موضوعات کے انبار سے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس کس کا نوحہ کریں‘ کس کس کو روئیں۔ کہیں انسانی المیہ ہے تو کہیں سیاسی اور انتظامی اودھم مچا ہوا ہے۔ کہیں من مانی ہی طرزِ حکمرانی بن چکی ہے تو کہیں آئین اور قانون گم سم۔کہیں ضابطے حیران اور پریشاں ہیں تو کہیں اخلاقی و سماجی قدریں لیرولیر۔ خوب ناخوب ہوکر زیر عتاب ہے تو ناخوب کو خوب بنا کر ضمانتوں اور معافیوں سے نوازا جارہا ہے۔ ایوانوں کے مکین زندان میں جاچکے ہیں اور زندان والے ایوانوں میں جانے کیلئے بے تاب ہیں۔مکافاتِ عمل اور جزاوسزا کے تصورات دھند لاچکے ہیں۔ مملکت خداداد کو اس مقام پر پہنچا دیا گیا ہے۔ طول و عرض میں ڈھونڈے سے بھی کوئی نہیں مل سکتا جس کے بارے انگلی اٹھا کر گواہی دی جاسکے کہ اس نے حق ِحکمرانی ادا کیا۔ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلا ہی ثابت ہوتے چلے آئے ہیں۔سبھی اپنی اپنی حسرتوں اور خواہشات کے اسیر بنے ضرورتوں کی دلالی کرتے رہے ہیں۔نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے انتقال نے پہلے سے خاموش آئین مزید مشکل سے دوچار کرڈالا۔ آئینی مدت سے تجاوز کے باوجود حکمرانی تو جاری تھی لیکن قدرت کے ہاں مدت ختم ہوجائے تو سبھی تدبیریں اور جتن دھرے رہ جاتے ہیں۔نگران وزیر اعلیٰ کے انتقال کی افسوسناک خبر سن کر یہ شعر بے اختیار زباں پر آگیا
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
یہ شعر ان حالات میں دہرا صادق آتا ہے۔مملکتِ خداداد میں اپنی مرضی سے نہ کوئی اقتدار میں آتا ہے نہ ہی جاتا ہے۔ سبھی فیصلے ہنر مندانِ ریاست کے مرہونِ منت ہی رہے ہیں۔اسی طرح دنیا میں حیات لاتی ہے اور قضا لے جاتی ہے۔ گویا اقتدار ہو یا دنیا‘ دونوں میں کریڈٹ لانے والے کا ہی ہے۔ دنیا سے رخصت ہونے والے نگران وزیر اعلیٰ اعظم خان کا دنیا میں آنے کا فیصلہ اپنا تھا نہ اقتدار میں۔ اس تناظر میں فیصلے آسمانی ہوں یا زمینی ذاتی خواہشات کے تابع ہوتے ہیں نہ ان پر کوئی اختیار۔
آسمانی فیصلے زمینی فیصلوں کو ہمیشہ غیر مؤثر اور بے معنی کرتے چلے آئے ہیں۔لیکن کوئی سمجھنے کو تیار ہے نہ عبرت پکڑنے کو۔ ضیاالحق کے منہ سے نکلے الفاظ ہی پکڑ بن گئے موصوف نے فرمایا تھا کہ میری کرسی بہت مضبوط ہے۔قدرت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا‘مضبوط ترین کرسی کا دعویٰ فضاؤں میں ہی بکھر گیا۔ نجانے کتنی مثالیں اور سبق آموز استعاروں سے ہماری ملکی تاریخ بھری پڑی ہے۔ پرویز مشرف کا جانا جب آسمانوں پر ٹھہر گیا تو جن کا تختہ الٹ کر برسر اقتدار آئے تھے ان کی وطن واپسی بھی نہ روک پائے۔ جنہیں طویل جلاوطنی کے ماورائے قانون معاہدے کے تحت زندان سے اس لئے خاندان سمیت بیرون بھجوایا تھا انہی کے ہاتھوں مواخذے کے خوف سے قصر ِاقتدار سے نکلنا پڑا۔ ان سبھی نظاروں اور استعاروں سے عبرت پکڑنے کے بجائے سبھی اختیار ملتے ہی ضد پکڑتے چلے آئے ہیں۔نگران وزیراعلیٰ کے انتقال سے صوبہ مزید آئینی بحران سے دوچار ہوچلاہے۔پہلے آئینی مدت سے تجاوز بحران کا باعث تھا تو اب نئے وزیر اعلیٰ کی تقرری معمہ بننے جارہی ہے۔
اس تماشے میں آئین کہیں خاموش ہے تو کہیں گم سم۔ کہیں حیران ہے تو کہیں پریشان۔ مسلسل بے توقیری نے آئین کو اپنے ساتھ اس کھلواڑ کا عادی بنا ڈالا ہے جس کا سامنا برابر اور تواتر سے ہے۔جہاں حلف سے انحراف روایت ہو وہاں آئین کی حیثیت محض دستاویز سے بڑھ کر اور کیا ہوگی۔ جب آئین ٹوٹتا چلا آیا ہو تو ٹریفک سگنل توڑنے والے اس طرح توڑتے ہیں کہ بیچ چوراہے دن دہاڑے سرعام ٹریفک سارجنٹ کو بھی کچل کر مار ڈالتے ہیں۔سی سی ٹی وی کیمروں یہ دلخراش واقعہ عکسبند ہونے اورسوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد عدم شناخت کی بنا پر نامی گرامی اور جانا پہچانا مجرم صاف بچ گیا۔ یہی'' حُسن‘‘ ہے آئین اور قانون کی بے توقیری کا۔جب تک جمہوریت کا حسن جلوے بکھیرتا رہے گا تب تک اس کی لشکارسے آئین اور قانون سمیت ضابطوں اور قدروں کی آنکھیں چندھیاتا رہے گا۔کہیں طولِ اقتدار مجبوری بن جاتا ہے تو کہیں حصولِ اقتدار۔مصلحتوں اور ضرورتوں کے مارے ہمیشہ مظلوم کے بجائے ظالم کا پلڑا بھاری کرکے اپنے اہداف اور ایجنڈوں کی دلالی کرتے چلے آئے ہیں۔
بات چلی تھی آئین کی خاموشی اور گم سم ہونے کی۔مسلسل خاموشی نے شاید بولنے کی ہمت اور طاقت بھی ختم کرڈالی ہے۔ 73ء کا آئین پچاس برس کا ہونے کے باوجود ابھی چلنا بھی نہیں سیکھ پایا۔ بلوغت کے آثار ہیں نہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ توانا ہونے کے۔شعور اور تدبر کا تو امکان ہی مسلسل خاموشی نے ختم کرڈالا۔تاہم ایک بات طے اور مسلمہ ہے کہ آئینی حدود سے تجاوز کی بدعت وہ علت بن چکی ہے جو ہر دور میں مرگِ نو کا باعث ہے۔ گویا آئینی مدت کے بعد حکمرانی ہو یا من مانی غیر آئینی ہی ہے۔ماضی کے سبھی ادوار میں آئین اور قانون جب بے توقیری اور خاموشی پر مجبور رہا ہو تو میرٹ اور گورننس کی درگت برابر بننا کوئی اچنبے کی بات نہیں۔ ضرورتوں کی دلالی جب سیاست کا گُر بن جائے تو نظریات اور منشور تو بس جھانسے ہی بن جاتے ہیں۔
کئی دہائیوں سے شوقِ حکمرانی پورے کرنے والے کس قدر ڈھٹائی سے برباد یوں اور تباہیوں کی ذمہ داری سابقہ ادوار اور حکمرانوں پر ڈالتے چلے آئے ہیں۔حکمرانی ہو یا تام جھام‘ موج مستی ہو یا سرکاری وسائل کی بندر بانٹ‘ ان سبھی سے مشروط کوئی کام ہی نہ ہوسکا تو سب کچھ کس کھاتے میں۔ہنر مندانِ ریاست کو باور کراتا چلا آرہا ہوں کہ عوام اب ان سبھی سماج سیوک نیتاؤں کے شوق ِحکمرانی کی تاب لانے کے قابل نہیں رہے۔ان سبھی کو باربار آزمانے اور موقع دینا ہر دور میں مرگِ نو ہی ثابت ہوا۔اقتدار کے بٹوارے کے سبھی فارمولے ان سبھی کی دنیا تو سنوارتے چلے آرہے ہیں لیکن جوں جوں یہ سنورتے چلے گئے عوام اجڑتے اور برباد ہوتے چلے گئے۔
اخبارات کے ڈھیر میں ایک سرخی کافی دیر سے منہ چڑارہی ہے۔ آئین کو گم سم چھوڑ کر اس سرخی کی طرف چلتے ہیں جس میں نگران وزیر اعظم کاکڑ صاحب نے وہی دعویٰ کیا ہے جو ماضی کے سبھی حکمران کرتے تو بڑے زور شور سے ہیں لیکن نتیجہ ہمیشہ دعوے کے برعکس ہی نکلا ہے۔ نگران وزیر اعظم کا بھی دعویٰ ہے کہ حکومت اور فوج مراسم بہت اچھے ہیں۔ خدا جانے حکمرانوں کو عسکری مراسم کی وضاحت کیوں کرنا پڑتی ہے۔ کوئی دھڑکا ہے یا کوئی خوف‘ تمکنت ہے یا کوئی زعم‘ رسائی اور قربت کا تاثر اجاگر کرنا ہے یا کوئی خمار۔ سول ملٹری ریلیشن شپ کا کارڈ استعمال کرکے حد سے تجاوز کرنے والے سبھی حکمران ایک دوسرے کیلئے عبرت تو بنتے چلے آئے ہیں لیکن عبرت کے بجائے ضد اور اصرار کی روایت پر قائم ہیں۔سبھی کے کڑے حالات مزید کڑے اور بھیانک بن کر آنے والے منظر سے مسلسل ڈرا رہے ہیں۔ ڈر اور خوف کو بیان کرنے کیلئے افتخار عارف کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
سمندر اس قدر شوریدہ سر کیوں لگ رہا ہے
کنارے پر بھی ہم کو اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے
وہ جس کے نام سے روشن تھے مستقبل کے سب خواب
وہی چہرہ ہمیں نامعتبر کیوں لگ رہا ہے
در و دیوار اتنے اجنبی کیوں لگ رہے ہیں
خود اپنے گھر میں آخر اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے