"AAC" (space) message & send to 7575

نام میں کیا رکھا ہے؟

حکمران اتحاد کی پیش بندیاں مکمل ہوتے ہی قومی اسمبلی تحلیل اور نگران حکمران ملک کی باگ ڈور سنبھال لیں گے۔ کوئے اقتدار میں واپسی کیلئے جابجا سنگِ میل عبور کئے جا چکے اور مہرے و چالیں چلی جا چکی ہیں۔ نگران وزیراعظم کے نام پر قیافے اور قلابے ملائے جا رہے ہیں‘ متوقع ناموں میں روز بروز اضافہ اور تبدیلی بھی برابر جاری ہے۔ فلاں وزیراعظم ہوگا تو یہ ہوگا‘ فلاں ہوگا تو یہ نہیں ہوگا‘ فلاں اس مائنڈ سیٹ کا ہے تو فلاں اس مائنڈ سیٹ کے برعکس ہے‘ اس قسم کی تھیوریاں اور دانشوری بھی بھگاری جا رہی ہے۔ خاطر جمع رکھیں! وزیراعظم کسی بھی نام کا ہو‘ اس کا قد کاٹھ جسامت و جثہ کیسا بھی ہو‘ وہ بس وزیراعظم ہی ہوتا ہے‘ نام میں کیا رکھا ہے؟نام کوئی بھی ہو‘ اس کی نامزدگی اور تقرری تو بس مطلوبہ کام سے مشروط ہوتی ہے۔ جس نگران وزیراعظم کا نام حکمران اتحاد کے کرتے دھرتوں نے فائنل کرنا ہے وہ زیادہ سے زیادہ کون اور کیا ہو سکتا ہے۔ ماضی میں بھی منتخب اور نگران وزیراعظم آتے جاتے رہے ہیں جن میں درآمدی وزیراعظم بھی مملکتِ خداداد کے مسائل میں حصہ بقدر جثہ کہیں پیچھے نہیں رہے۔ کالم کی اشاعت تک اگر نگران وزیراعظم کا نام فائنل ہو گیا تو وہ پاکستان کے آٹھویں نگران وزیراعظم کی حیثیت سے امورِ مملکت سنبھال لیں گے۔ نگران وزیراعظم کا تعلق کوئے سیاست سے ہو یا امورِ معاشیات سے‘ جوڈیشری سے ہو یا کسی اور شعبہ سے‘ نام اور شعبے سے قطعی کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ راج نیتی میں اکثر نام بڑے اور درشن چھوٹے پائے گئے ہیں‘ لیکن مملکتِ خداداد کو اس مقام پر پہنچایا ہے کہ کوئی نام بڑا رہا نہ کسی کا کام‘ محض درشن سے تو کام چلایا ہی جا رہا ہے۔ اس برق رفتاری سے آتے جاتے وزرائے اعظم میں کچھ تو کئی باریاں بھی لگا چکے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے پانچ پانچ مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کی موجیں لوٹیں جبکہ بلاشرکتِ غیرے صدر مملکت کے عہدے کی بہاریں آصف علی زرداری برابر لوٹتے رہے ہیں۔ ہر آنے والا حکمران ماضی کے مقابلے میں نہلے پہ دہلا اور بدترین طرزِ حکمرانی کے سبھی ریکارڈ ریکارڈ مدت میں توڑتا چلا آیا ہے۔ مزید تبصرے اور تفصیل میں جانے سے کہیں بہتر ہے کہ فیض احمد فیض کے اس مصرعے کو کالم میں شامل کر لیا جائے۔ اس کے بعد آئے جو عذاب آئے۔
آج کل ہر خاص و عام کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ اندر کی خبر کیا ہے؟ میرا سبھی کو ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ خبر جو بھی ہو وہ بُری خبر کے سوال کچھ نہیں ہو سکتی۔ گویا‘ہر آنے والی خبر بُری ہی ثابت ہوئی ہے۔ ان بُری خبروں کی درجہ بندی کریں تو کچھ یوں ہو سکتی ہے‘ بری خبر‘ اس سے برُی خبر‘ بہت ہی برُی خبر‘ سب سے بُری خبر وغیرہ وغیرہ۔ مملکتِ خداداد میں بُری خبروں کو اکٹھا کیا جائے تو درجنوں کتابیں ان بُری خبروں کو سمو نہ پائیں گی۔ بالخصوص راج نیتی سے جڑی ہر خبر جھوٹی اور مزید بُری ثابت ہوتی ہے۔ وضاحت کے لیے ایک لطیفہ بطور استعارہ پیش خدمت ہے: باپ گھر میں داخل ہوا تو بیٹا بھاگ کر پاس آیا اور بولا: ابا میرے پاس آپ کے لیے دو خبریں ہیں‘ ایک اچھی اور ایک بُری۔ باپ نے تجسس سے کہا بیٹا پہلے اچھی خبر سناؤ۔ بیٹے نے جواب دیا: میں ہائی فرسٹ ڈویژن سے پاس ہوگیا ہوں۔ باپ نے خوش ہو کر سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا :چلو اب بُری خبر سنا دو۔ جس پر بیٹے نے چالاکی سے جواب دیا:پہلی خبر جھوٹی ہے‘‘۔ گزشتہ پون صدی سے حکمرانوں کی طرف سے آنے والی ہر اچھی خبر جھوٹی ہی ثابت ہوتی چلی آئی ہے۔ پہلی خبر جب تک جھوٹی ثابت ہوتی رہے گی‘ اس کے بعد آنے والی ہر خبر برُی اور بہت برُی خبر ہی ہوگی۔ ایسے حالات میں ان برُی اور جھوٹی خبروں کا کوئی انت بھی دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا‘ تاہم درشنی حکمرانوں پر گزارا جاری رہے گا۔
