"AAC" (space) message & send to 7575

کتنے جھوٹے تھے ہم محبت میں

جون ایلیا کا یہ شعر ہماری سیاسی و انتظامی اشرافیہ کے علاوہ کئی منظر ناموں کا استعارہ معلوم ہوتا ہے۔ مفادات میں جڑے ہوئے ہوں یا عہد و پیما میں بندھے ہوئے‘ ایک دوسرے کی ضرورت ہوں یا مجبوری‘ جان نچھاور کرنے والے ہوں یا واری واری جانے والے‘ سبھی جھوٹے ہی پائے گئے ہیں۔ مزید تمہید کے بجائے شعر کی طرف چلتے ہیں:
کتنے جھوٹے تھے ہم محبت میں
تم بھی زندہ ہو ہم بھی زندہ ہیں
جو پروانے کی طرح اردگرد گھوما کرتے تھے‘ بہانے بہانے شکل دکھانے اور بات کرنے چلے آتے تھے‘ کیسے کیسے ہمسفر اور ہمراز مصاحبین اور مشیر ایک ایک کرکے اس طرح تتر بتر ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ جیسے کسی جواز اور بہانے کی تلاش میں تھے۔ یہ منظرنامہ قطعی نیا نہیں ہے۔ چشمِ فلک یہ تماشا نجانے کب سے دیکھتی چلی آرہی ہے۔ 2018ء میں جس عذاب اور عتاب کا سامنا مسلم لیگ(ن) کو تھا‘ آج کئی اضافوں کے ساتھ تحریک انصاف کو ہے۔ اضافی عتاب کی وجہ خود تحریک انصاف اور اس کا طرزِ سیاست ہے‘ جس ہلّہ شیری‘ شعلہ بیانی اور اشتعال انگیزی کے ذریعے اپنے کارکنوں میں آگ بھرا کرتے تھے‘ اسی آگ نے اپنا ہی نشیمن جلا ڈالا۔ خدا جانے کسی مغالطے میں تھے یا گمان میں‘ منصوبہ سازوں نے منصوبہ تو خوب بنایا تھا لیکن آسمانوں پر کچھ اور ہی طے تھا۔ ساتھ نبھانے کی قسمیں اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تصور کیے جانے والے راستے علیحدہ ہونے کے بعد اسی طرح زندہ ہیں جس طرح یہ سبھی ماضی میں شرمندہ ہوئے بغیر زندہ رہتے تھے۔
چیئرمین تحریک انصاف بدستور کسی اور جہان میں بس رہے ہیں۔ ڈھٹائی اور خود پرستی کا عالم یہ ہے کہ احساسِ ندامت ہے نہ شرمندگی‘ علیحدگی اور لاتعلقی اختیار کرنے والوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جتنے چاہے بندے توڑ لو‘ بس الیکشن کی تاریخ دو‘ کھمبے کو بھی ٹکٹ دوں گا تو جیت جائے گا۔ انہیں شاید حالات کی نزاکت اور سنگینی کا اندازہ ہی نہیں کہ اگر ایسے ہی چھوڑنے والے ساتھ چھوڑتے رہے تو ٹکٹ کے لیے اُمیدواروں کے بجائے کھمبے ہی بچیں گے۔ کھمبے پر ٹکٹ لٹکائی تو جا سکتی ہے لیکن جاری نہیں کی جا سکتی۔ ابھی چند ہی روز پرانی بات ہے کہ جب زمان پارک میں ٹکٹوں کی نیلامی کے علاوہ لیڈر کے درشن پر بھی بھاری ٹکٹ لگانے کی خوب بازگشت تھی۔ خیر وقت وقت کی بات ہے‘ مت ماری جائے تو اس طرح بھی ماری جاتی ہے اور پی ٹی آئی چیئرمین کی مت مارنے والے تو کب سے کوشاں اور تاک میں تھے۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ مت مارنے والوں کی اکثریت تو اگلی گھات اور اگلی منزل کی طرف روانہ ہے جبکہ پی ٹی آئی چیئرمین مت مارنے والے بقایا چند دانوں کے ساتھ اپنے اسی مائنڈ سیٹ پر قائم ہیں۔
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا لیکن ایک بات طے ہے کہ کارکنوں کو گھروں سے نکلنے کی جو ہلّہ شیری دی جاتی رہی ہے وہ ملک و قوم کے خلاف اتنی بڑی سازش تھی کہ اس سے ملکی سالمیت اور قومی غیرت دونوں ہی داؤ پہ لگا دی گئیں۔ وہ تو خیر ہوئی کہ آگے پالا ہوش مندوں سے پڑ گیا ورنہ جوش میں ہوش گنوانے والوں نے تو کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ شنید ہے کہ منصوبہ تو یہ تھا کہ بلوائیوں کے جتھے عسکری عمارتوں اور تنصیبات پر پُرتشدد حملے کریں گے تو جوابی کارروائی کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر متوقع خونریزی اور ہلاکتوں پر عوام کو مزید اشتعال دلائیں گے۔ تصادم میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں پہ کھڑے ہوکر عوام کو انقلاب کے لیے ورغلائیں گے۔ مقامِ شکر ہے کہ اتنی بڑی سازش کو جس معاملہ فہمی اور حکمتِ عملی سے ناکام بنایا گیا اس کا کریڈٹ بجا طور پر عسکری قیادت اور انتظامی مشینری کو جاتا ہے۔
ہر خاص و عام کی زباں پر ایک ہی سوال ہے کہ اب کیا ہوگا؟ سوال تو بہت سادہ ہے لیکن اچھے اچھوں کو لاجواب کر ڈالتا ہے۔ کہیں کنگ پارٹی کی بازگشت ہے تو کہیں نئے سیاسی اتحاد کی باتیں ہیں۔ تحریک انصاف چھوڑنے والے اپنی ایڈجسٹمنٹ اور مستقبل کے حوالے سے فکرمند ہیں جبکہ پیپلز پارٹی میں شمولیت کا رجحان بھی زوروں پر ہے۔ آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ 2018ء کے مقابلے میں آج ہمارے حالات قدرے بہتر ہیں۔ انہوں نے بہت جلد لاہور میں ڈیرے لگانے کا عندیہ بھی دے ڈالا ہے۔ زرداری صاحب کی چالیں سیاسی بساط پر خاصی مؤثر اور کامیاب ثابت ہو رہی ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف کی سیاست اور مستقبل کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتے ہی حکمران اتحاد کے اتفاق میں نفاق بھی عین متوقع ہے۔ ان کی ضرورتوں اور مجبوریوں کا سفر نہ ماضی میں کبھی مکمل ہوا ہے اور نہ ہی آئندہوتا نظر آرہا ہے۔ یہ مخصوص ایجنڈوں کے تحت مفادات کے جھنڈے تلے اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنے اپنے اہداف حاصل کرتے ہی انہیں اصولی سیاست اور جمہوریت کے استحکام کا بخار چڑھ جاتا ہے۔ تختِ پنجاب کے اگلے معرکے میں یہ ایک دوسرے کے مدمقابل اور دست و گریباں بھی ہو سکتے ہیں۔ 2008ء کے انتخابات میں آصف زرداری اور نواز شریف چھوٹے بھائی اور بڑے بھائی بن کر ایک دوسرے کے منہ میں نوالے ڈالتے اور واری واری جاتے رہے ہیں۔ اگلے عام انتخابات 2013ء سے پہلے ہی ایک دوسرے کو سڑکوں پہ گھسیٹنے کے علاوہ چور‘ ڈاکو اور لٹیرا بھی کہتے نظر آئے ہیں۔ اُن دنوں کے ایک دوسرے کے خلاف غضبناک تقریروں اور بیانیوں کے ویڈیو کلپس آج بھی ریکارڈ کا حصہ اور سوشل میڈیا پر باآسانی دستیاب ہیں۔ یہاں بھی جون ایلیا کا وہی شعر ہر بار فٹ بیٹھتا ہے۔ ان کی محبتیں بھی جھوٹی ہیں‘ ان کے وعدے بھی جھوٹے ہیں‘ ان کے دعوے بھی جھوٹے ہیں اور عوام کو دکھائے گئے سبھی خواب بھی ہمیشہ ہی جھوٹ نکلتے ہیں‘ گویا یہ سبھی جھوٹے ہی پائے گئے ہیں۔
نجانے کب سے کہتا چلا آ رہا ہوں کہ عوام کو ان جھوٹوں کے جھوٹ کی لت پڑ چکی ہے‘ ان دھوکوں کی لت پڑ چکی ہے جو یہ نسل در نسل اپنے نام نہاد لیڈروں سے کھاتے چلے آرہے ہیں۔ عوام دلفریب جھانسوں اور بے سروپا دعوؤں کے عادی ہو چکے ہیں اور ہر بار ان کی جھوٹی سچی اور چکنی چپڑی باتوں میں آکر انہیں مینڈیٹ دے بیٹھتے ہیں۔ عوام کا مینڈیٹ لے کر اسمبلیوں میں جانے والوں نے اس مینڈیٹ کی کب بولی نہیں لگوائی‘ اپنی دنیا سنوارنے کے لیے عوام کا دیا ہوا مینڈیٹ ہاتھوں ہاتھ کب نہیں بیچا؟ کب اپنی ضرورتوں اور مجبوریوں کی دلالی نہیں کی۔ یہ صرف عوام کا مینڈیٹ ہی نہیں بیچتے بلکہ عوام کا حال اور مستقبل تک بیچ ڈالتے ہیں۔ سیاست کو تجارت بنانے والوں نے کب دھندہ نہیں کیا؟ ایک دوسرے کے حریف بن کر الیکشن لڑنے والے کبھی طولِ اقتدار کے لیے تو کبھی استحکامِ اقتدار کے لیے کب شریکِ اقتدار نہیں ہوئے؟ نظریۂ ضرورت ہی ان ضرورتمندوں کا اصل نظریہ ہے۔ انہیں عوام کا کوئی درد ہے نہ کوئی احساس‘ ان کا جینا مرنا اقتدار کے گرد ہی گھومتا ہے۔ حصولِ اقتدار کے لیے یہ اَنا اور عزتِ نفس سے لے کر غیرت پر سمجھوتے سے بھی نہیں چوکتے۔ ماضی کے چند ادوار کا جائزہ لیں تو کئی چہرے ہر دور میں شریکِ اقتدار اسی لیے نظر آتے ہیں کہ ان کا دھندہ ہی ان کا اصل منشور اور ایجنڈا ہے۔ خدارا! ان سبھی کا کہیں تو اَنت ہونا چاہیے‘ یہ سبھی نئی برانڈنگ کے ساتھ اکٹھے ہو کر ایک بار پھر عوام سے محبتیں جتانے آرہے ہیں اور ہمیشہ کی طرح جھوٹے ثابت ہونے کے باوجود شرمندہ ہوئے بغیر ہی زندہ رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں