"AAC" (space) message & send to 7575

جھانسے اور دلاسے دیے رکھو!

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلے کے بعد ملک بھر میں عجب سماں ہے۔ خدا جانے سب کچھ جانتے بوجھتے اور ماضی کی بدعتوں اور روایات کے تسلسل کے باوجود دور کی کوڑیاں بھی لائی جا رہی ہیں اور دانشوریاں بھی برابر بگھاری جا رہی ہیں۔ نظام کے آسیب سے بخوبی واقف افراد کس طرح میاں نواز شریف کی وطن واپسی اور مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ عدالتی فیصلے‘ کتابوں میں درج قوانین اور آئین کی دستاویزات کب اُس آسیب کا کچھ بگاڑ سکی ہیں جو روزِ اوّل سے ہمارے نظام میں پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ آئینی دستاویزات اور قوانین کی کتابوں کو مستقل غیرمتعلقہ رکھنے کا سبب بننے والے سبھی عوامل منہ چڑاتے چلے آئے ہیں۔ جہاں آئین اور قانون کو نظریۂ ضرورت کے تحت خاموش اور توڑا مروڑا جا رہا ہو وہاں عدالتی فیصلوں کی دھار سے بچنے کے لیے انہیں کوئی نہ کوئی ڈھال میسر آتی ہی رہی ہے۔ ان کی نظام میں لگائی ہوئی پنیریاں آج تناور درختوں کی صورت میں خاصی تعداد میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کے لیے راہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ سازگار حالات پیدا کرنے میں بھی مگن ہیں۔
میاں نواز شریف کی واپسی اور ملکی سیاست میں آئندہ کردار کے حوالے سے کوئی پیش گوئی کرنے سے قبل مملکتِ خداداد میں ماضی کے سبھی ادوار پر نظر ڈالیں تو نہ صرف مکافاتِ عمل کے تصورات دھندلا جاتے ہیں بلکہ جزا و سزا کے نظام پر یقین اور ایمان بھی لڑکھڑاتا محسوس ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف کے بیرونِ ملک جانے سے لے کر متوقع واپسی تک‘ سبھی سرگرمیاں اور عوامل آج بھی قانونی جواز سے محروم ہیں۔ سیاستدان جب چاہے بیرونِ ملک چلے جائیں اور جب چاہیں واپس چلے آئیں‘ عدالتی سزائیں اور قانونی تقاضے ان کے راستے میں کبھی رکاوٹ نہیں بنتے۔ البتہ یہ معمہ حل طلب ہے کہ جب وہ ملک میں ہوتے ہیں تو ہسپتالوں میں زیر علاج رہتے ہیں‘ ان کی حالت نازک ہوتی ہے‘انہیں جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں لیکن سات سمندر پار مطلوبہ مقام پر پہنچتے ہی تندرست و توانا ہو جاتے ہیں اور وہاں کی سڑکوں پر کبھی چہل قدمی کرتے تو کبھی دوڑتے بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔ انٹر نیٹ پر وائرل ہونے والی تصاویر اور وڈیوز میں دیارِ غیر کے ریستورانوں میں من پسند پکوانوں سے لطف اندوز ہوتے بھی برابر دِکھائی دیتے رہے۔
میاں نواز شریف وطن واپسی کے لیے لندن سے اڑان بھر کر سعودی عرب جا پہنچے ہیں‘ ایک آدھ متوقع مقام پر پڑاؤ کے بعد 21اکتوبر کو ارضِ پاک پر لینڈ کرنے کا پلان تاحال فائنل ہے۔ بظاہر بازی پلٹتی نظر آرہی ہے۔ 2018ء کے فیصلوں کی ریورس انجینئرنگ کا عمل بھی حرکت میں آچکا ہے اور ناخوب کے خوب ہونے کے اشارے بھی واضح طور پر ملنا شروع ہو چکے ہیں۔ استقبال کی تیاریوں میں ظاہرو پوشیدہ انتظامی مشینری بھاگی پھر رہی ہے۔ یہ بازی ان کی بازی ہے‘ ہمیشہ کی طرح وہی جیتیں گے۔ وہ مقبولیت سے بے نیاز‘ قبولیت کے زعم میں مبتلا ہو کر پاکستان تو آرہے ہیں لیکن خدا جانے راج نیتی کا یہ کھیل کیا رنگ لائے گا؟ مقبولیت کے بکھرے ہوئے رنگ عوام میں جابجا نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اور عوام ان رنگوں سے اب تو ہولی بھی کھیل رہے ہیں۔ چند روز قبل صوبائی دارالحکومت میں ایک سیاستدان کی سواری کو عوام نے نہ صرف گھیر لیا تھا بلکہ مذمتی نعرے بازی کے علاوہ انہیں گاڑی سے باہر نکلنے پر بھی مجبور کرتے رہے لیکن وہ صاحب شاید اس لیے احتیاطً باہر نہ نکلے کہ سڑک پر بکھرے مقبولیت کے رنگ کہیں اُنہیں نہ رنگ دیں۔ جوابی کارروائی کے طور پر تقریباً سو کے قریب معلوم اور نامعلوم افراد پر اس غلطی کے ارتکاب کے جرم میں مقدمہ تو درج کر لیا گیا ہے لیکن اس واقعے کے اسباب اور وجوہات پر غور وخوض کی زحمت تاحال گوارا نہیں کی گئی۔ عین ممکن ہے کہ عوام کا جمِ غفیر اس سیاستدان کو وہ زخم دِکھانے آیا ہو جس کا مرہم ان کے قائد بیرونِ ملک سے لے کر وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔
چند روز قبل ہی یہ خوشخبری دی گئی تھی کہ میاں نواز شریف انتقام لینے نہیں بلکہ زخموں کا مرہم لے کر پاکستان آرہے ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) کے وہ رہنما اپنی گاڑی سے باہر نکل آتے تو مقبولیت کے رنگوں میں رنگے جانے کے علاوہ وہ عوام کو لگے ان زخموں کا بھی معائنہ کر لیتے جو ان کی جماعت کے طرزِ حکمرانی کے نتیجے میں کئی دہائیوں سے عوام کو لگتے چلے آرہے ہیں اور اب تو یہ زخم ناسور بھی بن چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو چاہیے کہ وہ اپنے قائد کو یہ ضرور اپ ڈیٹ کر دے کہ وہ زخموں کے مرہم کے بجائے ناسور کا مرہم لے کر آئیں کیونکہ جو مرہم وہ لے کر آرہے ہیں اس سے کم از کم یہ زخم تو ہرگز مندمل ہونے والے نہیں ہیں۔ اکثر زخم خراب ہوتے ہوتے ناقابلِ علاج اور اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ پی ڈی ایم حکومت کا حالیہ ڈیڑھ سالہ دورِ اقتدار‘ جس میں مسلم لیگ (ن) سب سے زیادہ حصہ دار تھی‘ بھی ان کی شفا کا وسیلہ نہ بن سکا۔ ممکن ہے کہ اب یہ پالیسی اپنائی جا رہی ہو کہ ناسور میں بدلتے عوام کے ان زخموں کا مرہم تو ہمارے پاس ہے نہیں لیکن انہیں تب تک جھانسہ اور دلاسہ دیے رکھو جب تک انہیں نئے زخم نہ لگ جائیں۔ یہی ان کا علاج ہے اور اسی میں ان کی شفا پوشیدہ ہے کیونکہ نئے زخموں کی شدتِ درد اور تڑپ انہیں پرانے زخم بھلا ڈالے گی۔ جوں جوں نئے زخموں کی تکلیف سے یہ بے حال ہوتے چلے جائیں گے توں توں پرانے زخموں کو بھولتے چلے جائیں گے۔ یہی مشقِ ستم تو ہر دورِ اقتدار میں دوہرائی جاتی رہی ہے۔ عوام نئے زخم لگتے ہی پرانے زخم بھول کر نئے زخموں کا واویلا شروع کر دیتے ہیں۔ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی عادی ہو چکے ہیں‘ حکمران زخم لگانے کے اور عوام زخم لگوا کر گھائل ہونے کے‘ جب عوام کو اپنا کوئی خیال نہیں ہے تو حکمرانوں کو ان کی کیا پڑی ہے۔ اس لیے: تجھ کو پرائی کیا پڑی‘ اپنی نبیڑ تُو۔مسلم لیگ (ن)کی رہنما اب میاں نواز شریف کی واپسی تک خواہ مخواہ کی نیتا گیری اورعوامی جلسوں سے گریز کی پالیسی پر گامزن ہیں کیونکہ میاں نواز شریف کا تجربہ ان سب سے بہت زیادہ ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے عوام میں بھی رنگ بدلنے کی بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ اس لیے مجمع بپھر جائے تو سنبھالے نہیں سنبھلتا اور تماشا الگ لگتا ہے اور سوشل میڈیا پر گھات لگائے بیٹھوں کو تو بس موقع چاہیے ہوتا ہے‘ اسی لیے احتیاط میں ہی بچت ہے۔(ن)لیگ کے رہنمائوں کی ذرا سی بے احتیاطی سے بنا بنایا کھیل بگڑ سکتا ہے۔
چلتے چلتے ایک سوال کا ذکر بھی کرتا چلوں جو جواب سے محروم چلا آرہا ہے کہ میاں نواز شریف عدالتی سزا کے بعد بیماری کے باعث لندن جا بسے اور دیے گئے ریلیف اور مہلت کے مطابق وطن واپس آکر قانون پسند ہونے کا مظاہرہ بھی نہیں کیا‘ مسلسل طلبیوں کے باوجود غیرحاضر اور سزاؤں سے محفوظ ہی رہے۔ پارلیمنٹ کی طرف سے نااہلی کی سزا پانچ سال منظور ہونے کے بعد وہ نااہلی کے چنگل سے نکل گئے لیکن ان کے حصے کی وہ سزا کون کاٹے گا جو وہ لندن کی پُرتعیش رہائشگاہوں میں گزار چکے ہیں۔ نااہلی کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسیری کے ایام بھی تو بھگتنا تھے۔ اس حوالے سے قانون پر عمل درآمد کروانے والے ادارے ہوں یا ہنرمندانِ ریاست‘ وہی بہتر رہنمائی فرما سکتے ہیں۔ عدالتی فیصلوں میں سزا کے حقدار ٹھہرائے جانے والے افراد اپنی سزائیں بھگتیں یا نہ بھگتیں‘ عوام تو سبھی عذابوں کو بھگتنے کے لیے باقی اور میسر ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں