کالم کی ابتدا ان بچوں سے جن کی لاشوں کے انبار اور قبروں نے غزہ کو بچوں کا قبرستان بنا ڈالا ہے۔ ریڈ کراس بھی باور کروا چکا ہے کہ غزہ کے بچوں کو ناقابلِ برداشت اور اندوہناک تکالیف کا سامنا ہے لیکن قیامت کا یہ منظر لمحہ بہ لمحہ مزید بھیانک اور ہولناک ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک طرف زخمیوں کے علاج معالجے کے لیے ادویات اور سہولیات ناپید ہیں تو دوسری طرف بے ہوشی کے بغیر آپریشن کے عذاب سے گزرنے والوں کی چیخ و پکار نے فضا کو مزید کرب ناک بنا ڈالا ہے۔ معصوم بچوں اور عورتوں سمیت غزہ کے باسیوں کو دردناک موت سے دوچار کرنے والے مٹھی بھر یہودی نہ کسی عالمی مذمت کو مانتے ہیں نہ کسی احتجاج کو۔ دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہرے بھی اسرائیل کو اس دہشت گردی سے باز رکھنے سے قاصر ہیں۔
دنیا بھر کے مہذب اور امن کے علمبردار ممالک ہوں یا 50سے زائد اسلامی ریاستیں‘ سبھی کی آواز اسرائیل کی بمباری اور وحشیانہ کارروائیوں میں دب کر رہ گئی ہے۔ پونے دو ارب سے زائد مسلمانوں کی پسپائی اور رسوائی کا سبب بننے والے ان کے حکمران اپنی ضرورتوں اور مجبوریوں کے اس طرح غلام بن چکے ہیں کہ وہ صرف لفظی اور نمائشی مذمت اور یکجہتی ہی کر سکتے ہیں۔ کسی کو بادشاہت عزیز ہے تو کوئی شوقِ حکمرانی کے ہاتھوں مجبور ہے۔ تجارتی منڈیوں سے لے کر اقتصادی و دفاعی امور کے ساتھ ساتھ ثقافتی یلغار تک‘ سبھی محاذوں پر محتاج اور دستِ نگر پائے جانے والے اسلامی ممالک فلسطین کے لیے بس دعائیہ کلمات ہی ادا کر رہے ہیں۔ ان کی سفارتکاریاں بھی بس آنیوں جانیوں تک ہی محدود ہیں۔ یہ تو خود آپس میں گتھم گتھا اور انتشار کے ساتھ ساتھ کئی خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان سے امید اور توقع کیونکر کی جا سکتی ہے۔
اے ربِ کعبہ! تجھے تیری شانِ کریمی اور شاہِ مدینہ کا واسطہ! فلسطینیوں پر ڈھائی جانے والی یہ قیامت بس تُو ہی ٹال سکتا ہے۔ تیرے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے‘ تُو پل بھر میں غالب کو مغلوب اور مغلوب کو غالب بنانے پر قادر ہے۔ اے پروردگار! بس تیرا ہی آسرا ہے‘ تُو ہی اسرائیلی غضب اور بربریت کی آگ کو بجھا سکتا ہے۔ فلسطینیوں کے آباؤ اجداد کی غلطیوں اور نافرمانیوں کی سزا کافی نسلیں بھگت چکی ہیں‘ لمحوں کی خطائیں اور کتنی نسلیں بھگتیں گی۔ مسلمان پہلے ہی بہت رسوا اور دھتکارے جا چکے ہیں‘ ان سبھی کی خطاؤں کو درگزر اور معاف فرما۔ چشمِ فلک بھی اس انسانی المیے پر روتے روتے پتھرا چکی ہے‘ اقوامِ عالم کا دہرا معیار اور منافقت فلسطینیوں کو درپیش عذابوں میں مسلسل اضافے کا باعث ہے۔ مسلم اُمہ تو خود اپنی ضرورتوں اور مجبوریوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ اَن دیکھی زنجیروں میں یہ سبھی اس طرح جکڑے جا چکے ہیں کہ ایک دوسرے کی مدد کرنا تو درکنار خود اپنے جوگے بھی نہیں رہے۔ سبھی کی ضرورتیں اور مجبوریاں اس عالمی سامراج سے وابستہ ہیں جو خود اسرائیل کے آگے بے بس اور ضرورتمند ہے۔ ان حالات میں امریکہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں سے ہمدردی اور مدد کی اُمید مزید تباہی اور خود فریبی کا باعث ہے۔ سبھی وسائل اور مہلک ہتھیار صرف مسلمانوں پر ہی آزمائے جاتے رہے ہیں۔ تیری قدرت کے آگے ان کے نیوکلیئر ہتھیاروں اور جدید ترین ٹیکنالوجی سمیت‘ ساری ایجادات حقیر اور ناکارہ ہیں۔ تجھے قبلۂ اول کی حرمت کا واسطہ! کوئی معجزہ کر دکھا۔ جب زمین فلسطینیوں کو تحفظ اور پناہ دینے سے قاصر ہے تُو آسمانوں سے وہ ابابیلیں ہی بھیج دے جو ان سبھی کے غرور اور تکبر سے لے کر جدید ہتھیاروں کو ملیامیٹ کر ڈالیں۔ اے پروردگار! بے شک تو ہی قادر اور مسبب الاسباب ہے۔