ان حکمرانوں کا نام کوئی بھی ہو‘ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو‘ سیاسی اتحاد کے بوتے پر حکمرانی ملی ہو یا اطاعت گزاری پر‘ بلاشرکتِ غیرے حکمران ہوں یا مجبوریوں میں بندھے ہوئے سبھی کی حکمرانی کے اثراتِ بد ملک کے کونے کونے میں دیکھے اور برابر محسوس کیے جارہے ہیں۔ انہیں اپنے ہی دعوؤں اور وعدوں کی نفی ڈھٹائی سے کرتے دیکھتے اکثر سوچتا ہوں کہ انہیں زبان و قول کی حرمت کا پاس تو درکنار اپنے منصب اور مرتبے کا بھی خیال نہیں رہا۔ وطنِ عزیز میں راج نیتی کا یہ اعجاز ہے کہ خوب کو ناخوب اور ناخوب کو خوب بنتے ذرا دیر نہیں لگتی۔ ایوان سے زندان اور زندان سے ایوان کا سفر اس طرح چٹکیوں میں طے ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کرنا محال ہے کہ ان کا مسکن زندان ہونا چاہیے یا ایوان۔ پہاڑ جیسے رنگین اور سنگین الزامات کا بوجھ اُٹھائے اقتدار کی باریاں لگائے ہوئے ہیں۔ ان سبھی کے ہاتھ اور دامن بھی صاف ہیں اور ملکی خزانہ بھی صاف ہے۔ کال کوٹھریوں سے مسندِ اقتدار پر یوں آن بیٹھتے ہیں کہ جزا اور سزا سے لے کر مکافاتِ عمل کے معانی ہی اُلٹا ڈالے گویا:
اپیل بھی تم‘ دلیل بھی تم
گواہ بھی تم‘ وکیل بھی تم
جسے بھی چاہو حرام کہہ دو
جسے بھی چاہو حلال کر دو
مملکتِ خداداد میں لگے تماشے کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ خطہ ضرورت مندوں کا دیس ہے۔ سڑکوں اور چوراہوں پر کھڑے بھکاریوں سے لیکر ایوانِ اقتدار میں بیٹھے اونچے شملے والے سبھی ضرورت مند پائے گئے ہیں۔ قیمتی پوشاکوں‘ وسیع و عریض محلات اور بیش قیمت لگژری موٹر کاروں میں سستے چھوٹے اور ضرورتمند ہی گھسے ہوتے ہیں۔ ان ضرورتوں کے ماروں کے نہ کوئی نظریات ہیں اور نہ اخلاقیات۔ وسیع تر اختیارات کا مالک ہو یا رُعب دبدبے والا‘ کسی کو منصب کی طلب ہے تو کسی کو اپنے مطلب سے غرض ہے۔ کوئی اپنا آج داؤ پہ لگا کر کل سنوار رہا ہے تو کوئی پندار بیچ کر دنیا سنوارنے میں مگن ہے۔ کوئی غیرت پر ضرورت کو فوقیت دے رہا ہے تو کوئی اپنی ضرورتوں سے عاجز کسی در پر تابعداری کے نام پر تذلیل آدمیت برداشت کر رہا ہے۔ اہداف کا حصول ہی مقصدِ حیات ہو تو اصول ضابطے اور قانون بے معانی ہو جاتے ہیں۔ ان سبھی لکیروں کو پھلانگ کر راج نیتی کے بازیگروں نے تو آئین کو بھی بے بس اور سرنگوں کر ڈالا ہے۔
قارئین! وطن عزیز میں جاری کھلواڑ پر قلم آرائی اعصاب اور نفسیات کو آزمائش سے دوچار کرنے کے علاوہ دل و دماغ کا کام تمام کرنے کے ساتھ ساتھ نجانے کیسے کیسے عذابوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں موضوع سے بھٹک جانے کا تاثر کہیں نظر آئے تو خاکسار معذرت کا طلبگار ہے لیکن نوحہ تو نوحہ ہی ہوتا ہے‘ حالات کے ذمہ داروں کا ہو یا ملک بھر میں پھیلے بھیانک مناظر کا‘ عوام کی حالتِ زار کا ہو یا راج نیتی کے ان راجاؤں کی لوٹ مار کا‘ سرکاری بابوؤں کی سہولت کاری کا ہو یا میرٹ اور گورننس کی درگت کا‘ سبھی کے تانے بانے بُننے اور ڈوریاں ہلانے والے کل بھی وہی تھے آج بھی وہی ہیں۔ اس لیے آوارہ خیالی کے دوران کہیں دور نکل جانے کو بھٹکنے سے ہرگز منسوب نہ کیا جائے۔ چلتے چلتے پھر باور کروا دوں کہ نگران وزیراعظم کے نام کے بجائے اس دوسری خبر کا انتظار کریں جو پہلی خبر کو جھوٹا اور بُرا ثابت کرنے جارہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں