اخبارات کے پلندے سے منہ چڑاتی خبروں کا عذاب ایک طرف‘ اس پر غزہ سے آنے والی المناک خبریں روز ہی دل کا کام تمام کر ڈالتی ہیں۔ ہسپتالوں‘ سکولوں اور رہائشی عمارتوں پر باقاعدگی سے وحشیانہ بمباری کرنے والوں نے تو قبرستان بھی نہیں چھوڑے۔ جابجا لاشوں کے انبار کی تدفین جہاں پہلے ہی کڑا اور دشوار مرحلہ ہو وہاں شہرِ خاموشاں کو تہس نہس کرنے کے علاوہ گورکنوں کو بھی نشانے پر لیا جا رہا ہے جبکہ اسلامی ممالک کی طرف سے زبانی مذمت اور سفیر واپس بلانے کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ لیکن مٹھی بھر یہودی پونے دوارب سے زائد آبادی پر مشتمل 50سے زائد اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی کسی مذمت اور احتجاج کوخاطر میں لانے کو ہرگز تیارنہیں۔ اس بے بسی اور بے توقیری کی وجوہات اور اسباب کو دہرانے کے بجائے بارگاہِ الٰہی میں فریاد ہی کی جاسکتی ہے۔ طبیعت اداس اور مغموم کر دینے والی خبریں تادیر اس طرح جکڑے رہتی ہیں کہ کالم سمیت سبھی معمولات درہم برہم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ خیالات منتشر ہونے کے سبب کبھی کالم کا دھارا کہیں سے کہیں جا نکلتا ہے تو کبھی دن بھر کے معمولات تاخیر اور بے ترتیبی کا باعث بن جاتے ہیں۔ آگہی‘ اعصاب اور نفسیات پر کسی ڈراؤن حملے سے ہرگز کم نہیں۔
اب چلتے ہیں ان منہ چڑاتی خبروں کی طرف جو حالاتِ پریشاں کو مزید بڑھاوا دینے کے سبھی سگنل اور اشارے دئیے چلے جا رہی ہیں۔ عام انتخابات کا اعلان تو ہو چکا ہے لیکن ان انتخابات کے نتائج سے کسی بہتری کی توقع وابستہ کرنا ایک اور خودفریبی کا باعث ہوگی۔ کئی دہائیوں سے اقتدار کی باریاں لگانے والے ابھی تک منشور منشور ہی کھیل رہے ہیں۔ زرداری صاحب فرماتے ہیں کہ بہترین منشور کے ساتھ انتخابی میدان میں اُتریں گے جبکہ مسلم لیگ(ن) کی منشور کمیٹی نے قوم کو خوشخبری دی ہے کہ اس بار منشور روایتی نہیں ہوگا۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ منشور روایتی ہو یا غیر روایتی اس سے عوام کو کیا فرق پڑتا ہے۔ جہاں آئین اور قانون کی کتابوں کی کوئی حیثیت باقی نہ رہ جائے تو منشور کی کیا وقعت ہوگی۔ البتہ غیر روایتی طرزِ حکمرانی کی بات کرتے تو شاید یہ بیان کچھ توجہ کو باعث بھی ہوتا۔ کاغذوں میں درج منشور نے محض دستاویز ہی بن کر رہنا ہے تو کیا روایتی اور کیا غیر روایتی۔ خدا جانے زرداری صاحب کون سا بہترین منشور لے کر انتخابی میدان میں اترنے لگے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے انتخابی نعرے'' روٹی‘ کپڑا اور مکان‘‘ کا حشر نشر کچھ اس طرح پہلے ہی ہو چکا ہے کہ آج اکثریت آبادی کے پاس رہنے کو چھت ہے نہ تن ڈھانپنے کو کپڑا اور روٹیوں کے لالے تو ویسے ہی ان کے نصیبوں میں لکھے جا چکے ہیں۔ جہاں ریاست اور سیاست سے مال بنانے اور دن سنوارنے کی بدعتیں ہر دور میں دوام پکڑتی جائیں وہاں ان سیاسی جماعتوں کے منشور صرف انتخابی دعوے اور جھانسے ہی ثابت ہوتے چلے آئے ہیں۔
ایک بار پھر بساط بچھائی جا رہی ہے‘ مہرے اور چالیں چلی جا رہی ہیں‘ موافق حالات پیدا کرنے کے لیے ناموافق منظر سے ہٹائے جا رہے ہیں‘ مطلوبہ نتائج کے لیے جگاڑ اور تیاریاں جاری ہیں۔ عوام کو ایک اور مرگِ نو سے دوچار کرنے کے لیے وہی مشقِ ستم دہرائی جا رہی ہے جو وہ کئی دہائیوں سے بھگتتے چلے آ رہے ہیں۔ سیاست کو تجارت بنانے والوں نے برسرِ اقتدار آکر کون سا دھندا نہیں کیا۔متوقع صورتحال سے نہ صرف بدستور خائف ہوں بلکہ اپنے اندیشوں اور وسوں کو باور بھی کرواتا چلا آرہا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے‘ کہیں ویسا نہ ہوجائے‘لیکن جب سیاہ بختی ہی مقدر بنتی چلی جائے تو ہونی کو کون روک سکتا ہے۔ حادثات اور سانحات کے ساتھ ساتھ نجانے کیسے کیسے صدمات کی پرورش کرتے چلے آرہے ہیں۔ جب ماضی کے سبھی تجربات سے عبرت کے بجائے ضد پکڑ لی جائے تو کیسی اُمید اور کہاں کی بہتری؟یاد رہے! قومیں غلطیوں سے برباد نہیں ہوتیں بلکہ غلطیوں پر ضداور اصرار سے برباد ہوتی ہیں۔ آج قوم کو پھر اسی ضد اور اصرار کا سامنا ہے۔ ان تحفظات اور خدشات میں گھرے ہوئے ایک حالیہ کالم ''کیا یہی کھیل دوبارہ ہوگا‘‘ کی چند سطریں بطور حوالہ اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہوگئی: ''ہنر مندانِ ریاست و سیاست کو بار بار توجہ دلانے کے علاوہ بارگاہِ الٰہی میں بھی یہی فریاد ہے کہ اس بار یہ ملک اس کھیل کا متحمل نہیں ہوگا جو گزشتہ 75برسوں سے برابر کھیلا جا رہا ہے۔ خدا جانے کوئی آسیب ہے یا نحوست کہ ہر دور میں لمحۂ موجود ماضی کے ادوار کا ایکشن ری پلے ہی لگتا ہے۔ جنہیں ایوان سے زندان میں بھیجا تھا‘ وہ سبھی ایوانوں میں براجمان ہیں اور جنہیں ایوان میں پہنچانے کے لیے کیسے کیسے جتن اور زمین آسمان ایک کر ڈالا گیا‘وہ سارے زیر عتاب اور پسِ زندان آ چکے ہیں۔ خوب کو ناخوب اور ناخوب کو خوب بنانے کا کہیں تو اَنت ہونا چاہیے۔ جنہیں نجات دہندہ بنا کر لایا جاتا ہے پھر انہی سے نجات کے لیے کیسے کیسے جواز اور حربے آزمائے جاتے ہیں۔ بے پناہ چاہنے والے پناہ مانگتے پھرتے ہیں۔ پون صدی کی مسافت کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ گاڑی کا ریورس گیئر اس طرح پھنس چکا ہے کہ آگے جانے کے بجائے مسلسل پیچھے جا رہی ہے اور پشت کی طرف گردن موڑ کر چلانے والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی سمت ٹھیک اور گاڑی آگے جا رہی ہے۔ مسلسل گردن موڑے رکھنے سے اب گردن بھی اسی زاویے پر اس طرح فٹ ہو چکی ہے کہ سبھی اُلٹے اور پرخطر راستے بھی سیدھے دِکھائی دے رہے ہیں اور وہ غلط سمت میں گاڑی دوڑائے چلے جا رہے ہیں۔ جن گدھوں کو لکیریں لگا کر زیبرے بنایا گیا تھا ان میں سے اکثر کی لکیریں مدھم پڑ گئی ہیں یا مٹ گئی ہیں۔ خدا نہ کرے کہ ان کو نئی لکیریں لگا کر دوبارہ زیبرا بنایا جائے۔ اگر لکیریں لگانے کا عمل دہرایا گیا تو ان نقوش کی قیمت آنے والی نسلیں بھی ادا نہیں کر پائیں گی۔ پرانے ایڈونچرز ہوں یا بار بار آزمائے ہوئے چہرے‘ عوام ان سبھی سے عاجز اور بیزار ہیں۔ ایسی جمہوریت سے بھی پناہ مانگتے ہیں جس کا حسن ان کے سبھی خواب گہنانے کے علاوہ حال کا برُا حال اور مستقبل بھی خاکستر کر دے۔‘‘
چلتے چلتے پاکستان استحکام پارٹی کے منشور کا ذکر بھی ہو جائے جس کے بارے میں مرکزی رہنما فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ اُن کا منشور خیرات پر نہیں‘ مراعات پر مبنی ہوگا۔ ماضی کے سبھی تجربات اور ان کے انجام کو دیکھا جائے تو استحکام پارٹی کو آزمانے اور موقع دینے کی گنجائش تو نکل ہی آتی ہے۔ شریکِ اقتدار رہنے کے باوجود اس کی اعلیٰ قیادت میں شامل جہانگیر ترین ہوں یا عبدالعلیم خان دونوں ہی کارِ خیر میں پیش پیش اور سرگرم رہتے ہیں۔ رب کے دیے ہوئے مال سے خلقِ خدا کی بہتری اور فلاح کے لیے دریا دلی کی روایت جوں کی توں جاری ہے۔ اس تناظر میں ان کے منشور میں شامل انتخابی پیکج کا ذکر بھی کرتا چلوں‘تین سو یونٹ تک استعمال کرنے والے صارفین کی بجلی فری اور موٹرسائیکل سواروں کو آدھی قیمت پر پٹرول کی فراہمی کے علاوہ ساڑھے بارہ ایکٹر تک کسانوں کو ٹیوب ویل کے لیے مفت سولر سسٹم دینے کا اعلان بھی انتخابی منشور کا حصہ ہے۔ کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق اور مزدور کی اُجرت کم از کم پچاس ہزار روپے کرنے کا عندیہ بھی انتخابی جلسوں میں برابر دیا جا رہا ہے۔ آزمائے ہوؤں کو بار بار آزمانے کے بجائے انہیں بھی آزما لینا چاہیے جو کہتے ہیں آزمائش شرط ہے۔