام کو لکھے گئے دیگر خطوط بھی سامنے آرہے ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں پاکستانی نژاد گروپ کے بھی دو خطوط منظرِ عام پر آئے ہیں‘ ایک خط میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور دوسرے میں نمائندۂ خصوصی کو مخاطب کر کے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ بالواسطہ اور بلاواسطہ لکھے گئے خطوط ہوں یا عمران خان کی طرف سے اپنے قتل کی سازش کے خدشے کا اظہار‘ یہ سبھی معاملات ہوشمندی کے متقاضی ہیں۔
کڑے چیلنجز اور معاشی بدحالی پر ان خطوط کے تڑکے نے دلوں کے بھید بھاؤ بھی کھول ڈالے ہیں۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ نہ صرف غور کیجئے بلکہ نظر بھی رکھیے! امریکہ مخالف بیانیوں میں غیرمعمولی شدت سے عوام کے لہو گرمانے اور غیرتِ قومی اُجاگر کرنے کے بعد خود ہی اپنے بیانیوں اور موقف سے منحرف ہونے والوں نے امریکہ بہادر سے پیار کی پینگیں کیوں بڑھانا شروع کر دی ہیں‘ امریکہ مخالف بیانیے کا بینی فشری امریکہ کے علاوہ کون کون ہے؟ اس کے لیے نقطے ملائیے اور مزہ لیجیے۔ خیر! اہداف کے حصول اور ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے یہ شعبدے بازیاں اور قلابازیاں ہمارے سیاسی مینو کا مین کورس ہیں۔
اب چلتے ہیں اس قانون سازی کی طرف جس میں چیف جسٹس کے از خود نوٹسز کے اختیارات میں کمی کی گئی ہے۔ مقامِ شکر ہے کہ اب عدلیہ کے وقار کو اوّلین ترجیح قرار دے کر ان عوامل پر غور کیا جا رہا ہے جو کڑی تنقید کا باعث بنتے چلے آرہے تھے۔ یہ عوامل دہرے معیارِ انصاف کے تاثر کو بڑھاوا دینے کے علاوہ انگلیاں اور سوالات اٹھنے کی وجہ بھی بن رہے تھے۔ ماضی کے دو مخصوص ادوار میں ان عوامل نے انتظامی افراتفری اور اداروں کی رِٹ متاثر کرنے کے علاوہ وہ سلسلہ شروع کیا‘ جو اَب رکنے میں نہیں آرہا۔ معمول کے کیسز اور دادرسی کے منتظر سائل سالہا سال سے شنوائی کو ترستے چلے آرہے ہیں لیکن ازخود نوٹسز کے تحت سماعت کہیں روزانہ کی بنیاد پر تو کہیں اس قدر تواتر کے ساتھ کی جاتی ہے کہ گویا یہ اکلوتا اور واحد مسئلہ ہے۔
از خود نوٹس اگر خالصتاً مفادِ عامہ کے پیش نظر ہو تو یقینا کسی نعمت سے کم نہیں ہے لیکن بوجوہ لیے گئے نوٹسز نے نہ صرف اعتبار اور اعتماد دونوں کی چولیں ہلا ڈالی ہیں بلکہ جس خرابی کے پیش نظر نوٹسز لیے گئے‘ وہ خرابی کئی اضافوں کے ساتھ مزید خرابیوں کا باعث ہے۔ جس دردمندی کا مظاہرہ ان نوٹسز میں کیا جاتا رہا‘ اس کا چند فیصد بھی اگر چین آف کمانڈ میں کر لیا جاتا تو نچلی سطح پر انصاف کا بول بالاکیسے نہ ہوتا؟ ضلعی بالخصوص سول عدالتوں میں سائلین کی تعداد اور فائلوں کے انبار کے علاوہ ہوش اڑا دینے والے سبھی مناظر ازخود نوٹس کے طلبگار رہے۔
شنید ہے کہ نواز شریف کو از خود نوٹس پر ملنے والی بڑی اور کڑی سزا کے دن بھی گنے جا چکے ہیں‘ اپیل کا حق ملنے کے بعد یوسف رضا گیلانی اور جہانگیر ترین بھی استفادہ کر سکیں گے۔ ایسے نوٹسز پر سزائیں ہوں یا فیصلے‘ سبھی کی پنڈ کھل چکی ہے اور اس پنڈ میں سے برآمد ہونے والی توڑی کے تنکے ہوا میں بکھرتے چلے جا رہے ہیں۔ ان فیصلوں پر اٹھنے والے سوالات اور نامختتم بحث اپنی جگہ لیکن ان مشکلات کا حساب کون دے گا جو ملک و قوم کو اس ساری صورتحال کے نتیجے میں بھگتنا پڑے۔ جہانگیر ترین کی نااہلی سے لے کر عمران خان کو اقتدار میں لانے تک سبھی مراحل اور ایجنڈے عیاں ہو چکے۔ کمال تعجب یہ کہ کسی کو شرمندگی ہے نہ احساسِ ندامت‘ سبھی نازاں اور شاداں برابر اترائے پھر رہے ہیں۔ اپیل کا حق ملنے کے بعد نااہل تو شاید اہل ہو جائیں لیکن منصوبہ سازوں کی اہلیت پر اٹھنے والے سوالات جواب کے منتظر ہی رہیں گے۔ ان حالات میں کچھ آؤٹ آف باکس اور غیرمعمولی تبدیلیاں بھی عین متوقع ہیں۔ سمجھنے والے سمجھ گئے‘ جو ناسمجھا وہ اَناڑی ہے۔