"AAC" (space) message & send to 7575

سیٹ اَپ یا اَپ سیٹ

سیاسی سرکس میں سبھی نئے آئٹمز اس طرح شامل کیے جا رہے ہیں کہ کھیل بھی ہاتھ میں رہے اور مداری بھی۔ ایک طرف اقتدار کی مدت پوری ہونے کو ہے جبکہ دوسری طرف اقتدار میں واپسی یقینی بنانے کے لیے تدبیریں اور اقدامات بھی زوروں پر ہیں۔ نگران سیٹ اَپ کہیں اَپ سیٹ کا باعث ہی نہ بن جائے۔ اس کے لیے نام اور اختیارات دونوں پر سر جوڑے جا چکے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی افتادِ طبع انہیں پارلیمانی سیاست سے پہلے ہی باہر کیے ہوئے ہے۔ اب نگران وزیراعظم سے لے کر دیگر سبھی امور حکمران اتحا دکے ہاتھ میں ہیں‘ اپنی اپنی خواہشات اور تحفظات لیے یہ سبھی آئندہ انتخابات کو اپنے حق میں کرنے کے لیے مہرے اور چالیں بھی چل رہے ہیں؛ تاہم اس بار انتخابات میں ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور چور ڈاکو کہنے کے امکانات گھٹتے چلے جا رہے ہیں۔ گویا مل بانٹ کر کھانے اور وسائل و اقتدار کے بٹوارے کو ہی طرزِ سیاست بنا لیا گیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کی عوام میں بدستور مقبولیت بھی انہیں اکٹھے رہنے پر مجبورکیے ہوئے ہے۔ بظاہر سب کچھ انہی کے ہاتھ میں ہے‘ اقتدار بھی انہی کے ہاتھ میں ہے اور آنے والے نگران سیٹ اَپ کے بارے میں بھی یہی تاثر تقویت پکڑتا چلا جا رہا ہے کہ یہ سبھی معاملات اور کنٹرول اقتدار سے رخصت ہونے والے حکومتی اتحاد کے مرہونِ منت ہی رہے گا۔
بااختیار نگران حکومت کے لیے قانون سازی کی ضرورت کیوں آن پڑی جبکہ نگران تو صرف انتخابات کرانے کا مینڈیٹ لے کر آئینی مدت کے لیے اقتدار میں آتے ہیں۔ اصولاً تو انہیں بروقت انتخابات کروا کر اقتدار اکثریتی پارٹی کو سونپنے کے بعد باعزت رخصت ہو جانا چاہیے لیکن مزید اختیارات کے لیے کثرتِ رائے سے جو بل منظور کیا گیا ہے‘ اس کے اگر نکتے ملائے جائیں تو بننے والی شکل اور منظرنامے کے تصور سے ہی جاوید اختر کی نظم ''نیا حکم نامہ‘‘ کے کچھ اشعار بے اختیار یاد آرہے ہیں:
کسی کا حکم ہے ساری ہوائیں
ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے
کدھر جا رہی ہیں
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہو گا
چلیں گی اب تو کیا رفتار ہوگی
ہواؤں کو یہ اجازت نہیں ہے
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے
ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں
یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرنا ہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن
یہ سبھی جانتے ہیں
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ تیسری پارٹی اور تبدیلی کے سونامی کا تجربہ ناکام ہونے کے بعد شاید اب دو پارٹی نظام کی طرف لوٹا جا رہا ہے۔ اب دونوں پارٹیوں کو یہ سمجھ بھی خوب آ چکی ہے کہ وہ کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کی بدترین مخالف اور ضد تو رہی ہیں لیکن اس کا فائدہ تیسری پارٹی نے اس طرح اٹھایا کہ ان دونوں کو ہی گیم سے آؤٹ کر دیا۔ اس سبق آموز تجربے کے بعد طویل مدتی گٹھ جوڑ پر دونوں پارٹیوں کا اتفاقِ رائے ہو چکا ہے۔ نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ توسیع پسندانہ عزائم کی طرف یہ اشارہ بھی ہے کہ ناموافق حالات کی صورت میں نگران سرکار سے وہ اقدامات بھی بہ آسانی کرائے جا سکیں کہ بازی ہاتھ سے نکلنے نہ پائے۔