غزہ پر ڈھائی جانے والی قیامت اور عذابوں کے نوحے سے نکل کر اب مملکتِ خداداد میں جاری اس سرکس اور تماشے کی طرف چلتے ہیں جسے راج نیتی اور سیاست کا حُسن کہا جاتا ہے۔ اس حُسن کے جلوے کچھ اس طرح غیر متوقع اور سرپرائز کا باعث ہیں جس پر کہیں تشویش تو کہیں دھمال کا سماں ہے۔ زرداری صاحب نے اپنے پتے شو کرتے ہوئے مخالفین کو کھلا پیغام دے ڈالا ہے کہ الیکشن میں کھڑے ہوں تو خوش آمدید کہیں گے تاہم یہ عقدہ آنے والے دنوں میں کھلے گا کہ اشارہ کس کی طرف ہے؟ آیا ماضی کے حلیف‘ حلیف ہی رہتے ہیں یا حریف بن کر ایک دوسرے کو چور‘ ڈاکو اور لٹیرا کہنے کی روایت دہرانے کے علاوہ سڑکوں پر گھسیٹنے کے للکارے بھی ماریں گے۔
دوسری طرف مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ(ن) سے اتحاد اور اگلا وزیراعظم ہونے کا دعویٰ بھی کر ڈالا ہے۔ مولانا نے شاید بلاول بھٹو کے بیان کو کچھ زیادہ ہی سیریس لے لیا ہے‘ جس میں انہوں نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ اگلا وزیراعظم لاہور سے ہرگز نہیں ہوگا۔ بلاول کی بڑھک نے مولانا کو اس گمان میں مبتلا کر ڈالا ہے کہ اگلے وزیراعظم وہی ہوں گے‘ یہ اور بات ہے کہ اگلے وزیراعظم کے انتخاب کے بعد مولانا یہ کہتے پھریں کہ:؎آگیا تھا میرے گمان میں کیا؟ ہماری سیاسی اشرافیہ اپنی باتوں میں آکر اکثر گمراہ ہوتی چلی آئی ہے‘ ناکامی اور نامرادی کے بعد یہی عذر اختیار کرتے ہیں: ؎ اپنی باتوں میں آگیا تھا میں۔
آٹھ فروری کو انتخابات کے اعلان کے بعد ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ن) میں ملاقات اور اتحاد کا فوٹو سیشن ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر بن کے جاگرا ہے۔ انتخابی سرگرمیوں میں تیزی اور ہلچل پیدا کرنے کے لیے مسلم لیگ(ن) بدستور سرگرم ہے جبکہ پیپلز پارٹی تاحال ماضی کے حلیفوں کو آئندہ الیکشن میں حریف کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ حالات بظاہر مسلم لیگ(ن) کے لیے غیر معمولی طور پر موافق اور پُرسکون نظر آرہے ہیں لیکن یہ سکون نجانے مجھے وہ گہرا سکوت کیوں لگ رہا ہے جس کے ٹوٹتے ہی سارا منظر بدل سکتا ہے۔ اس قدر آسانیوں کے ساتھ قانون اور ضابطے الٹانے کے علاوہ سزاؤں کی معافی ہنر مندوں کے لیے وہ گرہ بن سکتی ہے جسے ہزار جتنوں کے بعد بھی کھولنا شاید ممکن نہ ہو۔ قانون اور انصاف کے اوراق پر ایسی مثالیں بھی نقش ہو چکی ہیں جنہیں آنے والے وقتوں میں ڈھال بناکر ریلیف مانگنے والے ان کیسز کو بطور حوالہ پیش کریں گے۔ ہنرمندانِ ریاست کو چاہیے کہ یہ ابہام ضرور دور کر ڈالیں کہ یہ ریلیف پیکیج فقط مخصوص سیاسی اشرافیہ کے لیے ہے یا دیگر بھی اس سے استفادہ حاصل کر سکیں گے۔
چلتے چلتے کچھ احوال وزیراعلیٰ پنجاب کی ان سرگرمیوں کا بھی‘ جن میں وہ صحت اور تعلیم کے شعبوں کو خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ ہسپتالوں کی اَپ گریڈیشن کیساتھ ساتھ سکولوں کی حالتِ زار بھی حکومتی ترجیحات کا منہ چڑا رہی ہے۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے بچوں سے سکولوں کی صفائی کروانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پابندی تو لگا دی ہے لیکن صرف بچوں سے سکولوں کی صفائی پر پابندی لگانے سے کام نہیں چلے گا۔ اصل پابندی اس ہاتھ کی صفائی پر لگانا پڑے گی جو ہر دور میں کئی اضافوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ نگران سرکار میں بھی ہاتھ کی صفائی کو نصب العین بنانے والے برابر ہاتھ صاف کیے جا رہے ہیں لیکن کوئی قربت کے زعم میں مبتلا ہے تو کسی کو رسائی کا خمار ہے۔ تمکنت کے مارے سر چڑھے سرکاری بابو وہ سبھی گل کھلا رہے ہیں جو ماضی کے ادوار میں کھلاتے چلے آئے ہیں۔ حلقہ بگوشوں اور عرض گزاروں کے جھرمٹ میں شامل اکثر مصاحبین بھی ہاتھ کی صفائی میں پیش پیش ہیں... جو چاہے تیرا حُسنِ کرشمہ ساز کرے۔