پولیٹکل انجینئرنگ کی ناختم ہونے والی بدعت نے ہمارے سسٹم کو مفلوج اور ناکارہ بنا ڈالا ہے۔ ضرورت مندوں نے نظریۂ ضرورت کو ہر دور میں اس طرح مستقل نظریہ بنائے رکھا کہ حال اور اب تو مستقبل بھی غیر محفوظ کر ڈالا ہے۔ خوب کو ناخوب اور ناخوب کو خوب بنانے کا عمل بھی جاری ہے اور گدھوں کو لکیریں لگا کر زبیرے بنانے کا کارخانہ برابر چل رہا ہے۔ اگر کچھ نہیں چل رہا تو عوام کا گزارا نہیں چل رہا۔ غیریقینی کی گہری کھائیاں اور نااُمیدی کے سائے اتنے طویل ہو چکے ہیں کہ اچھے اچھے بونے دکھائی دیتے ہیں۔ حالاتِ پریشاں کا ماتم اس طرح جا بجا جاری ہے کہ پوری قوم ہی سینہ کوبی کرتی نظر آرہی ہے۔ عجیب سی قید ہے کہ زنجیر بھی نظر نہیں آرہی اور حالات کا جبر بھی ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ہر طرف اُداسی کا غلبہ اور مایوسی کے ڈیرے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک کمسن بچے کی موت کی خبر نے تو فضا سوگوار کر ڈالی ہے۔ موت کی طرف بڑھتے ہوئے اُس معصوم کے قدموں کی چاپ گونج بن کر سنائی دے رہی تھی لیکن اس پر کان دھرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ لمحہ لمحہ‘ دھیرے دھیرے‘ ریزہ ریزہ اور ڈھیر ہونے کے مناظر آئے روز سوشل میڈیا پر کہرام برپا کرتے رہے لیکن ضمانتیں اور ریلیف تو صرف سیاسی و انتظامی اشرافیہ کا استحقاق ہے۔ مرض کی شدت اور مہلک اثرات اپنی جگہ‘ کچھ لمس اور آغوش کسی اکسیر سے کم نہیں ہوتے۔ شفا کے ساتھ ساتھ وہ ننھا فرشتہ اُس سکون کا بھی متلاشی تھا جو دواؤں میں نہیں ملتا لیکن وہ اس سکون سے محروم اور دور ہی رہا۔ جنازوں پر پھول تو سبھی نے دیکھے ہوں گے لیکن پھول کا جنازہ دیکھنے کی تاب بھی جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس کی روح بھی یقینا عرشِ معلی پر پہلے سے سراپا احتجاج روحوں میں شامل ہو کر بارگاہِ الٰہی میں فریاد کرتی ہو گی۔ اس موضوع پر مزید اظہارِ خیال سے احتیاط ہی بہتر ہے کہ جہاں الفاظ قلم کا ساتھ دینے سے قاصر اور اعصاب و نفسیات شل ہو جائیں وہاں ایسے معاملات وقت اور حالات پہ چھوڑ دینے چاہئیں کیونکہ وقت کا فیصلہ ہی دراصل قدرت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ لیکن نجانے کیوں اکثر اوقات کچھ وہم اور اندیشے اس طرح جکڑ لیتے ہیں کہ ایمان اور عقیدے بھی ڈگمگا جاتے ہیں۔
کئی دہائیوں سے ملک میں اُدھم مچانے والوں کو مکافاتِ عمل کی پکڑ سے باہر اور دور دیکھ کر مزید وسوسے گھیر لیتے ہیں۔ جب بھی ان پر اعمال کی کھیتی کاٹنے کا وقت آیا یہ نئی فصل بو کر صاف بچتے ہی چلے آئے ہیں۔ کس کس کا نام لوں‘ سیاسی اشرافیہ ہو یا انتظامی‘ حکمران خود ہوں یا ان کے سر چڑھے سرکاری بابو اور سہولت کار بزنس مین‘ سب کو سبھی جانتے ہیں۔ ان تینوں طبقوں کا گٹھ جوڑ مملکتِ خداداد کی چولیں ہلانے کے ساتھ ساتھ اخلاقی و سماجی اقدار بھی تار تار کر چکا ہے۔ قانون اور ضابطے تو پہلے ہی ان کے گھروں کی باندیاں ہیں۔ ایک دوسرے کی ضرورت اور مجبوری بن کر کھیلنے والے یہ سبھی ضرورت مند اس طرح ضرورتوں کی دلالی کرتے ہیں کہ آئین اور قانون سے لے کر ضابطے اور اخلاقیات سے ماورا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
باریاں لگا کر کھیلنے والا یہ گٹھ جوڑ سسٹم کے جوڑوں میں بیٹھ گیا ہے اور اب یہ عالم ہے کہ سسٹم بھی اب چلائے نہیں چل رہا‘ جگاڑ اور دھکے لگانے کے باوجود ساری انجینئرنگ دھری کی دھری رہ گئی ہے۔ کل پرزوں سے لے کر مہروں اور پیادوں تک سبھی مسلسل بے نقاب ہوتے چلے آرہے ہیں لیکن لبادے پہ لبادہ اوڑھ کر نت نئے روپ بہروپ دھارے پھر کھلا دھوکہ دینے آجاتے ہیں۔ عام شہری اگر شناخت پریڈ میں دھر لیا جائے تو اس کی سماجی و ذاتی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے لیکن یہ سبھی کیسی کیسی وارداتوں اور جرائم میں شناخت ہونے کے باوجود آج بھی راج نیتی کے کھیل میں اس طرح برابر شامل ہیں کہ شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کا مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آنے والی وفاقی و صوبائی نگران سرکاریں ان سبھی کے سہولت کاروں کو کہیں حصہ بقدرِ جثہ تو کہیں جثے سے بھی کہیں زیادہ حصہ دے کر شریکِ اقتدار کیے ہوئے ہیں۔ نگران سرکار میں ان کی شمولیت وسوسوں‘ اندیشوں اور خدشات کو آئے روز بڑھاوا دے رہی ہیں۔
