"AAC" (space) message & send to 7575

جھانسے کے راجا

جھانسی کی رانی کے بارے میں ہم تاریخ اور نصاب کی کتابوں میں پڑھتے چلے آئے ہیں لیکن آئندہ نسلوں کو جھانسے کے راجاؤں کے بارے میں پڑھنے کو بھی بہت کچھ ملے گا۔ جھانسی کی رانی تو ایک دبنگ خاتون اور دلیری کا استعارہ تھی جبکہ مملکتِ خداداد میں شوقِ حکمرانی کے مارے سبھی راجا جھانسے کا استعارہ ہی ثابت ہوئے ہیں۔ ملک بھر میں عوام پر ایک اور پٹرول بم گرائے جانے کے بعد طوفان کا سماں اور ناختم ہونے والی بحث جاری ہے۔ ہر دور میں ہمارے حکمران اپنے عوام پر ایسے ڈرون حملے کرتے ہی چلے آئے ہیں۔ عوام کو اب تو اس طرزِ حکمرانی کا عادی ہو جانا چاہیے لیکن عوام ہر گرائے جانے والے بم پر اس طرح واویلا کرتے ہیں جیسے کوئی نئی بات اور واردات ہو۔ عوام کو یہ بات اپنے ذہنوں میں اچھی طرح بٹھا لینی چاہیے کہ جہاں اقدامات نمائشی اور اعلانات ناختم ہونے والے وعدے ہوں تو وہاں عبوری اور وقتی ریلیف جھانسہ ہی ہوتے ہیں۔
پٹرولیم سمیت دیگر مصنوعات میں کچھ ریلیف دراصل بڑے صدمے کا سنگِ میل ہی ثابت ہوتا چلا آیا ہے۔ یہ تو حکمرانوں کی عوام دوستی کا بھرم ہے جو انہوں نے صرف 19روپے 95پیسے فی لٹر اضافہ کیا ہے۔ اگر احساسِ عوام نہ ہوتا تو پورے 20بیس روپے اضافہ بھی کر سکتے تھے‘ پانچ پیسے کی چھوٹ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ وزیروں‘ مشیروں کی تعداد 80کا ہندسہ عبور کر چکی ہے‘ دوسری طرف عوام خطرے کے سبھی نشان کراس کر چکے ہیں۔ قوتِ خرید ہو یا قوتِ برداشت‘ دونوں ہی حکمرانوں کے ہاتھوں میں دَم دے چکے ہیں۔ حکمران اتحاد کی کارکردگی ڈھونڈنے نکلیں تو ملک کے طول و عرض میں ڈھونڈے سے بھی کچھ نہیں ملتا البتہ ادارۂ احتساب کا دھڑن تختہ کرنے سے لے کر قانون اور ضابطوں کو شرمسار و سرنگوں کرنے کے علاوہ پارلیمنٹ سے عین موافق اور من پسند قانون سازی کے ریکارڈز بھی توڑے جا چکے ہیں۔
جس طرح حکومت کی کارکردگی عوام کو ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی‘ اسی طرح ادارۂ احتساب اور دیگر حکومتی اداروں کو حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کے خلاف رنگین اور سنگین الزامات کے ثبوت بھی ڈھونڈے سے نہیں ملے۔ ان کرشماتی اداروں کا یہی اعجاز ہے کہ انہیں حاکمِ وقت کی آنکھ میں شہتیر نظر نہیں آتا اور حکومت مخالف شخصیات کی آنکھ میں بال بھی باآسانی نظر آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہنگے کیسوں میں دھرے جانے والے سبھی برسر اقتدار آتے ہی ایک ایک کر کے سستے چھوٹ چکے ہیں‘ اپنی مصیبتوں اور عذابوں کو ٹالنے سے کہیں فرصت ملتی تو عوام کی حالتِ زار بھی نظر آتی۔ جہاں عوام غربت کی سبھی لکیریں عبور کرکے انہی لکیروں میں دفن ہو چکے ہوں وہاں مہنگائی اور گرانی جیسے الفاظ حالات کی عکاسی اور احاطہ نہیں کر سکتے۔ ڈکشنری میں اگر ان حالاتِ پریشاں کا استعارہ تلاش کرنے جائیں تو ہلکے سے ہلکے الفاظ عذاب و رسوائی پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے جبکہ دھتکار اور پھٹکار ان لفظوں کو اعراب کی صورت گھیرے ہوئے ہیں۔ جو طرزِ حکمرانی عوام کے لیے دن کی رسوائی اور رات کی بے چینی بن جائے‘ طلب کی چادر ضروریات کے آگے رومال دِکھائی دے تو وہاں عزتِ نفس اور غیرت کے لالے پڑ جاتے ہیں۔
