جب من مانی ہی طرزِ حکمرانی بن جائے تو کرتے دھرتے بے نقاب ہونے کے باوجود اترائے ہوئے اور نازاں پھرتے ہیں۔ مفادات اور پوائنٹ سکورنگ میں لتھڑے فیصلوں اور اقدامات کو گورننس ثابت کرنے والے نجانے کس گمان میں ہیں‘ پورا سچ جانتے بوجھتے بھی کس طرح انجان بن کر قانون اور ضابطوں سمیت عوام کی آنکھوں میں برابر دھول جھونکتے چلے جا رہے ہیں۔ دھرتی ماں پر ایسے اُدھم اور قہر کا سماں ہے کہ بے کس اور لاچار عوام پر زمینی ہی تنگ کر ڈالی ہے۔ میگا کرپشن کیسز کھلنے کے باوجود سبھی سیاستدانوں کی قسمت کے دروازے بھی بدستور کھلے ہوئے ہیں۔ ان کے کیسز کھلتے اور بند ہوتے چلے آرہے ہیں۔ کوئی شعبدے بازی ہے یا کوئی کرشمہ کہ ان کی قسمت کے نت نئے دروازے آئے روز کھل جاتے ہیں لیکن عوام کی قسمت کا دروازے مستقل بند ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی واپسی سے صرف آئین شکن ہی پریشان ہیں۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا‘کہ اس واپسی پر تو آئین حیران بھی ہے اور پریشان بھی۔ بے وقعت اور بے معانی ہونے کا احساس آئین کو نجانے کب سے گم سم اور مسلسل شرمسار کیے ہوئے ہے۔ دھرتی ماں بھی سراپا احتجاج ہو گی کہ اس کے سینے پر مونگ دلنے والوں نے کیسا حشر برپا کر رکھا ہے کہ ملک و قوم کا حشر نشر رُکنے میں نہیں آرہا۔ آئین بھی وہی ہے‘ قانون اور ضابطوں کی کتابیں بھی وہی ہیں لیکن ہر دور میں اس کا استعمال اور تشریح اس طرح بدل دی جاتی ہے کہ اس کے معانی اور مفہوم یکسر اُلٹ دکھائی دیتے ہیں۔ برسرِ اقتدار طبقے کے لیے آئین اور قوانین کچھ اور ہیں اور زیرِ عتاب اور اقتدار سے نکالے ہوؤں کے لیے کچھ اور۔ ویسے تو ملک بھر میں نگران انتظامیہ نے ماضی کی بدعتوں کو دوام بخشنے کے سوا کوئی ایسی توپ نہیں چلائی جسے کسی چوراہے پر نصب کر کے ستائشی تختی سجا دی جائے لیکن پنجاب کی عبوری انتظامیہ نے تو ماضی کی شعبدہ بازیوں سمیت گورننس کے معانی اُلٹانے کے سبھی ریکارڈ دنوں میں توڑ ڈالے ہیں۔ عثمان بزدار کو کورونا ویکسین کی تیاری کا جھانسہ دینے والے آج کی نگران انتظامیہ کو بھی گھمائے جا رہے ہیں۔
غیرمعیاری انجکشن سے مریضوں کی بینائی ضائع ہونے کے واقعات پر حکومتی بجلیاں اُن افسران پر گرا دی گئیں جو قطعی غیرمتعلقہ ہیں اور اس سانحے کے بالکل ذمہ دار نہیں۔ وزیر موصوف ہوں یا ہر دور میں آنکھ کا تارا بنے سرکاری بابو‘ پرانے حساب اور سکور برابر کرنے کا ایسا سنہری موقع ضائع کرنے کو کفرانِ نعمت سمجھنے والے یہ سبھی افراد نگران انتظامیہ کو مسلسل گمراہ کرنے اور اس سے ایسے فیصلے کروانے کے مسلسل مرتکب ہو رہے ہیں جو سبکی‘ جگ ہنسائی اور بدنامی کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے وزیروں اور سرکاری بابوؤں کا تو کچھ نہیں بگڑتا‘ سبھی کو سب جانتے ہیں۔ ان کے ماضی سے لے کر ان کا ظاہری اور پوشیدہ کردار کس سے چھپا ہے؟ نگران حکومت ان کے نرغے سے نکل کر اگر اصل حقائق جاننا چاہے تو مریضوں کی بینائی کے ضیاع کا معمہ منٹوں میں حل ہو سکتا ہے۔ماہرین کے مطابق آنکھوں کی سوجن کے مریضوں کی بینائی متاثر کرنے والا انجکشن ایک بین الاقوامی کمپنی کی طرف سے تیار کردہ اینٹی کینسر دوا ہے جس کو دو سے آٹھ ڈگری سینٹی گریڈ پر رکھا جاتا ہے۔ یہ انجکشن مریضوں کے لے صرف ہسپتالوں بالخصوص کینسر انسٹیٹیوٹشنز کو ہی سپلائی کیا جاتا ہے۔ میڈیکل سٹوروں پر اس کی خرید و فروخت نہیں ہوتی۔ خدا جانے کس مسیحا نے اس اینٹی کینسر انجکشن کو امراضِ چشم کے لیے جگاڑ بنا ڈالا۔ یاد رہے کہ اس انجکشن سے بینائی بھی زیادہ تر انہی مریضوں کی ضائع ہوئی ہے جو ذیابیطس کے پرانے مریض تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کینسر کی دوا کا تجربہ ان مریضوں پر کس سٹڈی اور ریسرچ کے تحت کیا جا رہا ہے؟ اس تناظر میں ساری ذمہ داری ان ہسپتالوں اور کلینکس پر عائد ہوتی ہے جو یہ جرم کرتے رہے اور جن کا ریگولیٹر ادارہ ہیلتھ کیئر کمیشن ہے۔ ایک اور خوفناک انکشاف بھی کرتا چلوں کہ انجکشن کی بڑی وائل سے سینکڑوں سرنجوں میں اس دوا کی خوراک بھر بھر کر دور دراز علاقوں اور شہروں میں سپلائی بھی عام ہے جبکہ مطلوبہ درجہ حرارت سے باہر یہ انجکشن صرف دو گھنٹے ہی اپنا اثر برقرار رکھ سکتا ہے۔ کئی کئی گھنٹوں کی مسافت پر واقع شہروں میں پہنچتے پہنچتے ناصرف اس کی تاثیر ختم ہو جاتی ہے بلکہ یہ مریض کی صحت کے لیے بھی مہلک اثرات کا باعث بنتا ہے۔ اس غیرانسانی اور غیرقانونی پریکٹس میں ملوث ہسپتالوں اور مسیحاؤں کی خبر لینے کے بجائے الٹا نگران انتظامیہ کو ڈی ٹریک کرکے سرکاری توپوں کا رُخ اس شعبے کی طرف کر ڈالا گیا جس کی کوئی ذمہ داری ہے اور نہ عمل دخل۔ ڈرگ انسپکٹرز ادویات کی خرید و فروخت اور سٹوریج کی نگرانی اور کوالٹی کا ذمہ دار ہے۔ ہسپتالوں اور پرائیویٹ کلینکس میں واقع میڈیکل سٹوروں کی اکثریت غیر لائسنس یافتہ ہے۔ انہیں چلانے والے صاحبان کے لمبے ہاتھ ہمیشہ ان کے کلینکس میں ادویات کے سٹاک کو کوالٹی اور جانچ پڑتال سے محفوظ رکھنے کے لیے ڈھال ہی بنی رہی ہے۔ ڈرگ کنٹرولراور ہیلتھ کیئر کمیشن کا ادارہ ہو یا بلڈ ٹرانسفیوژن سمیت دیگر ریگولیٹر‘ کس کی مجال کہ وہ انتظامی و سیاسی اشرافیہ تک رسائی رکھنے والے مسیحاؤں کی Un-Ethical پریکٹس کے خلاف کارروائی کا سوچ بھی سکے۔ انجکشن کی بڑی وائل سے حاصل ہونے والی خوراکیں پورے انجکشن کی قیمت سے 500گنا زیادہ آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ ان سبھی دھندوں اور ایجنڈوں سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود موصوف نجانے کیوں عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔
سرکار کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ سرکاری ہسپتالوں میں اہم ترین تشخیصی ٹیسٹ سی ٹی سکین کے دوران لگنے والے انجکشن بھی ہسپتالوں میں ناپید ہیں اور مریض مارکیٹ سے کئی کئی گنا سے زائد قیمت ادا کرکے بلیک میں خریدنے پر مجبور ہیں۔ جعلی ادویات کے ری ایکشن سے مریضوں کی بینائی ضائع ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اندھی کمائی کے لیے عوام کو اندھا کرنے کا دھندا دیدہ دلیری اور زور و شور سے برابر جاری ہے۔ شاید یہ شور حکمرانوں کی سماعتوں میں موسیقی بن کر سنائی دیتا ہے۔ اس عالی الدماغ مسیحا کو تو کسی سرکاری اعزاز سے نوازا جانا چاہیے جو کینسر کی دوائی کو آنکھوں کے امراض میں استعمال کرکے مریضوں کی روشن دنیا اندھیری کرنے کا موجد اور ذمہ دار ہے۔
انجکشن بنانے والی بین الاقوامی کمپنی نہ صرف تشویش کا شکار ہے کہ اپنے دھندوں اور ایجنڈوں کی تکمیل میں اس کمپنی کی ساکھ اور شہرت کو بھی داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔ یہ کمپنی سرطان زدہ مسیحائی کے آگے بے بس ہے کہ کینسر سے بچاؤ کی دوا تو بنا سکتی ہے لیکن اس مائنڈ سیٹ سے بچنے کی کوئی دوا نہیں۔ یہ سبھی حالات بین الاقوامی سطح پر بدنامی اور تھُو تھُو کے علاوہ مملکتِ خداداد میں بسنے والوں کے لیے خطرہ اور دھڑکا بنتے چلے جا رہے ہیں۔ نجانے کب کوئی اپنی دنیا سنوارنے کے لیے مریضوں کو موت کی نیند سلا ڈالے۔ جہاں ریگولیٹر بے بس اور گم سم ہوں وہاں سہولت کاریاں اور ضرورتوں کی دلالی رواج بن جاتی ہے۔ مل کر کھیلنے اور کھانے والے کب کسی قانون اور ضابطے کو مانتے ہیں۔ راج نیتی تک رسائی رکھنے والے جب راج نیتی کا حصہ بن جائیں تو کس کو کیا پروا کہ بیماروں پہ کیا گزری ہے۔ سرکار کو تو بس قربانی کے بکرے چاہیے ہوتے ہیں اور اصل ذمہ داروں کو بچانے کے لیے یہ بکرے سرکاری ملازمین کی صورت میں ہر سرکار کو ہر دور میں دستیاب رہتے ہیں۔