مملکتِ خداداد کی قسمت اور فیصلوں پر مسلط اشرافیہ تسلط کے تسلسل کے لیے اعلامیے اور شیڈول جاری کر رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں کب کیا ہوگا‘ نگران وزیراعظم کا فیصلہ کب ہوگا‘ اسمبلیاں کب تحلیل ہوں گی‘ نواز شریف کب لوٹیں گے اور لوٹنے کے بعد کب حفاظتی ضمانت حاصل کریں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔ پروگرام اس طرح جاری کیے جا رہے ہیں جیسے سبھی کچھ انہی کے کنٹرول اور مٹھی میں ہو۔ نواز شریف کو متوقع عدالتی ریلیف کا عندیہ دینے کے ساتھ ساتھ اقتدار اور وسائل کے بٹوارے بھی طے پا چکے ہیں۔ جا کر واپس لوٹنے کے یقین اور وثوق کا عالم یہ ہے کہ ملک نہ ہوگیا کوئی ذاتی جاگیر ہوگئی۔
پاکستان کی عمر ِعزیز کا نصف سے زائد عرصہ حکمرانی کے جوہر دکھانے والے آج بھی گا‘ گے‘ گی اور سہانے خواب ہی بیچ رہے ہیں۔ ماضی کے سبھی ادوار جمع کرکے دیکھ لیں کوئی سال‘ کوئی مہینہ‘ کوئی عشرہ اور کوئی دن ایسا نہیں نکلے گا جس کے بارے میں کوئی گواہی دے سکے کہ انہوں نے حقِ حکمرانی اداکرنے کی کوشش بھی کی ہو۔ ان کی آنیاں جانیاں اور اقتدار کی باریاں دیکھ کر یوں گمان ہوتا ہے کہ یہ سبھی پیدا ہی حکمرانی کے لیے ہوئے ہیں۔ اقتدار سے نکالے جانے کے باوجود ان کا طمطراق دیدنی تھا۔ زیرِ عتاب ایام میں بھی خود کو حکمران خاندان ہی کہا کرتے تھے‘ حوالے اور تصدیق کے لیے محترمہ مریم نواز کی شعلہ بیانیاں آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ نسل در نسل شوقِ حکمرانی جہاں ان کی ضد بنتا چلا جا رہا ہے وہاں سیاہ بختی عوام کا مستقل مقدر بنتی دِکھائی دے رہی ہے۔
یا خدایا! یہ کیسا خطہ ہے‘ جہاں اشرافیہ کی شان و شوکت اور موج مستی کا کوئی اَنت ہی نہیں۔ دوسری طرف عوام کی حالتِ زار قابلِ بیان بھی نہیں۔ تیری زمین پر ایک طرف اَکڑی گردنوں کے ساتھ پھرتے تیرے یہ بندے تیری ہی مخلوق پر زندگی تنگ اور عذاب کیے ہوئے ہیں۔ ایک بار پھر بساط بچھائی جا رہی ہے‘ مہرے اور پیادے بھاگے پھر رہے ہیں۔ اقتدار چھوڑنے سے پہلے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کے لیے جگاڑ اور تدبیریں برابر جاری ہیں۔ ان سبھی کو اس وقت اپنے سوا نہ کوئی دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی سجھائی۔ خود کو عوام کے دکھوں کا مداوا اور مسیحا سمجھنے والے کیا یہ بھی نہیں جانتے کہ مملکتِ خداداد میں بسنے والی مخلوق جس دھتکار اور پھٹکار کا شکار ہے اس کی واحد وجہ ان کی طرزِ سیاست اور طرزِ حکمرانی ہے۔ ہر طرف بربادیوں اور اجاڑوں کے انبار لگانے والے کیا اس حقیقت سے بھی بے خبر ہیں کہ ثانوی حیثیت کے ساتھ سیاست میں آنے والے جوں جوں سیاست کو تجارت بناتے چلے گئے توں توں عوام بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہوتے چلے گئے۔
مملکتِ خداداد میں عام آدمی کیسے کیسے عذابوں سے دوچار ہے‘ اس کی تفصیل میں جائیں تو ایسے درجن بھر کالم بھی ناکافی ہیں۔ سفاکی‘ بربریت اور درندگی کے ایسے ایسے دلخراش واقعات روزمرہ کا معمول بنتے چلے جا رہے ہیں جن میں سے اِکا دُکا منظر عام پر آجاتے ہیں جبکہ اکثریت پر ٹوٹنے والی قیامت کی کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ گھروں میں کام کاج کرنے والے کمسن بچوں پر وحشیانہ تشدد کے واقعات پر حکومتی ردِعمل ہمیشہ ہی ماٹھا اور ٹھنڈا رہا ہے‘ شاید ان کے لیے اس طبقے کے بچے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت ہی نہیں رکھتے۔ ڈومیسٹک ورکرز بلز جیسے ڈھکوسلے صرف کتابوں اور دستاویزات تک ہی محدود رہتے ہیں۔ مجبوراً کسی واقعے پر ایکشن لینا بھی پڑ جائے تو دفعات میں ڈنڈی مارنے سے لے کر تفتیش اور انصاف کے حصول تک مختلف مراحل میں حصہ بقدر جثہ مجرموں کو بچانے کے لیے سبھی اپنا اپنا حصہ برابر ڈالتے ہیں۔ انتہائی دکھی کر دینے والی ان وارداتوں میں معصوم بچوں پر ظلم توڑنے والی حوا کی بیٹی ہی نکلتی ہے۔
گزشتہ دنوں ایک سول جج صاحب کی بیگم کے ہاتھوں بے رحمانہ تشدد کا شکار ہونے والی معصوم بچی تاحال زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ دوسری طرف بیگم صاحبہ کو بچانے کے لیے تدبیریں اور کوششیں بھی برابر جاری ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والی کمسن بچیوں کو کبھی استری سے جلایا جاتا ہے تو کبھی رسی سے باندھ کر مارا جاتا ہے۔ ننھے منے ہاتھوں سے روٹیاں پکانے والی بچیوں کو روٹی جل جانے پر بھی اکثر تشدد برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ماضی قریب میں صوبائی دارالحکومت کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پندرہ سالہ عظمیٰ کو مالکن نے سر میں ڈنڈا مار کر مار ڈالا تھا۔ بچی کے قتل سے پہلے اسے آٹھ ماہ گھر والوں سے ملنے بھی نہیں دیا تھا۔ اس دوران بچی روز جیتی اور روز مرتی رہی تھی۔ فیصل آباد کی دس سالہ طیبہ کو ایک اور جج صاحب اور ان کی اہلیہ کی تحویل سے شدید زخمی حالت میں برآمد کیا گیا تھا۔ کس کس کا نوحہ لکھوں‘ مظفر گڑھ میں فہیم نامی بچے پر تشدد کے بعد ہلاکت کا ماتم کریں یا لاہور کی گیارہ سالہ سمیرا کا۔ سابق رکنِ اسمبلی کی بیٹی کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد سے ہلاک ہونے والے اختر کا رونا روئیں یا اسلام آباد میں سرکاری افسر کے تشدد سے بارہ سالہ ملازمہ کو اپاہج کرنے کا واویلا کریں۔
صوبائی دارالحکومت میں گھریلو ملازمین پر تشدد کے رپورٹ ہونے والے افسوسناک واقعات بتدریج بڑھ رہے ہیں۔ 2013ء میں آٹھ واقعات‘ 2016ء میں پندرہ واقعات‘ 2017ء میں اکیس واقعات‘ 2018ء میں بائیس واقعات‘ 2019ء میں ستائیس واقعات اور 2020ء میں تیس واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ معصوم بچوں سے یہ غیرانسانی سلوک اس لیے بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ متاثرہ خاندان مجرموں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی استطاعت اور وسائل سے محروم جو ٹھہرا۔ چند ہزار کے لیے جو جگر کا ٹکڑا لوگوں کی چاکری کے لیے دے جاتے ہیں وہ بااثر اور بااختیار شخصیات کے سامنے کہاں ٹھہر سکتے ہیں۔ بالآخر جبری صلح اور معاوضہ پر آکر اکثر کیس دم توڑ دیتے ہیں۔
اسی طرح ایک معروف یونیورسٹی کے المناک واقعہ پر اعصاب شل اور قلم پتھر کا محسوس ہو رہا ہے۔ الفاظ دھاڑیں مارتے دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ اس تکلیف دہ واقعہ کے اظہار سے قاصر ہیں۔ ایسے واقعات پر الفاظ کا قحط پڑ جانا ہی اچھا ہے کیونکہ ڈھونڈے سے بھی الفاظ نہیں مل پا رہے جو ان ماں باپ کی اذیت کا احوال بیان کر سکیں جن کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون لٹ چکا ہے اور حکمران شعبدے بازیوں میں مصروف ہیں۔ حکمران اتحاد تو شاید اپنے چند دنوں کے اقتدار کا مزہ خراب کرنے سے گریزاں ہے۔ تعجب ہے! پوری قوم ایک کرب اور اذیت میں مبتلا ہے اور حکمران اپنی سیاسی بساط کے مہروں اور چالوں میں مگن ہیں۔ ان کے لیے شاید یہ واقعہ ثانوی حیثیت کا بھی نہ ہو کیونکہ وہ اس مکروہ اور گھناؤنے سکینڈل کے اہم اور مرکزی کردار بچائیں گے تو سیاست اور حکومت بچے گی۔ اب ان بچیوں کے لیے کون اتنا بڑا رِسک لے کہ حکومت اور اتحاد ہی داؤ پہ لگا ڈالے۔ اس شرمناک واقعہ پر شاید اسی لیے نہ تو کسی کی غیرت جاگی نہ ہی حکومت۔ جامعہ کا نام دیکھیں اور اس میں ہونے والے بھیانک اور گھناؤنے کالے کرتوٹ دیکھیں‘ بلیک میلنگ کا شکار ہونے والی بچیوں کے مستقبل اور والدین کو لگے روگ پر تو قلم ساتھ دینے سے پہلے ہی جواب دے چکا ہے۔ ایسے صدمات سے تو دل پھٹا جا رہا ہے۔ زمینی خدا اور ان کے قوانین جب جان اور عزتوں کی حفاظت سے قاصر ہوجائیں تو نظریں آسمان کی طرف اٹھ جاتی ہیں اور بے اختیار زبان سے نکلتا ہے کہ ہُن تے رَبّا تَھلے آ۔