مملکتِ خداداد عملی طور پر دو طبقات میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک طبقہ اشرافیہ پر مشتمل ہے جس کے کتوں اور دیگر پالتو جانوروں کی خوراک اور رہن سہن کا خرچہ کئی خاندانوں کے بجٹ سے کہیں زیادہ ہے‘ جبکہ دوسری طرف پیٹ بھر روٹی اور دیگر ضروریاتِ زندگی خلقِ خدا کو ادھ موا کیے ہوئے ہیں۔ بجلی کا بل موصول ہوتے ہی جس گھر میں سوگ طاری ہو جائے وہاں پورا مہینہ کیسے گزرتا ہو گا‘ ان حالاتِ پریشاں کی ترجمانی سے تو الفاظ بھی قاصر ہیں۔ بلز میں شامل ناقابلِ برداشت ٹیکسز جواز سے کل بھی محروم تھے آج بھی محروم ہیں۔ فیصلہ سازوں کے خون جوں جوں سفید ہو رہے ہیں توں توں سفید پوشی کا بھرم محال ہوتا چلا جا رہا ہے۔ عوام سے قربانی مانگنے والے سیاستدان وہ دیوتا بن چکے ہیں جو بڑی سے بڑی بَلی سے بھی راضی نہیں ہوتا۔ عوام پہلے ہی بَلی چڑھ چکے ہیں‘ سرکاری وسائل اور ملکی خزانے کی بَلی پون صدی سے جاری ہے اور یونہی جاری رہے گی۔
بھوک اقتدار کی ہو یا مال و زر کی‘ بھوکے کو بے حال کیے رکھتی ہے۔ یہ سبھی بھوک مٹانے کی طلب میں اس قدر بے حال اور بدمست ہو چکے ہیں کہ انہیں عوام کے گھروں میں بھوک اور فاقوں کے ڈیرے نظر ہی نہیں آتے۔ ان کے محلات‘ شاہانہ طرزِ زندگی‘ ملکی و غیرملکی ہوش رُبا اثاثے‘ سبھی عوام کی بھوک کے مرہونِ منت ہیں۔ جب تک عوام بھوکے مرتے رہیں گے‘ یہ پھلتے پھولتے اور ترقیوں کے پہاڑ سر کرتے رہیں گے۔ ان کی خوشحالی عوام کی بدحالی سے مشروط جو ٹھہری۔ خطِ غربت روز ایک نیا ریکارڈ بنا رہا ہے۔ پسماندہ بستیوں میں ننگے پیر‘ ننگ دھڑنگ معصوم بچے کیا جانیں کہ ان کے حصے کی روٹی اور بنیادی سہولیات کس کس کی شکم پروری کر رہی اور کس کس کی تجوریاں بھر رہی ہیں۔ جابجا بھوک کا رقص حکمرانوں کے لیے وہ مجرب نسخہ ہے جس سے یہ نکھرتے اور سنورتے ہیں۔ ان سبھی کو اس رقص و سرور کی ایسی لت پڑ چکی ہے کہ ناچنے والے بھوکے ہوں تو ان کی آہ و بکا حکمرانوں کی سماعتوں کے لیے سریلے ساز بن جاتی ہے۔
میں کوئی سکالر ہوں‘ نہ کوئی دانشوری کا زعم ہے لیکن ایک خیال اکثر بے چین اور سکون غارت کیے رکھتا ہے کہ مکافاتِ عمل کے معانی بدل گئے ہیں یا ہم تشریح اور مفہوم سمجھنے میں غلطی کھا رہے ہیں۔ ماضی کی فصل حال کاٹتا ہے اور حال کی فصل مستقبل کو کاٹنا پڑتی ہے‘ اسی عقیدے اور یقین کے ساتھ زندگی کو گزارتے اور دیکھتے چلے آئے ہیں لیکن مملکتِ خداداد میں حکمرانی کے نام پر اُدھم مچانے والوں نے آگہی‘ عقل اور شعور کو تو اس مقام پہ لا کھڑا کیا ہے کہ سبھی عقیدے اور یقین متزلزل اور لڑکھڑائے جاتے ہیں۔ جنہوں نے ماضی کی کھیتی کاٹنا تھی انہوں نے مملکتِ خداداد کا تو حال ہی برباد کر ڈالا اور جو حشر نشر یہ حال کا کیے ہوئے ہیں اس تناظر میں مستقبل بھی انہی کا ہے اور دنیا بھر کی نعمتیں اور ملک و قوم کے وسائل بھی انہی کے لیے ہیں۔ ایسے میں مکافاتِ عمل کے معانی اور مفہوم پر سوال کیونکر نہ اُٹھے؟ اے پروردگار! مکافاتِ عمل کے معانی و مفہوم بدل دے یا اس ملک و قوم کے دِل بدل دے۔
مملکتِ خداداد میں 75برسوں سے لگے تماشے کا جائزہ لیں تو کھیتی صرف عوام نے ہی کاٹی ہے۔ حکمرانوں کی لگائی ہوئی کھیتیاں کاٹتے کاٹتے اب تو ہاتھ بھی لہو لہان ہو چکے ہیں بالخصوص دو خاندان ڈیڑھ درجن سے زائد مرتبہ حکمرانی کے ادوار میں وطنِ عزیز کی عمرِ عزیز کا نصف سے زائد عرصہ کوڑھ کاشت کرتے رہے ہیں‘ وہ کوڑھ اب جابجا ہر سُو دیکھا اور محسوس کیا جا رہا ہے۔ ان کی نیت اور ارادوں سے لے کر طرزِ حکمرانی کی سبھی کھیتیاں عوام ہی کاٹتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی اپنے اعمال کی ایک کھیتی بھی نہیں کاٹی‘ کھیتی کاٹنے کے بجائے یہ نئی فصل ہی لگاتے چلے گئے ہیں اور ان سبھی فصلوں کو کاٹتے کاٹتے عوام کی کتنی ہی نسلیں رزقِ خاک بن چکی ہیں۔ آخر میں فیض احمد فیضؔ کے یہ شعر بطور استعارہ پیش خدمت ہیں:
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں