جب حالاتِ پریشان کا کوئی انت نہ ہو تو قلم آرائی کے لیے مسائل اور مصائب کے انبار سے موضوعات کا انتخاب ایک دشوار مرحلہ ہے۔ راج نیتی اور طرزِ حکمرانی سے لے کر عوام کو درپیش عذابوں تک کس کس پر بات کریں‘ جہاں ملکی خزانے اور عوام کا مستقبل لوٹنے والوں کو عدالتی سزاؤں کے باوجود ماورائے عدالت ریلیف اور آسانیاں فراہم کر کے بیرون ملک بھجوانے کا رواج عام ہو وہاں عوام اور ان کے مسائل حکومتی ترجیحات میں کیونکر شامل ہو سکتے ہیں؟ ملک میں عجیب سماں ہے۔ عام انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے‘ حلقہ بندیوں پر کام جاری ہے‘ اعلان تو مئی میں انتخابات کروانے کا بھی ہوا تھا لیکن آئینی مدت گزرنے کے باوجود الیکشن کمیشن اپنے ہی جاری کردہ شیڈول کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کروانے سے قاصر رہا جبکہ انتخابات کی آڑ میں تقرریوں اور تبادلوں کی منڈی گرم رہی۔ دیکھنا یہ ہے کہ جنوری میں انتخابات کروانے کا اعلان محض اعلان ہی رہتا ہے یا واقعی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔
اگر انتخابات ہو بھی گئے تو اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کے نئے ایڈیشن کے سوا اور کیا ہوگا؟ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ مسائل کا حل نہ ماضی کے انتخابات سے نکلا اور نہ ہی آئندہ ایسا ہوتا نظر آرہا ہے۔ خدا جانے کہ ہنرمندانِ سیاست مشقِ ستم کیوں دہرانے جا رہے ہیں؟ ان انتخابی چیمپئنز سے ماضی کے ان سبھی انتخابات کا حساب تو لیں جن کے یہ بینیفشری رہے ہیں۔ جو سیاسی جماعت چار مرتبہ وزارتِ عظمیٰ اور آٹھ مرتبہ صوبے پر وزارتِ اعلیٰ کے شوق ِحکمرانی پورے کرچکی وہ اب بھی نئے دعوؤں اور وعدوں کے درمیان ہی بھٹک رہی ہے۔ میاں نواز شریف آئیں گے یا نہیں آئیں گے یہ بحث نجانے کیوں روز بروز زور پکڑتی جا رہی ہے۔ انہوں نے یہاں رہتے ہوئے کیا کارنامہ انجام دے لیا تھا جو اَب آکر دوبارہ انجام دیں گے۔ شوقِ اقتدار کے مارے تو سیکرٹ ایکٹ اور قومی مفادات کے تقاضوں کو بھی فراموش کرتے چلے آئے ہیں۔ بینظیر حکومت کے خلاف تحریک نجات کے دوران موصوف نے ٹرین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے جوش خطابت میں یہ بھی کہہ ڈالا تھا کہ بینظیر بھٹو جھوٹ بولتی ہیں۔مگر ہمارے پاس ایٹم بم موجود ہے۔ جوش میں ہوش گنوانے کا خمیازہ ملک قوم کو یوں بھگتنا پڑا کہ پریسلرز ترامیم کے نتیجے میں ادائیگی کے باوجود ہمارے ایف سولہ طیاروں کی فراہمی روکنے کے علاوہ کڑی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حب الوطنی اور غیرتِ قومی جیسے الفاظ اقتدار اور مفادات کے سامنے ہمیشہ گم سم ہی پائے گئے۔ نواز شریف آجائیں گے‘ چھا جائیں گے‘ یہ ایک نعرے سے زیادہ کیا ہے؟
ہر دور میں حالاتِ پریشاں میں کئی گنا اضافہ کرنے والے کس ڈھٹائی سے خرابی اور بربادی کا ذمہ دار سابقہ ادوار کو ٹھہراتے ہیں۔ قیدی نمبر804 کے بارے میں بھی ان کے سبھی مفروضے اور دور کی کوڑیاں دھری کی دھری رہ گئی ہیں۔ کانوں کا کچا ہونے کے باوجود وہ دھن کا پکا نکلا۔ دورانِ اسیری نہ اس کے پلیٹ لیٹس گرے‘ نہ ہاتھوں پر رعشہ طاری ہوا‘ نہ دل گھبرایا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی جس مقام پر آج کھڑی ہے اس میں زرداری صاحب کی پندرہ سالہ طرزِ سیاست کا بہت عمل دخل ہے۔ مفاہمت کی سیاست اور بادشاہ گری جیسی صفات در اصل ضرورتوں اور مفادات پر سودے بازی ہی ثابت ہو رہی ہے۔ اُصولی مؤقف اور سیاسی بصیرت جوں جوں پارٹی کی ترجیحات سے باہر ہوتی رہی توں توں پارٹی کا مورال اور پذیرائی بکھرتی اور ریزہ ریزہ ہوتی رہی۔ اب یہ عالم ہے کہ مفاہمت کے بادشاہ اپنے سارے مہروں اور پیادوں سے لے کر سبھی چالوں کو مزید چلانے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔ جنہیں وہ اپنا بندہ کہا کرتے تھے وہ اپنی غرض کا بندہ نکلا۔ ون مین آرمی کے طورپر پیپلز پارٹی کو چلانے والے آصف علی زرداری کو اب اپنے فیصلوں اور ایجنڈوں کی وہ قیمت بھی چکانی پڑ سکتی ہے جس کا مداوا شاید تادیر ممکن نہ ہو۔ جوڑ توڑ اور جگاڑ سے پارٹیاں چلتی ہیں نہ ضرورتوں کی سودے بازی سے۔ ہتھیلی پر سرسوں جمانے والے کیا جانیں کہ سیاسی بصیرت کس چڑیا کا نام ہے۔ معاملہ فہمی اور دور اندیشی سے گریزاں وقتی فائدے اور ذاتی مفادات کو سیاست کے طور پر کب تک کرتے رہیں گے۔ بلاول بھٹو کو یقینا احساس ہو چلا ہے کہ پندرہ سالوں سے پارٹی کو جس ڈگر پر چلایا جارہا ہے وہ ان کی والدہ محترمہ کی پارٹی ہرگز نہیں! پارٹی میں مسلسل ''پارٹی‘‘ کرنے والے چند مخصوص چہرے پارٹی کے نام پر کیسے کیسے چاند چڑھائے چلے جا رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے افکار اور بینظیر بھٹو کے ویژن کے برعکس چلائی جانے والی پارٹی جگاڑ کی پالیسی اپنائے حصہ بقدر جثہ پر کس طرح راضی اور نازاں ہے۔ ملک گیر پارٹی سکڑتے سکڑتے کس طرح ایک صوبے تک محدود ہو کر رہ گئی‘ جہاں راج نیتی کے عوض ہر قسم کی سہولت کاری اور سودے بازی کے آپشن ہر وقت کھلے ہیں۔ اس کی قیمت بھلے پارٹی کو چکانا پڑے یا ملک کو کون پروا کرتا ہے؟ بلاول بھٹو پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ بحیثیت والد وہ آصف علی زرداری کا پورا احترام کرتے ہیں لیکن پارٹی معاملات میں وہ اپنا راستہ خود لیں گے۔
شہباز شریف کو قائدِ حزب اختلاف بنانے کا کریڈٹ خورشید علی شاہ کو دینے پر بلاول نے کمال جواب دے کر سارا پرچہ ہی آؤٹ کر ڈالا ہے کہ اگر خورشید شاہ نے شہباز شریف کو قائدِ حزبِ اختلاف بنوایا تھا تو آپ نے وزیراعظم بنا کر دم لیا۔ سیاسی خسارے کا اندازہ تو صرف سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا سیاستدان ہی کر سکتا ہے۔ حادثاتی اور ذاتی طور پر سیاستدان بننے والے تومالی جمع خرچ پر ہی لگے ہوئے ہیں انہیں تو بس مالی خسارے سے ہی ڈر لگتا ہے کہیں وہ نہ ہو جائے۔ مالی فائدے کے لیے تو وہ پورے ملک کو خسارے سے دوچار کرتے چلے آئے ہیں۔ سیاست میں لمحۂ موجود ہی سب کچھ ہوتا ہے‘ وقت گزرنے کے بعد صرف پچھتاوے اور قصے کہانیاں رہ جاتے ہیں۔محترمہ بینظیر بھٹو نے مشکل سیاسی حالات اور کڑے چیلنجز کا احساس ہوتے ہی یہ جان لیا تھا کہ ان کی والدہ نصرت بھٹو پارٹی معاملات چلانے کے علاوہ دور رَس نتائج پر مبنی فیصلوں کے ساتھ ساتھ دیگر اہم امور عصری تقاضوں کے مطابق نہیں چلا پا رہیں تو انہوں نے پارٹی معاملات خود سنبھال لیے۔ اس تناظر میں تاریخ شاید پیپلز پارٹی کو اسی مقام پر لے آئی ہے کہ پارٹی معاملات ایک بار پھر اگلی نسل کو منتقل کر کے درپیش چیلنجز سے نمٹا اور ماضی کے فیصلوں کا مداوا کیا جا سکتا ہے۔
چہرے کی تبدیلی کے ساتھ ہی دیگر تبدیلیاں اور فیصلے قبولیت اور پذیرائی پاسکتے ہیں‘ ورنہ ایک بار پھر ضرورتوں کی دلالی اور سودے بازی کے لیے لاہور میں ڈیرے تو لگ ہی چکے ہیں۔ معاملات طے کرنے اور سدھارنے کے لیے ایک بار پھر ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں‘ مگر زیادہ سے زیادہ کیا طے کر پائیں گے؟ اپنی جھولی بھر بھی لی تو پارٹی کی جھولی مزید خالی کر آئیں گے۔ یہ خدشہ بھی برابر موجود ہے کہ اس بار جھولی میں کہیں چھید ہی نہ ہو جائیں۔ بلاول بھٹو ہوشیار باش! ''Kingship knows no kinship‘‘۔