یا خدایا! ان سبھی سے ملک و قوم کے مفادات اور غیرجانبدار فیصلوں کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے۔ رنگے ہاتھوں کے ساتھ یہ قلمدانوں سے مزید کیا کیا رنگ بکھیریں گے‘ اس کا اندازہ تو بس واقفانِ حال ہی کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی نیب ترامیم کالعدم ہونے کے بعد ان سبھی کی نت نئی بیماریوں کے دن قریب آرہے ہیں جو اقتدار میں ہوں تو بھلے چنگے اور غیر ملکی دوروں پہ دورے کیے چلے جاتے ہیں‘ حالتِ نازک تو درکنار انہیں بخار بھی نہیں چڑھتا لیکن اقتدار سے محروم ہوتے ہی یہ کئی طرح کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہاتھوں میں لاٹھی پکڑے اور وہیل چیئرز پر عدالتوں سے طبّی بنیادوں پر ریلیف مانگتے پھرتے ہیں۔ اقتدار نگرانوں کو سونپنے سے پہلے ان کی صحت اور فٹنس کا اندازہ بھاگ دوڑ کے ساتھ ساتھ شعلہ بیانیوں اور بھاشنوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے لیکن اقتدار سے جڑی انرجی سے محروم ہونے کے بعد یہ سبھی رنگ برنگی بیماریاں اور طبی عذر لیے ضمانتیں اور ریلیف طلب کرتے نظر آئیں گے۔ انہیں دائمی صحت کی دعا دینے سے بھی دِل ڈرتا ہے کہ ان کی صحت تو اقتدار سے مشروط ہے۔ اگر یہ تندرست اور توانا رہے تو اقتدار سے چمٹے رہیں گے۔ ملک و قوم کو تو ان کی صحت بھی اسی لیے وارا نہیں کھاتی کہ جب تک یہ صحت مند رہتے ہیں عوام کی حالت خستہ اور پتلی ہی رہتی ہے۔
حکمران مردوں کو زندہ کرنے کا کرشمہ تو نہیں کر سکتا لیکن وہ ایسا مسیحا ضرور بن سکتا ہے جس کا ہاتھ عوام کے مسائل اور مصائب کی نبض پر ہو اور یہ بھی بخوبی جانتا ہو کہ ان دکھوں کا مداوا کیونکر ممکن ہے۔ اس ہنر سے ناواقف حکمران‘ حکمرانی کے آداب اور ترجیحات سے بھی ناواقف ہوتا ہے۔ اقتدار کو رب کی عطا کے بجائے اپنی ہی کسی ادا کا کرشمہ سمجھ بیٹھنے والے غفلت اور بھول کا شکار ہیں کہ مسلسل خطاؤں کے باوجود عطا کا برقرار رہنا کرم اور مہلت کا استعارہ ہے‘ تاہم مردوں کو زندہ کرنے کا اعجاز بھلے نہ ہو لیکن یہ خیال ضرور ہونا چاہیے کہ ان کے فیصلوں اور اقدامات سے کوئی ناحق نہ مارا جائے۔ یہاں تو ناحق مارے جانے والوں کے ساتھ ساتھ روز زندہ درگور ہونے والوں کی بھی المناک داستانیں صبح و شام رقم ہو رہی ہیں۔ملک میں روز افزوں مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام بچوں سمیت خودکشیوں پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ان کے لیے کم ترین معاشی سکت کے ساتھ مہنگائی کے اس طوفان کا سامنا کرنے کے بجائے موت کو گلے لگانا شاید زیادہ آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب آئے روز خودکشیوں کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ اربابِ اختیار کو چاہیے کہ عوام کے ان ابتر حالات کی طرف بھی توجہ مرکوز کریں۔ وہ غریب عوام کو کم از کم اس قابل تو بنا دیں کہ وہ اپنی دو وقت کی روٹی پوری کر سکیں۔ نگران حکومت اس بہانے کے پیچھے نہیں چھپ سکتی کہ وہ تو عبوری اختیارات کی مالک ہے‘ اس وقت جو اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں‘ عوام کے مسائل کا تدارک انہی کی ذمہ داری ہے جن سے انہیں احسن انداز میں عہدہ برا ہونا چاہیے۔