نگران وزیراعظم کا معاملہ تاحال کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ چشمِ فلک نے ابھی نجانے کتنے ایسے تماشے دیکھنے ہیں۔ نگران وزیراعظم کے لیے راجہ ریاض سے جمعرات کے روز ہونے والی وزیراعظم شہباز شریف کی مشاورتی ملاقات بے نتیجہ ختم ہو گئی اور کسی نام پر اتفاقِ رائے نہ ہو سکا۔گزشتہ روز صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کو 12 اگست تک نگران وزیراعظم کا نام دینے کے لیے خط لکھا ہے ‘ اب دیکھیں کب تک نگران وزیراعظم کا تقرر ہو پاتا ہے۔راجہ ریاض کو سابق وزیراعظم کا احسان مند اور مشکور تو ضرور ہونا چاہیے‘ تحریک انصاف اسمبلیاں چھوڑ کر نہ بھاگتی تو راجہ صاحب اپوزیشن لیڈر کیسے بنتے۔ اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد چیئرمین نیب کی تقرری سے لے کر دیگر اہم فیصلوں سمیت دھڑا دھڑ قانون سازی جیسے اہم ترین مراحل بھی راجہ صاحب کی معاونت کے بغیر کہاں ممکن تھے۔ چیئرمین تحریک انصاف کی افتادِ طبع کو ہی کریڈٹ جاتا ہے کہ:
کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے
ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے
نگران وزیراعظم کے لیے صادق سنجرانی کا نام بوجوہ تجویز کرنے والے بھی راجہ ریاض ہی ہیں۔ نگران وزیراعظم کے لیے ایک ریٹائرڈ سفارتکار کا نام چند روز زیرِگردش رہنے کے بعد شاید زیر غور آہی چکا ہے۔ ویسے بھی ان مشاورتی ملاقاتوں کا کوئی نتیجہ نکل بھی آتا تو زیادہ سے زیادہ کیا نکلتا۔ ان ضرورتوں کے ماروں کی ملاقاتیں بھی اہداف اور ایجنڈوں کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ جب ایجنڈے اور اہداف کہیں فٹ بیٹھ جائیں گے‘ ملاقاتیں بھی نتیجہ خیز نکلیں گی اور اتفاقِ رائے بھی ہو جائے گا۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ نگران وزیراعظم کے نام میں کچھ نہیں رکھا‘ کوئی بھی کہیں سے بھی آجائے‘ اس کے نام سے کہیں زیادہ دراصل وہ کام اہمیت کا حامل ہے جس مقصد کے لیے اسے لایا جا رہا ہے اور راجہ صاحب اس خوش فہمی میں ہیں کہ فیصلہ ان کی مشاورت اور اتفاقِ رائے سے مشروط ہے۔ یہ مشاورتی ملاقاتیں اور اتفاقِ رائے کے لیے جاری مذاکرات سبھی نمائشی اور بس دکھاوا ہی ہیں۔ اصل فیصلے اور نامزدگی سے ان سبھی کا کیا لینا دینا‘ یہ تو بس مشترکہ اعلامیہ میں اس نام کا اعلان اس طرح کریں گے جیسے بڑے غور و خوض کے بعد مملکتِ خدا داد کے عین مفاد میں وہ مردِ مجاہد ڈھونڈ لائے ہیں جو ان کٹھن حالات میں ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کا اہل ہے۔ یہی ہماری راج نیتی ہے اور یہی اس راج نیتی کا حسن ہے۔
دوسری طرف خیبرپختونخوا میں سبھی نگران وزرا نے اپنے استعفے پیش کر دیے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا میں سیاسی پس منظر رکھنے والے وزرا کو فارغ کرکے غیر سیاسی سیٹ اَپ لانے کی ہدایت کی تھی۔ الیکشن کمیشن کے تحفظات پر نگران وزیراعلیٰ نے سیاسی پس منظر رکھنے والے سبھی وزرا فارغ کر ڈالے۔ کاش! الیکشن کمیشن ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بھی نگران سیٹ اَپ پر تحفظات کا اظہار کر سکتا جو بظاہر سیاسی پس منظر تو نہیں رکھتا لیکن اقدامات اور فیصلے سیاسی پلس ہیں۔ کاش! الیکشن کمیشن آئینی مدت پوری ہونے کے بعد دونوں صوبوں کی حکومتوں کا آئینی اور اخلاقی جواز بھی فراہم کر سکتا۔ ذاتی ایجنڈوں اور مفادات میں بندھے ہوئے مصاحبین کابینہ کا حصہ ہیں۔ کاش الیکشن کمیشن اس صوبے میں بھی گورننس اور میرٹ کی درگت پر تحفظات کا اظہار کر سکتا‘ بے انتہا تقرریوں اور تبادلوں کے جواز بھی طلب کر سکتا۔ مینڈیٹ اور اختیارات کے قطعی برعکس مالی و انتظامی اختیارات کا بے دریغ استعمال بھی نظر آجاتا۔
پنجاب کا نگران سیٹ اَپ غیرسیاسی ہونے کے باوجود جن ایجنڈوں اور اہداف کے تحت چل رہا ہے‘ اس میں نیت اور ارادوں سے لے کر دلوں کے بھید بھاؤ بھی برابر کھلتے جا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں سمیت دیگر سرکاری اداروں کے انتظامی بورڈز میں بندہ پروری اور اقربا پروری ہی میرٹ بن چکی ہے۔ الیکشن کمیشن کو خیبرپختونخوا میں سیاسی پس منظر رکھنے والے تو نظر آگئے لیکن پنجاب میں ذاتی ایجنڈے رکھنے والے نظر نہ آئے۔ تاہم نگران سرکار نے اسحاق ڈار کے ویژن سے استفادہ کرتے ہوئے ایک ایسی ایپ کا آغاز کیا ہے جس کے تحت درگاہوں اور مزاروں پر نذر نیاز اور نذرانوں سے لے کر پکی پکائی دیگیں بھی آن لائن دی جا سکیں گی۔ محکمہ اوقاف کے زیر انتظام چلنے والے مزاروں اور درگاہوں پر یہ ایپ بیرونِ ممالک بیٹھے عقیدت مندوں کے لیے بھی ایک بڑی سہولت ہوگی۔ سرکار کے زیر انتظام درباروں اور درگاہوں پر اکٹھے ہونے والے نذرانے اور خطیر مالی عطیات کی آمدن اور اخراجات پر پہلے ہی کئی سوالات جواب سے محروم ہیں۔ حساب دینے سے قاصر یہ لوگ آن لائن آنے والی بھاری رقومات کا حساب کیونکر دے سکیں گے۔ درباروں اور درگاہوں پر آنے والی سوغاتیں ہوں یا خوراک اور دیگر اجناس‘ سبھی کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ان کی تقسیم کیسے کی جاتی ہے۔ اگر اس بارے میں لکھنا چاہوں تو کئی کالم بھی ناکافی ہیں۔ ایسے ایسے پردہ نشینوں کے نام سامنے آچکے ہیں جو بے پردہ ہونے کے باوجود بھی نازاں اور اترائے پھرتے ہیں۔
دور کی کوڑی لانے والے تو برملا کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار جلا وطنی کے دوران وطن سے دور بیٹھ کر معیشت کے استحکام اور عام آدمی کی حالت سدھارنے کے لیے بے چین رہنے کے ساتھ ساتھ دیارِ غیر میں عقیدت مندوں کے لیے سہولتوں کے فقدان پر بھی پریشان رہے۔ ایسے معاشی سقراطوں کے لیے تو پورا ملک ہی پکی پکائی دیگ ہے۔ کاش! کوئی ایسی ایپ بھی ایجاد ہو جو اس اکثریتی مخلوق کے لیے بھی پیٹ کی آگ بجھانے کا انتظام کر سکے جو درباروں اور درگاہوں پر جاکر لنگر اکٹھا نہیں کر سکتی۔ کسی ایسی ایپ کا آغاز بھی کریں کہ بھوکا بھی رجوع کر سکے کہ میں کئی روز سے بھوکا ہوں اور کام نہ ملنے کی وجہ سے میرے گھر کا چولہا کئی روز سے ٹھنڈا پڑا ہے۔ کوئی ایسی ایپ بھی ہو جس پر خلقِ خدا یہ دہائی دے سکے کہ میری آمدن کا بڑا حصہ بجلی کے بل کی ادائیگی میں صرف ہو چکا ہے‘ اب باقی ماندہ رقم میں پورا مہینہ کیسے گزار پاؤں گا۔ کوئی ایپ ایسی بھی ہو کہ صارف یہ شکایت کر سکے کہ فلاں دکاندار نے مجھ سے پیسے پورے لیے ہیں لیکن مجھے سودا کم اور غیر معیاری دیا ہے۔ کاش! کوئی ایپ ایسی بھی ہوتی جو مظلوم کی پکار سن سکتی کہ دنیاوی قانون میری داد رسی سے قاصر اور انصاف دینے سے گریزاں ہے۔ کاش! کسی ایسی ایپ کا آغاز بھی کرتے جو علاج کے لیے مارے مارے پھرنے والوں کے دکھوں کا مداوا کر سکتی۔
ایسے میں نیلسن منڈیلا کا ایک قول بے اختیار یاد آرہا ہے کہ ''غربت کا خاتمہ خیرات سے نہیں‘ انصاف سے کیا جا سکتا ہے‘‘۔ جہاں عوام کو لنگر اور خیرات کی لت لگانے والے حکمران ہوں وہاں سمجھ لینا چاہیے کہ انصاف ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ نہ وسائل کی تقسیم منصفانہ ہے اور نہ ہی مواقع خاص و عام کے لیے یکساں ہیں۔ جب عوام بنیادی ضروریات سے محروم ہوتے چلے جائیں تو سمجھ لیں کہ ان کے حصے کا رزق اور وسائل اس مخصوص طبقے نے یرغمال بنا رکھے ہیں جسے ہم اشرافیہ کہتے ہیں۔ جہاں عوام مرنے کے بعد قبروں میں محفوظ نہ ہوں وہاں نذرانے اور دیگیں ہی گورننس بن جاتی ہیں۔