کیا خوب نظارہ تھا کہ حکومتی اتحاد نے ملکر یومِ تکبیر منایا‘ وزیراعظم نے ایٹمی پروگرام کے کریڈٹ کا بھی بٹوارا کر ڈالا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پروگرام کے آغاز اور تکمیل کا سہرا اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے سر باندھ ڈالا۔ بھٹو کے حوالے سے تو تاریخ نہ صرف بولتی ہے بلکہ سپورٹ بھی کرتی ہے لیکن ایٹمی طاقت بنانے کا کریڈٹ نواز شریف کو دینے پر یقینا تاریخ بھی حیران اور ششدر ہوگی۔ واقفانِ حال کو بخوبی یاد ہوگا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد ایک تقریب میں مجید نظامی صاحب نے شہباز شریف کی موجودگی میں کہا تھا کہ میں نے وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ ''اگر آپ نے دھماکے نہ کئے تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی‘‘۔ مجید نظامی صاحب کو یہ مشورہ دینے کی نوبت اس لیے آئی تھی کہ وزیراعظم ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کرنے میں کشمکش اور تذبذب کا شکار تھے۔ عسکری قیادت اور محب وطن حلقوں کے ناقابلِ برداشت پریشر نے انہیں اس قدر مجبور کیا کہ دھماکوں کے سوا کوئی راستہ ہی نہ تھا۔ ایٹمی دھماکوں کا رسمی فیصلہ بحیثیت وزیراعظم بہرحال نواز شریف ہی کو کرنا تھا جبکہ اصل ہیروز تو نجانے کب سے اس نیشنل سروس پر کام کررہے تھے۔
نواز شریف وزیراعظم ہوتے یا نہ ہوتے اس معرکے کی رسمی منظوری کا اعزاز وقت کے وزیراعظم ہی کو نصیب ہونا تھا۔ کیسے کیسے ماہرین دن رات مملکتِ خداداد کو جوہری طاقت بنانے میں سالہا سے مصروف تھے‘ کس کس کا نام لوں۔ اس مشن میں شہرت پانے والوں کے ساتھ نجانے کتنے ان کے معاون اور مددگار تھے جن کے نام سے کم از کم عوام تو واقف ہی نہیں ہیں۔ ایٹمی دھماکوں کے وقت نوازشریف کو برسرِ اقتدار آئے تقریباً سواسال ہی گزرا تھا‘ قبل ازیں وہ چھ نومبر 1990ء سے 18جولائی 1993ء تک یعنی دوسال 254دن وزیراعظم رہے۔ اس تناظر میں وطن عزیز کو ایٹمی طاقت بنانے کا کریڈٹ ناقابلِ فہم اور مضحکہ خیز لگتا ہے۔ اس عظیم الشان اعزاز کا کریڈٹ لینے والے تو ایٹم کی الف بے سے بھی واقف نہیں۔ خیر زیبِ داستاں کا تو کوئی انت نہیں ہے‘ سبھی حکمران ایسے کریڈٹ لینے کے ماہرین ہی پائے گئے ہیں جن سے انکا دور کا واسطہ بھی نہ رہا ہو۔ بے شک پاک فوج کی سرپرستی اور نگرانی نے ہی مملکتِ خداداد کو ان چند ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا جو جوہری طاقت اور مضبوط دفاعی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔
البتہ ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں بجا طو رپہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ویژن کے نتیجے میں اس عظیم منصوبے کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر ان کا ایک تاریخ ساز فقرہ بے اختیار یاد آرہا ہے کہ ''ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘‘۔ ایٹم بم تو خیر جلد یا بدیر بن ہی گیا لیکن گھاس عوام کا مستقل مقدر بن کر رہ گیا ہے۔ چند روز قبل یومِ تکبیر پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے اپنے نانا کا یہی فقرہ انتہائی فخر سے دہراتے ہوئے باور کروایا ہے کہ ملک کو ایٹمی قوت بنانے میں ان کے خاندان کا کیا کردار ہے۔ بلاول بھٹو بجا طو رپر یہ کریڈٹ لے سکتے ہیں کہ ان کے نانا نے ایٹمی پاکستان کا خواب ضرور دیکھا تھا جو الحمد ﷲ 25سال قبل پورا بھی ہو چکا ہے لیکن نانا کی گھاس کھانے والی بات کو نصب العین کیوں بنا بیٹھے ہیں؟ انہوں نے تو یقینا ایٹم کی خاطر قربانی کے تناظر میں یہ بات کہی تھی لیکن عوام کے حالات تو گھاس پھوس سے بھی گئے گزرے ہوتے جارہے ہیں‘ بالخصوص سندھ کے عوام کی حالتِ زار بیان کریں تو الفاظ بھی گریہ کرتے نظر آتے ہیں۔
