ہمدمِ دیرینہ وصی شاہ کی شاعری ہجر و وصال کا استعارہ ہے‘ ان کے رومانوی اشعار ایک عہد پر راج کرتے رہے ہیں لیکن ان کے ایک شعر کا ناسٹیلجیا مجھے تادیر جکڑے رہتا ہے۔ زندگی کے جھمیلوں اور مملکتِ خداداد کے ہر دور میں اس طرح فٹ بیٹھتا ہے کہ ہزار الفاظ بھی اس شعر کی تشریح سے قاصر ہیں۔ شاہ جی نے تو اسے عشقِ مجازی کی نذر کر ڈالا ہے لیکن اسے غزل سے ہٹ کر پڑھا جائے تو سیاسی منظرنامے سمیت وطنِ عزیز کی بد سے بدترین ہوتی حالت کی عکاسی کرنے کے علاوہ اعصاب اور نفسیات پر ڈرون حملے سے ہرگز کم نہیں۔ شعر پیش خدمت ہے:
زندگی اب کے مرا نام نہ شامل کرنا
گر یہ طے ہے کہ یہی کھیل دوبارہ ہوگا
ہنرمندانِ ریاست و سیاست کو بار بار توجہ دلانے کے علاوہ بارگاہِ الٰہی میں بھی یہی فریاد ہے کہ اس بار یہ ملک اس کھیل کا متحمل نہیں ہوگا جو گزشتہ 75برسوں سے برابر کھیلا جا رہا ہے۔ خدا جانے کوئی آسیب ہے یا نحوست کہ ہر دور میں لمحۂ موجود ماضی کے ادوار کا ایکشن ری پلے ہی لگتا ہے۔ جنہیں ایوان سے زندان میں بھیجا تھا‘ وہ سبھی ایوانوں میں براجمان ہیں اور جنہیں ایوان میں پہنچانے کے لیے کیسے کیسے جتن اور زمین آسمان ایک کر ڈالا گیا‘وہ سارے زیر عتاب اور پسِ زندان آ چکے ہیں۔ خوب کو ناخوب اور ناخوب کو خوب بنانے کا کہیں تو اَنت ہونا چاہیے۔ جنہیں نجات دہندہ بنا کر لایا جاتا ہے پھر انہی سے نجات کے لیے کیسے کیسے جواز اور حربے آزمائے جاتے ہیں۔ بے پناہ چاہنے والے پناہ مانگتے پھرتے ہیں۔ پون صدی کی مسافت کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ گاڑی کا ریورس گیئر اس طرح پھنس چکا ہے کہ آگے جانے کے بجائے مسلسل پیچھے جا رہی ہے اور پشت کی طرف گردن موڑ کر چلانے والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی سمت ٹھیک اور گاڑی آگے جا رہی ہے۔ مسلسل گردن موڑے رکھنے سے اب گردن بھی اسی زاویے پر اس طرح فٹ ہو چکی ہے کہ سبھی الٹے اور پرخطر راستے بھی سیدھے دِکھائی دے رہے ہیں اور وہ غلط سمت میں گاڑی دوڑائے چلے جا رہے ہیں۔ جن گدھوں کو لکیریں لگا کر زیبرے بنایا گیا تھا ان میں سے اکثر کی لکیریں مدھم پڑ گئی ہیں یا مٹ گئی ہیں۔ خدا نہ کرے کہ ان کو نئی لکیریں لگا کر دوبارہ زیبرا بنایا جائے۔ اگر لکیریں لگانے کا عمل دوہرایا گیا تو ان نقوش کی قیمت آنے والی نسلیں بھی ادا نہیں کر پائیں گی۔ پرانے ایڈونچرز ہوں یا بار بار آزمائے ہوئے چہرے‘ عوام ان سبھی سے عاجز اور بیزار ہیں۔ ایسی جمہوریت سے بھی پناہ مانگتے ہیں جس کا حسن ان کے سبھی خواب گہنانے کے علاوہ حال کا برا حال اور مستقبل بھی خاکستر کر دے۔
خدارا! ہچکولے کھاتے سسٹم کی چولیں ٹھوک کر کھڑا کرنے کے بجائے بنیاد میں لگی ان ٹیڑھی اینٹوں کو نکال باہر کریں جن کی وجہ سے ہر بار دیوار ٹیڑھی ہی کھڑی ہوتی ہے۔ان جونکوں کو نکالنا بھی عین عبادت ہوگا جو نسل در نسل خون چوس رہی ہیں۔ ہر دور میں پارٹی اور قائد کی تبدیلی کے بعد شریک اقتدار رہنے والے کوئی دیوتا اور سماجی رہنما نہیں ہیں بلکہ یہ سبھی موقع پرست اور وہ خون شریک بھائی ہیں جو ملکر دھرتی ماں کا خون پیتے چلے آئے ہیں۔ ان کا نہ کوئی نظریہ ہے اور نہ منشور‘ اخلاقیات اور انسانیت سے عاری یہ سبھی ملکی وسائل کے بٹوارے کے ساتھ قومی خزانے پر کنبہ پروری اور بندہ پروری کرتے چلے آئے ہیں۔ ثانوی اور واجبی سا پس منظر رکھنے والے بھی سیاست میں آکر عالیشان کوٹھیوں‘ لگژری گاڑیوں سمیت بھاری بینک بیلنس اور جائیدادوں کے مالک کیسے بن جاتے ہیں؟ کیا ان سے یہ پوچھنا عین منطقی نہیں کہ چھپڑ پھاڑ کر دولت کہاں سے آئی ہے؟
