مملکتِ خداداد کے حالات جہاں 70ء کی دہائی کا ایکشن رِی پلے بنتے چلے جا رہے ہیں وہاں عدلیہ بھی 1997ء جیسے خطرات سے دوچار ہے۔یہ بحران ہر روز ایک نئے نشان کو چھو رہا ہے۔ضیا الحق سے ہزار اختلاف کے باوجود ان کے وژن اور دور اندیشی پہ صدقے جاؤں‘ انہوں نے اپنے 11سالہ اقتدار میں شاید پہلا اور آخری سچ بولا تھا کہ ''آئین کی حیثیت چند کاغذوں پر مشتمل چیتھڑے کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ ضیا الحق سیاستدانوں کی نیت اور ارادوں کا ڈی این اے تو ایک جملے میں کر گئے کہ یہ سبھی اپنی اپنی ضرورتوں کے اس قدر مارے ہیں کہ انہیں آئین اور قانون سمیت ملک و قوم کے مفادات سے کوئی غرض نہیں۔ جہاں چاپلوسی اور خوشامد اقتدار کی سیڑھی ہو وہاں یہ سبھی اپنے اپنے نظریات اور منشور کی نفی کر کے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر بھی سیڑھی چڑھتے نظر آئے ہیں۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کے منہ سے نکلا ہوا ایک فقرہ آج بھی ملک و قوم کا مقدر بنا ہوا ہے۔ موصوف نے کہا تھا کہ گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘ ایٹم بم تو بن گیا لیکن قوم آج بھی گھاس ہی کھا رہی ہے‘ اناج اور راشن کے لیے تو انہیں جانیں گنوانا پڑ رہی ہیں۔
ضیاالحق اور ذوالفقار علی بھٹو کے ان دو جملوں کا آسیب طرزِ حکمرانی اور طرزِ سیاست‘ دونوں سے چمٹ کر رہ گیا ہے۔ سبھی نے ثابت کیا ہے کہ آئین کی حیثیت ضیا الحق کے حقارت سے بولے گئے اس فقرے کا عکس ہے جسے یہ سارے حصہ بقدر جثہ مزید بگاڑنے کے درپے ہیں۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو نے گھاس کھانے کا آپشن کیا دیا ان کے پیروکاروں نے اپنے ہر دورِ حکومت میں عوام کو گھاس کے سوا شاید اس لیے کچھ نہیں دیا کہ گھاس تو جانوروں کی خوراک ہے اور ان کے یہ حکمران انہیں انسان سمجھتے ہی کب ہیں؟ ہمارے حکمران جس دن اپنی رعایا کو انسان کے رتبے پر فائز کریں گے شاید اس دن عوام کی گھاس سے جان چھوٹ جائے گی۔
اداروں کو تماشا بنانے والوں نے ملک بھر میں تماشا لگا رکھا ہے۔ کہیں مطالبے ہیں تو کہیں دھمکی آمیز بیانیے‘ جغرافیائی سرحدوں کے محافظوں اور عدل و انصاف کرنے والوں کو اپنے خواہشات کے مطابق چلانے والوں پر آفرین کہ یہ سبھی اپنے اپنے ایجنڈوں کی تکمیل کی دھن میں ساری حدیں پار کر چکے ہیں۔ شوقِ حکمرانی کے مارے ملک و قوم کو کس مقام پر لے آئے ہیں‘ نہ کسی کو آئینی تحفظ ہے اور نہ ہی اکثریت کو پیٹ بھر روٹی نصیب ہے۔ آئین تو خود ان کے ہاتھوں کبھی محفوظ نہیں رہا‘ ضرورتوں اور خواہشوں کے اتنے چھید کر ڈالے ہیں کہ آئین چھلنی چھلنی ہو چکا ہے۔ کسی نے طولِ اقتدار کے لیے تو کسی نے استحکامِ اقتدار کے لیے آئین کا وہ حشر نشر کیا کہ آئین تو خود کو پہچاننے سے بھی انکاری ہے۔ ضرورتوں کی دلالی کے نتیجے میں ہونے والی اٹھارہویں ترمیم نے تو مملکتِ خداداد کو منڈی بنا ڈالا ہے‘ سبھی اپنی اپنی دکانیں چلا رہے ہیں‘ ملک چلے نہ چلے بس ان کی دکان چلنی چاہیے۔ کہیں آڑھتیوں کی طرح صوبہ چلایا جا رہا تو کہیں سوداگروں کی طرح‘کہیں رسہ گیری کا سماں ہے تو کہیں دھینگا مشتی کا‘وفاق کی رِٹ اور بھرم کا تو بس کچھ نہ پوچھئے۔
ملکی تاریخ کے بد ترین حالات اور کڑے چیلنجز سے بے نیاز خدا جانے یہ کس مار پر ہیں‘ نہ کسی کو ملک کے استحکام کی پروا ہے اور نہ سالمیت کا خیال‘ سبھی اقتدار کے لیے بے تاب ہیں حالانکہ عوام سبھی کی طرزِ حکمرانی کو بھگت چکے ہیں‘ کارکردگی اور ساکھ سمیت کسی کے پلے کچھ نہیں۔ وینٹی لیٹر پر پڑی معیشت کی روح تو کب کی پرواز کر چکی خالی وینٹی لیٹر چلا کر خدا جانے کسے دھوکا دے رہے ہیں‘ خود کو یا عوام کو؟جہاں پورے ملک کی انتظامی مشینری صرف آٹے کی تقسیم پر مامور ہو اور آٹے کی قطاروں میں بھگدڑ مچنے سے روز لوگ مر رہے ہوں‘ درجنوں زخمی اور گھائل ہو رہے ہوں اور حکمران کہیں ہیلی کاپٹر اور جہاز پر تو کہیں درجنوں گاڑیوں کے قافلے میں آٹے کی تقسیم کے مناظر کی عکس بندی کے لیے جاتے ذرا جھجھک محسوس نہ کرتے ہوں‘ ایک فوٹو سیشن کے لیے سرکاری خزانے کو بھاری صدمے سے دوچار کرنے والے خدا جانے کس بھول میں ہیں؟ نگران سرکار آٹے کے حصول میں مرنے والوں پر افسوس کے بجائے شاید اس خوش گمانی میں ہے کہ قطاروں اور بھگدڑ میں مرنے والے اس عوامی خدمت کے عوض اپنے محبوب حکمرانوں کو جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔
پٹواری سے لیکر ڈی سی تک‘ کانسٹیبل سے لیکر ڈی پی او تک‘ انتظامی افسران سے لیکر صوبائی سیکرٹریوں تک سبھی کو مفت آٹے کی تقسیم میں جھونکا گیاہے۔ دفاتر میں دادرسی اور شنوائی کے لیے نہ کوئی اہلکار موجود ہے اور نہ افسر۔ گورننس کا اس سے شاندار ماڈل اور کیا ہو سکتا ہے؟ اپنی رعایا کے محبوب حکمرانوں کو چاہیے کہ جن علاقوں میں مفت آٹے کی تقسیم جاری ہے وہاں مفت کفن کی فراہمی بھی موقع پر ہی یقینی بنائیں کیونکہ جن بیچاروں کے پاس گھر میں پکانے کے لیے آٹا تک نہ ہو تو وہ کفن دفن کا بندوبست کہاں سے کریں گے؟ اگر ہو سکے تو کسی شہرِ خموشاں میں کوئی احاطہ شہدائے آٹا کے لیے بھی مختص کر دیا جائے تو یہ اقدام حکمرانوں کی عوامی مقبولیت کو مزید چار چاند لگا سکتا ہے۔ کفن دفن پیکیج کے بعد عوام بے دھڑک آٹے کی قطاروں میں مزید اضافہ کر سکیں گے۔ انہیں یہ تسلی تو ہوگی کہ آٹے کے حصول میں اگر کوئی مارا گیا تو لواحقین کو تدفین کے ناقابلِ برداشت اخراجات کے لیے دربدر نہیں پھرنا پڑے گا۔
یااﷲ رحم! ایک طرف آٹے کی ذلت آمیز اور جان لیوا قطاریں ہیں تو دوسری طرف بے موسمی بارشوں نے گندم کی کھڑی فصل تباہ کر ڈالی ہے۔ حالیہ بارشوں کو شہروں میں بسنے والے بارانِ رحمت سمجھ رہے ہیں‘ وہ دراصل عذاب اور قیامت سے ہرگز کم نہیں ہیں۔ شہروں میں سہانے موسم سے لطف اندوز ہونے والوں کی اکثریت کو کیا معلوم کہ یہ بارانِ رحمت نہیں‘ یہ مسلسل بارشیں گندم کی کھڑی فصل پر کسی ڈرون حملے سے ہرگز کم نہیں۔ معاشی بدحالی کا شکار تو ہم پہلے ہی ہیں آنے والے دنوں میں غذائی قلت کا عذاب بھی جھیلنا پڑے گا۔ قدرت کی اس برہمی پر ہوش کے ناخن لینے کے بجائے عوام اور اشرافیہ سبھی مست ہیں۔ اﷲ سے اپنی بداعمالیوں کی معافی مانگنے کے بجائے خدا جانے کس گمان میں ہیں۔ سیاسی اشرافیہ اقتدار کے معرکے میں گوڈے گوڈے دھنسی ہوئی ہے اور عوام کو آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کی لت نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ کسی کو کچھ نظر نہیں آرہا‘نہ ناراض آسمان نظر آرہا ہے اور نہ ہی اس کے بدلتے ہوئے تیور۔روایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے سوال کیا یااﷲ تیرے بندوں کو کیسے معلوم ہو کہ تو ان سے ناراض ہے۔ تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: بارشیں بے وقت کرتا ہوں جب میں ناراض ہوتا ہوں‘ حکمرانی نکموں اور بیوقوفوں کو اور پیسہ بخیلوں کو دے دیتا ہوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اپنے رب سے اس مکالمے نے تو پرچہ تبھی آؤٹ کر ڈالا تھا۔ جواب جانتے بوجھتے بھی ہم فیل کیوں ہوتے چلے جا رہے ہیں؟ رب کی ناراضی کی تینوں نشانیاں پوری ہو چکی ہیں۔ یااﷲ رحم!