ملک بھر میں ہر خاص و عام کی نظریں سپریم کورٹ کے فیصلے پر لگی ہوئی ہیں۔ یاد رہے! گزشتہ روز چیف جسٹس صاحب نے ناسازیٔ طبیعت کے باوجود ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کیس کی سماعت کی۔ دوسری طرف سپیکر قومی اسمبلی نے چیف جسٹس صاحب کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے دائرۂ کار کا احترام کرے جبکہ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ یہ خط ناکافی ہے‘ توہینِ پارلیمنٹ پر استحقاق کمیٹی میں طلب کیا جائے۔ انتخابات کیس کا فیصلہ جو بھی آئے‘ اداروں کے درمیان کشیدگی کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ کہیں بالادستی کا تنازع ہے تو کہیں استحقاق مجروح ہو رہا ہے؛ تاہم یہ ساری صورتحال ملک و قوم کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں۔ اقتدار کا یہ معرکہ نجانے مزید کتنے خطرناک موڑ مڑنے والا ہے۔
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ مملکتِ خداداد ان حالات سے پہلی بار دوچار نہیں ہوئی۔ عدلیہ اور پارلیمنٹ پہلے بھی آمنے سامنے آچکے ہیں۔ اداروں کا تصادم پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے۔ محلاتی سازشوں اور غلام گردشوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ فیصلہ کچھ بھی آجائے‘ وہ اس لیے متنازع ہی رہے گا کہ ایک فریق کے لیے قابلِ قبول ہوگا تو دوسرا فریق قبول کرنے سے انکاری ہوگا۔ بالادستی کسی کی بھی ہو لیکن عوام کے نصیب میں پستیاں ہی رہیں گی۔ انتخابات ایک ہی روز ہوں یا مرحلہ وار‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ہوں یا حکومتی ضد کے مطابق‘ کامیابی کسی کا بھی مقدر بنے‘ شکست عوام کی ہی ہوگی۔ ان سبھی کی تو باریاں لگی ہوئی ہیں‘ ہار جیت ان کیلئے سیاسی کھیل کا حصہ ہے۔ آج میری تو کل تیری باری‘ یہ باری باری آتے جاتے رہیں گے‘ یہ ہار کر بھی جیت جاتے ہیں‘ اصل ہار تو عوام کی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ سبھی عدالتی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ فیصلہ جو بھی آئے‘ گلشن کا کاروبار جوں کا توں ہی چلتا نظر آرہا ہے۔
دوسری طرف ایک بریک تھرو ضرور ہوا ہے کہ عمران خان کو گزرتے وقت کے ساتھ زمینی حقائق کا ادراک ہو رہا ہے۔ انہیں حالات کی سنگینی اور باریکی بھی برابر آشکار ہوتی چلی جا رہی ہے تبھی انہوں نے مذاکرات کے لیے سہ رکنی کمیٹی نامزدکر دی ہے گویا ''کفر ٹوٹنے کے ساتھ قفل بھی کھل گیا ہے‘‘۔ شاید انہیں احساس ہو چلا ہے کہ ان کا طرزِ سیاست ہو یا اٹل اور دوٹوک فیصلے‘ سبھی منزل سے دور اور اہداف سے پرے دھکیلنے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ عمران خان اپنا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا ہلا شیری میں آکر بداعتمادی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔
ایک حالیہ بیان میں فرماتے ہیں کہ ''اقتدار میں آیا تو کرپشن کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ حالانکہ اپنے دورِ اقتدار میں کرپشن کو دوام بخشنے والوں اور لوٹ مار کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے والوں کو سر پہ بٹھائے ہوئے تھے اور آج بھی انہی کے جھرمٹ میں پائے جاتے ہیں۔ انتخابی امیدواروں سے ملاقات ہو یا ٹکٹوں کی بندر بانٹ‘ کیسے کیسے الزامات سننے میں آرہے ہیں‘ حواریوں اور مصاحبین نے مال بنانے کا کون سا موقع ہاتھ سے جانے دیا ہے؟ عمران خان کے درشن پر مہنگی ٹکٹ اور ٹکٹوں کے منہ مانگے داموں کی داستانیں زبان زدِ عام ہیں۔ خیر یہ طرزِ سیاست کوئی اَچنبھے کی بات نہیں‘ ہمارے ہاں سبھی سیاسی رہنما اپنی آنکھ کا شہتیر بھول کر دوسروں کی آنکھ میں بال پر آسمان سر پہ اٹھائے پھرتے ہیں۔
وزارت کے بوتے پر ہاؤسنگ سیکٹر کی سہولت کاری سے شراکت داری کرنے والے کی خبر تو لیں‘ لائف سٹائل سے لے کر کس کس کے دن کس طرح بدلے ہیں کہ عقل حیران ہے۔ تختِ پنجاب میں سرکاری عہدوں کی بولیوں سے لے کر ٹھیکوں اور سپلائیوں کے دام وصول کرنے والوں کو کون نہیں جانتا؟ وزارتِ اعلیٰ کے دو ادوار سسٹم کی چولیں ہلا چکے ہیں۔ کے پی اور وفاق میں جو گل کھلائے ہیں‘ اس کے لیے تو مزید کئی کالم درکار ہوں گے۔ احتساب کے نام پر جو حساب مشیرِ احتساب کرتے رہے ہیں‘ خدا جانے آپ اس پر کیسے نازاں ہیں۔ ایک بزنس ٹائیکون کے پرائیویٹ جہاز پر سیر سپاٹے اور ذوق و شوق کے مطابق اس کی میزبانی کے مزے لینے والوں نے کیا احتساب کرنا تھا؟ اور آپ باتیں کرتے ہیں کہ کرپشن کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ اپنے دورِ اقتدار میں کرپشن کو کلچر بنانے والوں کو کیوں نہیں روکا؟ انہیں کیوں نہیں پکڑا؟
انتخابی دنگل ہو یا سیاسی سرکس‘ یہ سب یونہی چلتا رہے گا۔ درشنی پہلوان تن سازی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے‘ بازیگر روز نئے آئٹم لاتے اور دِکھاتے رہیں گے۔ عوام ٹھہرے سدا کے بیوقوف‘ وہ ان شعبدہ بازیوں کو سمجھ ہی نہیں سکے۔ یہ کیسا نظام ہے‘ یہ کیسی جمہوریت ہے‘ یہ کیسا طرزِ حکمرانی ہے کہ ووٹ دینے والے بد سے بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان کے ووٹ سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں جانے والے فی گھنٹہ کی رفتار سے وہ ہوش رُبا ترقی کر جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔ سائیکلوں سے جہازوں پر‘ کم مایہ بستیوں سے وسیع و عریض کوٹھیوں اور محلات تک‘ ثانوی سماجی حیثیت سے وی وی آئی پی بننے تک‘ واجبی کاروبار سے کمپنیوں‘ فیکٹریوں اور ملوں کے مالک بننے تک‘ کسی کے پاس اس غیرمعمولی اور ہوشربا ترقی کا جواب ہے نہ جواز‘ جن کے پاس ذاتی گھر تھا نہ قابلِ ذکر جائیداد وہ ہاؤسنگ پروجیکٹ چلا رہے ہیں۔ ایسے میں عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا اور اداروں کی بالادستی پر دانشوری کرنا کوئی دانشمندانہ کام نہیں ہے۔
منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ایک ایسے موضوع کی طرف چلتے ہیں جس پر کم از کم پورا کالم ضرور ہونا چاہیے تھا لیکن یہ مجہولِ سیاست اور سیاسی بازیگروں کے کرتب اور پینترے کیسے کیسے اہم موضوعات کھا جاتے ہیں۔ تاہم اخلاقی دباؤ کے تحت چند سطریں پیشِ خدمت ہیں‘ آئندہ کالم میں قلم کا باقاعدہ قرض ضرور چکاؤں گا۔ خدا جانے کوئی سر پھرا ہے یا جنونی‘ سرسید کے سلسلے سے ہے یا سقراط اور بقراط کا کچھ لگتا ہے۔ تعجب ہے کہ چیف سیکرٹری کا عہدہ انجوائے کرنے کے بجائے دیوانہ وار بھاگا پھرتا ہے‘ نہ خود چین سے بیٹھتا ہے اور نہ ہی ماتحت افسران کو بیٹھنے دیتا ہے۔ رات گئے تک کام اور صبح سویرے نئے اہداف اور ٹارگٹ‘ بس یہی کام رہ گیا ہے۔ لگتا ہے دہائیوں کی غلطیوں کو مہینوں میں سدھارنے کا جنون سوار ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو اگر چند سال اور میسر رہا تو میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کی گورننس کا ماڈل ملک کے سبھی صوبوں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فائن آرٹس سمیت جدید علوم اور صحتِ عامہ کی مثالی سہولتوں سے لے کر تعلیم و ترقی کے دشمن شرپسندوں کی کارروائیوں کا زور توڑنے والے چیف سیکرٹری نے تعلیم کے شعبے کو بجٹ میں وہ اوّلین ترجیح دے رکھی ہے جو کسی صوبے میں دیکھی نہ سنی۔
گلگت بلتستان میں جاری منصوبوں کی تکمیل تک انہیں تبدیل نہ کیا گیا تو یہ خطہ گورننس کے اعتبار سے یقینا ماڈل بن سکتا ہے اور اسی بنیاد پر اس شخصیت کو دیگر تمام صوبوں میں باری باری چیف سیکرٹری تعینات کرکے وہ نتائج برآمد کیے جا سکتے ہیں جو صرف فائلوں میں ہی دفن رہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کا ذکر نہ کرنا بھی کم ظرفی ہوگی جن کی سپورٹ اور مینڈیٹ کے بغیر شاید یہ ممکن نہ ہوتا۔ ادھر کالم کا اختتام ہوا اُدھر مذاکراتی اجلاس اگلے دن جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا‘ مقامِ شکر ہے ''آتے ہیں غیب سے مضامیں خیال میں‘‘۔