آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ' ہمارے پاکستان‘ کی بات کر کے نئے اور پرانے پاکستان کا چورن بیچنے والوں کو کھلا پیغام دیا ہے‘ کہ اپنا اپنا پاکستان بنانے والے تو عوام کو یکسر فراموش ہی کرتے چلے آئے ہیں۔ نیا پاکستان بنانے والوں نے پرانے پاکستان کی بدترین طرزِ حکمرانی کے سبھی ریکارڈ ریکارڈ مدت میں توڑ کر عوام کو پرانا پاکستان بھولنے نہ دیا۔ نیا پاکستان بنانے والوں کے دعووں اور وعدوں کا چند فیصد بھی سچ ہو جاتا تو شاید پرانا پاکستان کی یاد نہ آتی۔ مائنس عوام فیصلے کرنے والوں نے وسیم اکرم پلس متعارف کروایا تو خود بھی مائنس ہوتے ہوتے آؤٹ ہوگئے‘ لیکن مائنس پلس کا کھیل تاحال جاری ہے۔ وسیم اکرم پلس کے طعنے دینے والوں کو اب بزدار پلس کے طعنے سننے پڑ رہے ہیں۔ تختِ پنجاب کا انتخابی معرکہ کھٹائی میں اور اداروں کے درمیان بالادستی کی کشمکش بھی کشیدگی کا باعث بن چکی ہے‘ایسے میں متوقع حالات انتخابات کو مزید تاخیر سے دوچار کر سکتے ہیں جبکہ اگلے چند دنوں میں نگران سرکار کی مدت ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئی الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے جا رہی ہے کہ نگران حکومت 90روز مکمل ہونے کے بعد آئینی طور تحلیل ہو جانی چاہیے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
22اپریل کے بعد نگران حکومتیں کس جواز کے تحت کام جاری رکھیں گی اور قانونی تحفظ کے بغیر ان کی آئینی حیثیت کیا ہو گی‘ بڑے سرکاری بابو بھی کنفیوژن کا شکار ہیں کہ شیڈول کے مطابق الیکشن نہ ہونے کی صورت میں انتظامی مشینری کے اقدامات کہیں گلے ہی نہ پڑ جائیں۔ سپریم کورٹ پنجاب اور کے پی کے انتخابات آئینی مدت سے آگے لے جانے کو تیار نہیں‘ حکومت انتخابی اخراجات کے لیے 21ارب روپے فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں‘پارلیمنٹ سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے کو تیار نہیں‘انکار کی تکرار پیچیدگیوں میں اضافے کے علاوہ مزید بحرانوں کا پیش خیمہ ہے۔ سیاسی اور انتخابی بحران تو پہلے ہی سب کچھ بہائے لیے جا رہے تھے اب آئینی بحران کسی بڑے سیلابی ریلے سے ہرگز کم نہ ہوگا۔ ایسے نازک حالات میں آرمی چیف کی طرف سے ہمارے پاکستان کا بیانیہ غنیمت اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔
جوش میں ہوش گنوانے والوں کو خبر ہو کہ اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو جلد ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ اقتدار کے معرکے میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا اور دست و گریباں نئے اور پرانے پاکستان کا چورن بہت بیچ چکے‘اپنی اپنی ضد‘عناد اور انا کے خول سے باہر نکل کر اپنا پاکستان کے فارمولے پر غور کریں تو انتخابات بھی ہو جائیں گے اور انتقالِ اقتدار بھی‘ لیکن موجودہ حالات میں یہ طرزِ سیاست ریاست کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان اور صدمے کا باعث بننے کے علاوہ ان سبھی سماج سیوک نیتاؤں کا رہا سہا بھرم اور ساکھ بھی بھسم کر ڈالے گی۔ بند کمروں میں مذاکرات سے لے کر خلوتوں کے راز و نیاز سمیت دلوں کے بھید بھاؤ کھلتے چلے جا رہے ہیں۔ آئے روز باعثِ شرم و ندامت آڈیوز‘ وڈیوزلیک ہونے کے باوجود نازاں اور اترائے پھرنے والے کب تک عوام کے صبر کا امتحان لیں گے۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر سیاسی رواداری اورتحمل وبرداشت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں تو سہی‘ مکالمہ کریں‘ گلے شکوے کریں‘اختلاف بھی ضرور کریں لیکن منطق اور دلیل کے ساتھ‘ ان بھڑکتے ہوئے شعلوں کو بھی ٹھنڈا کریں جو پورے ملک کو انگار وادی بنائے ہوئے ہیں۔ ذاتی تسکین اور انتقام کی دھن میں اتنا آگے نہ بڑھ جائیں کہ واپسی ممکن نہ رہے۔ نفرتوں کے الاؤ سب کچھ خاکستر نہ کر دیں۔ خدارا ہوش کریں‘ آپشنز ختم نہ کرتے چلے جائیں۔
آرمی چیف نے واضح کیا ہے کہ طاقت کا محور عوام ہیں۔ بار بار اعتبار کرنے کی کمزوری کب طاقت بن جائے اور عوام کا ان سبھی سے اعتبار اٹھ جائے تو کسے گمراہ کریں گے‘ کسے بیوقوف بنائیں گے‘مینڈیٹ کیسے ہتھیائیں گے‘شوقِ حکمرانی کہاں پورے کریں گے‘ اس سے پہلے کہ عوام کو ہوش آجائے خدارا خود ہی ہوش میں آجائیں ورنہ ہوش میں لانے کے لیے بھی کافی آپشنز موجود ہیں۔ ہنر مندانِ ریاست و سیاست کے دروازے پر کب سے دستک دیے چلے جا رہے ہیں کہ یہ ملک سیاسی اشرافیہ کے شوقِ حکمرانی کے لیے نہیں حاصل کیا گیا تھا۔ ماضی کی فصل کاٹے بغیر حال اور مستقبل میں ہریالی نہیں اگائی جا سکتی۔ نسل در نسل تباہیاں اور بربادیاں پھیلانے والوں کا کہیں تو اَنت ہونا چاہیے‘ اگر کچھ فیصلے آؤٹ آف باکس نہ کیے گئے تو بہت کچھ آؤٹ آف فوکس ہو سکتا ہے۔نیا اور پرانا پاکستان کی بحث چھوڑ کر ہمارا پاکستان بنانے کی دعوت ایک نادر موقع ہے۔اسے گنوانے والے تاریخ اور قوم کے مجرم ہوں گے۔ ایسے میں آئینہ دکھانے کے لیے اپنے ایک حالیہ کالم ''میرے منہ میں خاک‘‘ کی چند سطریں بطور استعارہ پیش خدمت ہیں :
''ان شوقِ اقتدار کے ماروں کو احساس ہے نہ اس بات کا خیال کہ ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ غیرتِ قومی اور ملکی استحکام کو کس نہج پر لے آئے ہیں۔ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ کوئی دانشوری کے نام پر تو کوئی رہبری کے نام پر‘ پاک فوج کو نشانے پر لیے ہوئے ہے۔ اپنے اپنے اہداف اور اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے یہ کس حد تک جاپہنچے ہیں کہ ان کے زبان و بیان بھارتی میڈیا میں ٹاپ ٹرینڈ بن چکے ہیں۔ وہ ان کے حوالے دے کر پاک فوج کی کردار کشی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ بھارت ان کی خواہشات اور ایجنڈوں کی ترجمانی کر رہا ہے یا یہ بھارت کے ترجمان بن بیٹھے ہیں۔ بالخصوص عمران خان ایک ایسی کھیپ تیار کر چکے ہیں جو ملکی سالمیت اور استحکام سے بے نیاز ہو کر اس بیانیے کی پرچارک بن چکی ہے جو کہ بھارت جیسے مکار دشمن کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ بھارتی ایجنسیاں اس خوشگوار حیرت میں مبتلا ہیں کہ جو کام وہ 75برس میں نہیں کر سکیں وہ پاکستان میں آٹو پر لگ گیا ہے۔
مقامِ فکر ہے کہ پاکستان میں مچے اس اُدھم اور افراتفری کا فائدہ عمران خان کو ہوتا ہے یا نہیں لیکن بھارت ضرور بینی فشری بنتا چلا جا رہا ہے۔ سفاک اور مکاّر دشمن شادیانے بجا رہا ہے کہ پاکستان کی معیشت کا دھول اڑ چکی ہے‘ داخلی استحکام اور خارجی محاذ دونوں پر بھارت کسی ناگ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھا ہوا ہے‘ سانحہ آرمی پبلک سکول ہو یا سمجھوتا ایکسپریس میں آتشزدگی کی بربریت سمیت جابجا دہشت گردی کی بے رحم کارروائیاں ان سبھی کے پیچھے بھارتی چہرہ بے نقاب ہے۔ اس بے نقاب چہرے کو پہچاننے کے بجائے اس کی بلائیں لینے والے کیوں نہیں سمجھتے کہ وہ پاک آرمی کو کمزور کرنے کی سازش میں شریک ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
بھارت تو پاکستان میں معاشی بدحالی‘ بدامنی‘ افراتفری اور بھوک ننگ کا پہلے ہی خواہشمند ہے۔ اس کی خواہشات کو دوام بخشنا کہاں کی حب الوطنی ہے؟یاد رکھئے! پاک فوج واحد بھرم ہے جو ہمیں اب تک سنبھالے ہوئے ہے جو بین الاقوامی چیلنجز اور داخلی انتشار میں کردار بخوبی نبھا رہی ہے۔ خدارا! اس بھرم کو قائم رہنے دیں۔ میرے منہ میں خاک‘ خدا نہ کرے اگر یہ بھرم ٹوٹا تو سبھی کچھ چکنا چور ہو جائے گا۔ مملکتِ خداداد کی سالمیت کی علامت کی خیر مانگئے اسی میں ہم سب کی خیر ہے‘‘۔ آخر میں پھر ہوش دلاتا چلوں کہ یہ تیرا‘ میرا نہیں ہمارا پاکستان ہے۔