سیاست کو تجارت بنانے والوں نے ملک و قوم کے پَلے کچھ نہیں چھوڑا۔ مینڈیٹ بیچنے سے لیکر وفاداریوں کی بولی لگوانے والے غیرتِ قومی اور ملکی استحکام کو اس قدر ثانوی سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے طاقت اور اختیار ہی سب کچھ ہے۔ گمراہ کن بیانیے نے ایک سال کے اندر مملکتِ خداداد کا حلیہ ہی بگاڑ ڈالا ہے۔ نفرت اورتشدد کا ایسا کلچر پروان چڑھایا کہ پورا ملک انگار وادی بنا ڈالا۔ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی کا رنگ دینے والے ہوں یا بیانیے کے چورن کو عوام کی آنکھوں میں جھونکنے والے‘ وہ عمران خان سے لاتعلقی کا اعلان کر کے گردن اور کھال بچا رہے ہیں۔
سانحہ 9مئی نے کس طرح عوام کو مذموم ایجنڈوں کی بھینٹ چڑھا ڈالا۔ عوام کو آگے لگا کر خود پتلی گلی سے نکلنے والے سیاستدان کیا جانیں کہ کتنے گھروں میں ماتم کا سماں ہے۔ کتنے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔ کوئی پریس کانفرنس کر کے بری الذمہ ہو گیا تو کوئی سانحہ 9مئی کی مذمت کر کے معافی پاگیا۔ کسی کا ٹویٹ سے کام چل گیا‘ تو کسی نے سیاست سے علیحدگی کا اعلان کر ڈالا۔ ان سبھی کو کوئی نہ کوئی ٹھکانہ‘ کوئی نہ کوئی منزل جلد یا بدیر مل ہی جائے گی لیکن جن کا حال اور مستقل برباد ہوا ہے‘ ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ پچھتاوے کی آگ میں جلنے کے علاوہ اپنے لیڈروں کی پیروی کا بھیانک انجام ان کی اوقات اور برداشت سے کہیں بڑا ہے۔ افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھن پسنے کی بازگشت اس قدر دلخراش ہے کہ کہیں باپ کی دہائی اور ماں کے بین‘ کہیں بچوں کی فریاد تو کہیں بھائیوں کی سسکیاں سنائی دے رہی ہیں۔ جرم کا ارتکاب گمراہی کے نتیجے میں ہو یا اشتعال انگیزی کے نتیجے میں بھگتنا بہرحال مجرم کو ہی پڑتا ہے۔
ہمارے ہاں سیاسی رہنما اپنے ورکروں کو اپنے ایجنڈوں اور دھندوں کا ایندھن بناتے چلے آئے ہیں۔ سرکاری املاک ہوں یا اہم اداروں کی عمارتیں‘ مسافروں کو منزل پہ لیجاتی ٹرینیں اور بسیں ہوں یا سڑک پر موجود عام آدمی کی گاڑیاں‘ کس کو نہیں جلایا؟ بلوائیوں نے توڑ پھوڑ اور پرتشدد واقعات میں انسانیت کو کب نہیں شرمایا؟ ریاست تو نجانے کب سے یہ سبھی عذاب جھیل رہی تھی‘ کہیں مصلحتیں آڑے آجاتی تھیں تو کہیں مجبوریاں‘ حصولِ اقتدار اور طولِ اقتدار کے اس کھیل میں سبھی کھلواڑ برابر چلتے آ رہے ہیں لیکن اس بار عسکری اداروں اور شخصیات کے خلاف ہرزہ سرائی اور الزام تراشی کرنے والے جوش میں ہوش اس طرح گنوا بیٹھے کہ تحمل اور برداشت کو کمزوری ہی سمجھ لیا۔
خدا کرے کہ سانحہ 9مئی دوبارہ کبھی نہ آئے‘ عوام اور پاک فوج کو آمنے سامنے لاکر ذاتی خواہشات اور حسرتیں پوری کرنے والے اپنے انجام کی طرف رواں دواں ہیں لیکن جگاڑیے بھی موقع کی تاک میں گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ پون صدی کے تجربات کا نچوڑ یہ ہے کہ دلفریب جھانسوں‘ مصنوعی اقدامات اور نمائشی اصلاحات پر کھڑی مملکت کے سبھی ستون شکستگی کے خطرناک موڑ پر کھڑے ایک دوسرے سے کہتے نظر آرہے ہیں کہ:
دیوارِ خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے