اخبارات اور چینلز پر ڈھونگی چہرے ‘نمائشی وعدے اور بے سروپا دعوے دیکھ اور سن کر طبیعت اچاٹ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ میرے کارڈیالوجسٹ کے لیے یہ معمہ تاحال حل طلب ہے کہ باقاعدگی سے مٹھی بھر ادویات کھانے اور دیگر ہدایات پر عمل کرنے کے باوجود فشارِ خون بے قابو کیوں رہتا ہے۔اکثر مذاقاً کہتے ہیں کہ تم لکھنے لکھانے کا کام چھوڑ کر کوئی اور کام ہی کر لو۔ اگر اسی طرح لکھتے اور جلتے کڑھتے رہے تو بلڈ پریشر ادویات کے کنٹرول میں آنے والا نہیں۔ میں جواباً غلام محمد قاصر کا یہ شعر دہرا ڈالتا ہوں:
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
ڈاکٹر صاحب میرا جواب سن کر اکثر کہتے ہیں کہ ''تہاڈا اے پروفیشن میری کوششاں تے پانی پھیری جا رہیا اے‘‘۔ عمرِ عزیز کا نصف سے زائد عرصہ ایسے کام میں گزار چکا ہوں جسے بائی چوائس جوائن کیا تھا۔ Passion اگر پروفیشن بن جائے تو زندگی کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے‘ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ پروفیشن اعصاب‘ نفسیات اور دل کا کام تمام کرنے کے درپے ہے۔ ایک طرف معالج کی تاکید ہے کہ ایسے معاملات اور ماحول سے کوسوں دور رہوں جو دلِ ناتواں پر بھاری پڑ سکتے ہیں۔ دوسری طرف اخبارات کے ڈھیر میں منہ چڑاتی سرخیاں دیکھ کر اکثر سمجھ میں نہیں آتا کہ ان پر رونا ہے یا ہنسنا ہے۔
سالہا سال بیت گئے‘ کتنی ہی رُتیں بدل گئیں لیکن حکمرانوں کے بیانات اور دعوے جوں کے توں ہی چلے آرہے ہیں۔ کئی دہائیوں سے دکھائے جانے والے خواب تعبیر کی ''ت‘‘ کو بھی نہیں چھو سکے۔ خواب بیچنے والے باریاں لگا کر شوقِ حکمرانی تو پورے کیے چلے جا رہے ہیں لیکن نہ ان کے شوق پورے ہونے کو آرہے ہیں اور نہ ہی ان خوابوں کی تعبیر دور دور تک دکھائی دے رہی ہے۔ تعجب ہے! چار مرتبہ وزارتِ عظمیٰ اور آٹھ مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کے مزے لوٹنے والے ماضی کے ادوار پر تنقید کے ساتھ ساتھ وہی پرانے خواب پھر بیچنے کے لیے میدان لگائے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم نے قوم کو خوشخبری دی ہے کہ وہ اپنے برادرِ کلاں کو ایک بار پھر وزیراعظم بنوانے کیلئے پُرعزم ہیں۔ وزیراعظم یہ بھی فرماتے ہیں کہ وہ متوقع انتخابات جیت کر ملک و قوم کی تقدیر بدل دیں گے۔ ماضی کے سبھی ادوار میں تو اپنے دن بدلنے میں ہی مصروف رہے‘ لیکن الیکشن سر پر آتے ہی ایک بار پھر عوام کی تقدیر بدلنے کا خیال آ گیا ہے۔ تدبیر کے بغیر تقدیر بدلنے والے حکمرانوں کے کمالات کا ہی اعجاز ہے کہ عوام کو روٹی‘ کپڑا اور مکان کا چکر دینے والے آج بھی گھن چکر بنائے ہوئے ہیں۔ روٹیوں کے لالے آج بھی ہیں‘ تن ڈھانپنے کو کپڑا اور سر چھپانے کو چھت نہ ختم ہونے والی حسرت بن جائے تو کہاں کے حکمران اور کیسی حکمرانی؟
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا ایک بیان‘ جس میں انہوں نے بھکاری کا کشکول اٹھا کر باہر پھینکنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے‘ اخبارات کے ڈھیر سے سرخی بن کر جھانک رہا ہے۔ آرمی چیف کی نیک خواہشات سر آنکھوں پر کہ ان سیاستدانوں کی موجودگی میں کشکول سے جان چھڑوانا یقینا قوم کے ساتھ بڑی نیکی ہوگی۔ خدا کرے کہ ان کے کشکول پھینکنے کے الفاظ بارگاہِ الٰہی میں قبولیت پا چکے ہوں‘ ورنہ حکمرانی کی باریاں لگاتے سیاستدانوں نے تو مل کر جہاں قوم کو بھکاری بنا ڈالا ہے اور خود بھی چلتے پھرتے کشکول بن چکے ہیں۔ جس ملک میں ہر مرنے والا شخص مقروض مرے اور پیدا ہونے والا پیدائشی مقروض ہو وہاں کشکول سے جان چھوٹ جانا کسی معجزے اور نعمت سے ہرگز کم نہیں کیونکہ مملکتِ خداداد کے سبھی حکمران حصہ بقدرِ جثہ قرض کی مے پر فاقہ مستی کے مزے لیتے چلے آئے ہیں۔ یہ فاقہ مستی روز ایک نیا رنگ لا رہی ہے اور یہ سبھی اس رنگ میں اس طرح رنگے جا چکے ہیں کہ اب انہیں فاقہ مستی کے سوا کوئی اور رنگ بھاتا ہی نہیں۔ کشکول اٹھاکر باہر پھینکنے کے ایجنڈے میں اگر کچھ توسیع کر لی جائے تو یہ مشکل اور دشوار گزار مرحلہ قدرے آسان ہو سکتا ہے اور اسی طرح کے کچھ دیگر اقدامات مائنس کشکول پاکستان کا سنگِ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔
ادھر نگران وزیراعظم کے لیے ایسے ایسے نام زیر گردش ہیں جن کے بارے میں عوام بہت کچھ جانتے ہیں۔ گویا زیر گردش نام مملکتِ خداداد میں گردشِ ایام بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ منتخب ہو کر آئیں یا نگران بن کر‘ دونوں صورتوں میں ملک و قوم کے لیے مرگِ نوکے سوا کچھ نہیں ہیں۔ خدارا! یہ قوم ایک اور مرگِ نو کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جو سقراط و بقراط ملک و قوم کے وسائل اور معیشت کے ساتھ کھلواڑ کرتے چلے آئے ہیں‘ بخدا! یہ معیشت کی ''م‘‘ سے بھی واقف نہیں ۔ ان کی پالیسیوں اور اقدامات کے سبب مل بانٹ کر کھانے والوں نے معیشت کا پیندا ہی چاٹ کھایا ہے۔ بے پیندے کی معیشت میں اقدامات اور اصلاحات کا سمندر بھی انڈیل دیں‘ ایک قطرہ بھی ٹھہرنے والا نہیں۔ ان حالاتِ پریشان میں ایسے نگران مزید پریشان حالی کا باعث بنیں گے۔ وطنِ عزیز کو نگرانوں کی نہیں نگہبانوں کی ضرورت ہے۔ جس دن نگہبان میسر آگئے کشکول سے بھی جان چھوٹ جائے گی اور قوم بھی باوقار ہو جائے گی‘ تاہم کشکول اٹھا کر باہر پھینکنے کے ایجنڈے میں اس تلخ حقیقت کو اس لیے شامل کر لیں کہ مائنس کشکول پاکستان کے لیے ان کشکول اٹھانے والوں کو بھی مائنس کرنا پڑے گا۔ انہیں مائنس کیے بغیر کچھ پلس ہونے والا نہیں۔ ویلیو ایڈیشن کے لیے کئی نئے ایڈیشن لانا ہوں گے۔ ماضی کے سبھی ادوار کے تجربات اور ان کے نتائج بے نقاب ہو چکے ہیں۔ ایک بار پھر میدان لگ رہا ہے۔ انتخابی معرکہ سر کرنے کے لیے داؤ پیچ طے کیے جارہے ہیں۔ اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کے نت نئے فارمولے لائے جا رہے ہیں۔ ووٹ کی سیاہی عوام کے مقدر اور منہ پر ملنے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ ڈبے بھرنے کے لیے جیبیں اور پیٹ بھرے جا رہے ہیں۔ سبھی کردار اور چہرے اقتدار میں لوٹ کر آنے کے لیے بے تاب اور بے چین ہیں۔ اگر یہی مشقِ ستم مزید اضافوں کے ساتھ دہرائی جانی ہے تو پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا عزم کیونکر پورا ہوگا۔
سیاستدانوں کے اپنے ہاتھوں میں کشکول توڑنے کی جرأت اور ہمت ہوتی تو یہ اپنے ہر دورِ اقتدار میں کشکول کا سائز بڑھاتے نہ چلے جاتے۔ قوم سالہا سال سے حکمرانوں کی کشکول توڑنے کی کوشش کا ڈرامہ خوب بھگت چکی ہے۔ قرض اُتارو ملک سنوارو کے نام پر عوام سے بھاری رقوم بٹورنے والوں نے تو فارن کرنسی اکاؤنٹس بھی منجمد کر ڈالے تھے۔ نہ قرض اُترا نہ ملک سنورا‘ البتہ ان سبھی کے دن پھرتے اور سنورتے چلے گئے۔ خدارا! کشکول باہر پھینکنا ہے تو مملکتِ خدادا کو کشکول نما ہاتھوں اور چہروں سے بچانا ہوگا۔ اس بار معیشت کے کنویں سے بوکے نکالنے کے بجائے بدنیتی کا کتا ہی نکالنا ہوگا۔ قوم اس دن کی منتظر رہے گی:
وقت ایسا نہ دیجئے کہ بھیک لگے
باقی جیسا آپ کو ٹھیک لگے