تختِ پنجاب کی نگران سرکار کا ماڈل پہلے ہی وفاقی حکومت کو برابر موافق آرہا ہے۔ قانون سازی اور اختیارات میں اضافے کے بغیر ہی سبھی اختیارات استعمال کیے جا رہے ہیں جبکہ آئینی مینڈیٹ تو کئی ماہ پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔ آئینی اور قانونی جواز کے بغیر اگر پنجاب میں اس طرح سکہ چلایا جا سکتا ہے تو وفاق کا عالم کیا ہوگا‘ جہاں نگران سرکار باقاعدہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ اختیارات کے تحت میدان میں آرہی ہے‘ تاہم حفظِ ماتقدم کے لیے متوقع نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ اور دیگر اقدامات وہ پرچہ بھی آؤٹ کیے دے رہے ہیں جو مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان طے پا چکا ہے۔ متوقع نگران سرکار کے اختیارات میں اضافے سے جڑے آئندہ منظر نامے پر مزید تبصرے سے احتیاط اور اختصار سے کام لیتے ہوئے صورتحال کی مزید وضاحت کے لیے جاوید اختر کے مزید چند اشعار مستعار لے رہا ہوں:
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
گلستاں میں کہیں بھی پھول یک رنگیں نہیں ہوتے
کبھی ہو ہی نہیں سکتے
کہ ہر اک رنگ میں چھپ کر بہت سے رنگ رہتے ہیں
جنھوں نے باغ یک رنگیں بنانا چاہے تھے
ان کو ذرا دیکھو
کہ جب اک رنگ میں سو رنگ ظاہر ہو گئے ہیں تو
کتنے پریشاں ہیں کتنے تنگ رہتے ہیں
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
ہوائیں اور لہریں کب کسی کا حکم سنتی ہیں
ہوائیں حاکموں کی مٹھیوں میں‘ ہتھکڑی میں
قید خانوں میں نہیں رکتیں
یہ لہریں روکی جاتی ہیں
تو دریا کتنا بھی ہو پُر سکوں‘ بیتاب ہوتا ہے
اور اس بیتابی کا اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے
آئندہ انتخابی میدان مارنے کے لیے سبھی اقدامات اور پیش بندیوں کے علاوہ سبھی چالیں اور مہرے بھی برابر چلے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے خائف اور تحفظات کے باوجود ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مل کر چلنے والوں کی فکری اور سیاسی بلوغت کا کریڈٹ بلاشبہ تحریک انصاف کو ہی جاتا ہے۔ انتخابی دنگل میں تحریک انصاف کا مقابلہ یہ سبھی مل کر ہی کر سکتے ہیں۔ تاہم سبھی پیش بندیوں کے باوجود نتائج کی گارنٹی دور دور تک نظر نہیں آرہی۔ ریاست اور سیاست کے بوتے پر کھیلے جانے والے سبھی داؤ پیچ اور چالیں اپنی جگہ لیکن پولنگ ڈے پر شہ مات اختیار صرف ووٹر کو ہی ہوتا ہے۔ مائنس ووٹر سبھی اقدامات اور انتظامات کہیں دھرے نہ رہ جائیں۔ کچھ توجہ اس طرف بھی ضرور ہونی چاہیے کہ ووٹر کو اپنی حق میں مائل کرکے اس شہ مات سے کس طرح بچنا ہے جس کا خدشہ بدستور لاحق ہے۔ حکمران اتحاد کا طرزِ سیاست ہو یا طرزِ حکمرانی‘ دونوں ہی تحریک انصاف سے جڑے ووٹر کو جس طرح زندہ رکھے ہوئے ہیں‘ آئندہ انتخابات میں وہ اپنے زندہ ہونے کی رسید بیلٹ باکس میں ڈالنے ضرور آئیں گے۔ خاطر جمع رکھیے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں