ملک کی باگ ڈور نگرانوں نے سنبھال لی ہے۔ دو صوبوں پر پہلے ہی نگرانوں کا راج ہے۔ اب وفاق اور سندھ میں بھی اقتدار نگرانوں کے ہاتھ میں آ چکا ہے۔ گمان غالب ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کے بعد اقتدار کادوسرا دروازہ ایوانِ صدر میں کھلنے والا ہے اور صدرِ مملکت عارف علوی کی رخصتی کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی قائم مقام صدر کے طور پر اس دروازے سے ایوانِ صدر میں داخل ہو سکتے ہیں۔ تحلیل ہونے والی قومی اسمبلی کے قائد حزبِ اختلاف راجہ ریاض سے کیسے کیسے کام لیے جا سکتے ہیں۔ راجہ صاحب کو عمران خان کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے راجہ صاحب کے لیے پورا میدان خالی چھوڑ دیا۔ اپوزیشن لیڈر کے طور پر جس طرح انہوں نے حکمران اتحاد کی سہولت کاری اور تابعداری کی ہے‘ وہ پارلیمانی تاریخ کا ایسا دور ہے جس کا ریکارڈ کوئی راجہ ریاض پَلس ہی توڑ پائے گا۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی نامزدگی کو راجہ ریاض سے منسوب کرنے والے دانشوروں اور سیاسی پنڈتوں کو خبر ہونی چاہیے کہ اپوزیشن لیڈر راجہ صاحب کا کام تو بس مہرِ تصدیق ثبت کرنا تھا‘ اتنا اہم فیصلہ تو وزیراعظم کے اختیار اور بس کی بات بھی نہ تھی‘ تاہم راجہ صاحب پر شبہ کرنا قطعی غیر منطقی بات ہے۔ البتہ راجہ صاحب کو اس خوش فہمی میں ضرور رہنے دیا جانا چاہیے کہ ملک کے نگران وزیراعظم کا نام انہوں نے تجویز کیا اور وزیراعظم نے بلا چوں چرا اس نام پر اتفاق کر لیا۔ تجویز اور اتفاق کے اس کڑے مرحلے سے گزرنے کے بعد دونوں فریق بغلیں جھانک رہے ہیں۔ فیصلہ تو ہنر مندانِ سیاست و ریاست نے کرنا تھا‘ سو کر ڈالا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
سابق وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے چند قریبی سعادت مندوں کے ناموں کو مارکیٹ کی نذر کرنے کی کوشش کی تو ایسا ردِعمل آیا کہ امید وار خود حیران اور پریشان ہو کر رہ گئے کہ آخر ایسا ردِ عمل کیونکر آیا؟ ایسے میں وزیراعظم ان کے لیے لابنگ اور اقتدار تک ان کی راہ کیسے ہموار کر پاتے۔ بالخصوص اسحاق ڈار اور فواد حسن فواد جیسے نام سامنے آنے پر ایک لطیفہ بے اختیار یاد آگیا۔ کلاس میں ٹیچر نے ایک بچے سے سوال کیا کہ پانچ ایسے جانوروں کے نام بتاؤ جو پانی میں رہتے ہیں تو بچے نے فرفر جواب دیا کہ مچھلی‘ مچھلی کے پاپا‘ مچھلی کی ماما‘ مچھلی کی پھپھو اور مچھلی کی خالہ۔ اس تناظر میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے زیادہ سے زیادہ اور کیا نام آسکتے تھے۔ اقتدار اور وسائل کا بٹوارا ہو یا کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ‘ یہ خاندان سے باہر نہیں جاتے۔ کوئی امر مانع ہو تب کہیں جاکر سعادت مندوں اور سہولت کاروں کو باری دینے کا رِسک لیتے ہیں۔ تاہم ان کی تدبیریں اور ترکیبیں اُلٹی پڑنے کی اطلاعات بھی عام اور گردش میں ہیں۔ اطلاعات کے ساتھ ساتھ یہ خود بھی گردش میں آسکتے ہیں۔
اگلا مرحلہ کابینہ کی تشکیل کا ہے جس میں مزید مغالطے اور خوش فہمیاں بھی دور ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ حکمران اتحاد کی لوٹ کر واپس آنے کی سبھی پیش بندیاں اور جگاڑ بے سود اور رائیگاں ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم ہنرمندانِ سیاست کو ایک تجویز پیشِ خدمت ہے کہ کابینہ میں سبھی یک رنگی پھول اکٹھے کرنے کے بجائے رنگ برنگے پھولوں کا انتخاب بہتر نتائج فراہم کر سکتا ہے۔ حالیہ اسمبلی میں سبھی یک رنگی پھولوں کے مقابلے میں واحد سائرہ بانو کا رنگ قطعی منفرد اور ممتاز رہا۔ ان کا ایک ایک جملہ اور اندازِ تخاطب حکمرانوں کے لیے آئینہ اور وائٹ پیپر سے کم نہیں رہا۔ جس بے ساختگی اور برجستگی کے ساتھ وہ طرزِ حکمرانی اور عوام کی پریشان حالی پر حکومتی بنچوں کے لتے لیتی رہیں‘ اس کا ایک آرکائیو بنا کر وائرل کیا جانا چاہیے۔ اس تمہید کا مقصد سائرہ بانو کی لابنگ یا مارکیٹنگ ہرگز نہیں ہے‘ میرا ان سے کوئی تعلق ہے نہ لینا دینا لیکن انتہائی درد مندی سے ملک و قوم کو درپیش چیلنجز کی نشاندہی کرنے والی صنفِ آہن کی آواز اگر نگران کابینہ میں شامل ہو جائے تو کم از کم جگائے رکھنے کا کام تو جاری رہے گا۔ باقی گلشن کا کاروبار تو چلتا ہی رہا ہے اور چلتا ہی رہے گا۔
76ویں یومِ آزادی پر پنجاب کی نگران حکومت نے قوم کو ''بڑی خبر‘‘ دی ہے کہ ملکی سمت درست ہوگئی ہے جلد مثبت تبدیلی نظر آئے گی۔ نگران حکومت نے اتنی بڑی خبر اتنی سادگی اور آسانی سے دے ڈالی۔ یہ تو حکمرانوں کی بڑائی اور کسرِنفسی ہے ورنہ ایسی خبریں جاری کرنے کے لیے تو حکمران سلسلہ وار تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں اور قوم کو باور کرواتے ہیں کہ ان کے حکمران کس قدر قابل اور وِژنری ہیں۔ میڈیا پر بھی اس خبر کو مطلوبہ پذیرائی اور اہمیت نہ ملنے پر حیران ہوں کہ نگران سرکار نے وہ کام کر دکھایا جو گزشتہ 76برسوں میں کوئی حکمران نہ کر سکا۔ نگران سرکار کی طرف سے سمت کے تعین سے جڑی دیگر تفصیلات جاننے کے لیے قوم یقینا بے تاب ہے۔ ملکی سمت درست ہونے کی خبر یقینا قومی بریک تھرُو ہے لیکن حکومت نے سمت کے رُخ کا ذکر نہیں کیا۔ اگر مملکتِ خداداد کی سمت کا تعین ہو چکا ہے تو خدارا قوم کو اُس سمت کے بارے میں بھی ضرور بتا دیں ورنہ نامعلوم سمت کی طرف تو ہم کب سے رواں دواں ہیں۔ یہ امر بھی بجا طور پر باعثِ فخر ہے کہ ملکی سمت کی درستی کا آغاز بھی پنجاب سے ہوا ہے۔ گویا پنجاب نے سب سے بڑے صوبے کی حیثیت سے بڑا بھائی ہونے کا حق ادا کر ڈالا‘ تاہم وفاق اور باقی صوبوں کو بھی چاہیے کہ اپنی اپنی سمت درست کرنے کے لیے پنجاب کی نگران حکومت سے نسخہ کی کاپی ضرور حاصل کر لیں۔
نگران صوبائی حکومت نے منشیات کے استعمال میں اضافے کو اَلارمنگ قرار دیتے ہوئے ڈرگ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا ہے۔ لاہور پولیس کے سربراہ ذاتی طور پر اس کریک ڈاؤن کو نہ صرف لیڈ کر رہے ہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر فیلڈ افسران سے باز پرس اور رپورٹ بھی لے رہے ہیں۔ ماضی میں یہ سبھی کارروائیاں زبانی کلامی اور نمائشی ثابت ہوتی رہی ہیں۔ بالخصوص تعلیمی اداروں میں بچے اور بچیاں جس تیزی سے اس لت میں لت پت ہو رہے ہیں اس کا بخوبی اندازہ ہونے کے باوجود کسی نے اس اَلمیے کی سنگینی اور نزاکت کا احساس نہیں کیا۔ خیال رہے کہ نشہ کرنے اور منشیات بیچنے والوں پر وسائل اور توانائیاں ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ برائی کی اس ماں کو پکڑا بھی جائے جو ہماری نسلیں برباد کیے چلے جا رہی ہے۔ اس ٹاسک کی تکمیل کے لیے سائرہ بانو کی اس تقریر سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے جس کے کلپ سوشل میڈیا پر عام اور وائرل ہیں۔ انہوں نے برملا کہا تھا کہ وزیراعظم کے ایک معاونِ خصوصی ایک سیاسی مخالف کا نام لے لے کر الزام لگایا کرتے تھے کہ وہ مبینہ طور پرصوبائی دارالحکومت کے پوش علاقوں میں واقع ریسٹورنٹس اور تعلیمی اداروں سمیت جانے کہاں کہاں مہلک اور مضرِ صحت نشہ سپلائی کرتا ہے۔ اس کارِ خیر میں نگران سرکار اگر واقعی سنجیدہ ہے تو سبھی کردار زندہ اور موجود ہیں۔ آن کیمرہ الزام لگانے والے بھی اور الزام الیہ بھی‘ مزید توثیق اور حوالے کے لیے پارلیمنٹ میں اس کی تقریر کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ باقی: ؎ جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