ایٹمی طاقت بنانے کا کریڈٹ ہویا اس پر حکمران کا زعم‘ ان کیفیات سے فرصت ملے تو کچھ شراحساس ذمہ داری بھی محسوس کر لیں کہ ایٹمی طاقت کی حامل اس مملکتِ خداداد میں آج بھی سیلاب انہی علاقوں میں آتا ہے جہاں ہر سال سیلابی ریلے جیتے جاگتے معصوم لوگوں کو بہا لے جاتے ہیں‘ اکثریت کو تو قبر بھی نصیب نہیں ہوتی۔ سیلاب سے بچ جانے والے زندوں میں شمار ہوتے ہیں نہ مُردوں میں‘ کھلے آسمان تلے کئی کئی فٹ پانی میں بے یارو مددگار حکومتی امداد اور توجہ کے منتظر رہتے ہیں۔ نجانے کتنے سانپ کے ڈسے جانے سے تڑپتے ہوئے دم دے دیتے ہیں‘ غلیظ پانی اور کیچڑ میں لت پت لاشے بے گور و کفن ہی پڑے رہتے ہیں۔ بے رحم لہروں سے بچ جانے والوں کو ایک گھونٹ پینے کا پانی بھی نصیب نہیں ہوتا‘ دوا دارو تو دور کی بات‘ ان سبھی مصیبت کے نام پر فنڈز بھی جاری ہوتے ہیں‘ امدادی سامان کے ٹرک بھی روانہ ہوتے ہیں لیکن افسوس! متاثرین کی اکثریت منتظر اور محروم ہی رہتی ہے۔ فنڈز کی رقوم کہاں جاتی ہیں‘ امداد سامان کہاں کہاں سے برآمد ہوتا ہے ان سبھی کی تفصیل میں جائیں تو ایٹمی طاقت کی حامل ریاست کے حکمرانوں کا کردار اور چہرہ دونوں برابر بے نقاب ہوتے ہیں۔
ایٹمی طاقت کا کریڈٹ لینے والے ان حکمرانوں کو ایک اور کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ یہ عوام کو ان حقوق سے بھی محروم رکھے ہوئے ہیں جو بحیثیت انسان ان کا بنیادی حق ہیں۔ مخصوص علاقوں میں قحط بھی باقاعدگی سے پڑتا ہے‘ خوراک اور پانی کے لالے بھی ہر سال پڑتے ہیں‘ سوکھے کی بیماری گھر گھر موت بانٹتی پھرتی ہے‘ معصوم بچوں کی لاشیں دیکھ کر بھی ان سبھی کا ضمیر جاگنے سے انکاری ہی رہتا ہے۔ مویشیوں اور دیگر چرند پرند جابجا مردہ پائے جاتے ہیں‘ ہر طرف موت کی دہشت اور وحشت کا عالم ہوتا ہے۔ سندھ کے اکثر شہروں میں آج بھی آوارہ کتے راہ چلتے‘ جیتے جاگتے انسانوں کو بھنبھوڑ ڈالتے ہیں۔ معصوم بچے ان کتوں کا آسان شکار ہیں اس پر ستم یہ ہے کہ اکثر سرکاری ہسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین بھی دستیاب نہیں ہوتی۔ گزشتہ برس عمران خان کے چہیتے وزیراعلیٰ کے شہر ڈیرہ غازی خاں کے ایک سکول میں بارہ سالہ طالب علم کو آوارہ کتوں کے وحشیانہ حملے نے اس طرح لہولہان کیا کہ اس کا اُجلا یونیفارم خون میں ترہوگیا۔ دردناک موت سے دوچار ہونے والے بچے کو تو ماں نے گھر سے سکول تعلیم حاصل کرنے بھیجا تھا‘ اس کی لاش واپس آنے کا ذمہ دار کون ہے؟
کس کس کا رونا روئیں‘ کہاں کے حکمران‘ کیسی حکمرانی؟ ملک کے طول و عرض میں اُجاڑے ہی اُجاڑے ہیں۔ نہ سماجی انصاف ہے‘ نہ قانون کی حکمرانی ہے‘ آئین اور حلف سے انحراف تو حکمرانوں کا وتیرہ بن چکا ہے۔ ہر سال یومِ تکبیر ضرور منائیں‘ جھوٹ سچے کریڈٹ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں‘ کاش عوام کے نصیب میں یومِ تعبیر بھی آئے‘ ان خوابوں کی تعبیر جو 75برسوں سے عوام کو مسلسل دکھائے جا رہے ہیں‘ کبھی سہانے مستقل کے خواب‘ کبھی معاشی استحکام کے خواب‘ کبھی خوشحالی کے خواب‘ کبھی قانون کی بالادستی کے خواب تو کبھی عدل و انصاف کے خواب‘ یہ سبھی وہ خواب ہیں جن کی تعبیر کے انتظار میں عوام کی کتنی ہی نسلیں رزقِ خاک بن چکی ہیں لیکن نہ تعبیر ملتی ہے اور نہ ہی خواب دکھانے والوں کوخیال آتا ہے۔ خواب فروشوں نے سبھی کچھ بیچ ڈالا‘ مینڈیٹ اور وفاداری سے لے کر غیرتِ قومی تک‘ بیچنے والوں نے کسی کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔ تعبیر سے محروم خواب کب تک دکھائے جاتے رہیں گے؟ عوام خوابوں کے سہارے کب تک جیئں گے؟ دکھائے گئے سبھی خوابوں کی بھیانک تعبیر دیکھنے کے بعد عوام تو اب خواب دیکھنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ یومِ تکبیر منانے والے یومِ تعبیر بھی کبھی منائیں گے؟