زائد المیعاد خوراکوں اور ادویات سمیت نجانے کیا کیا گند بلا تو عوام کھا ہی رہے تھے۔ ہم نے تو وہ قوانین بھی غلامی کی نشانی کے طور پر سنبھال رکھے ہیں جو زائد المیعاد ہونے کے علاوہ غیرانسانی بھی ہیں۔ انگریز سامراج نے یہ امتیازی قوانین مقامی لوگوں کو سرنگوں اور زیر عتاب رکھنے کے لیے بنائے تھے۔ گورا سرکار تو چلی گئی لیکن چیدہ چیدہ قوانین راج نیتی کے گُر کے طور پر کبھی حصولِ اقتدار کے لیے تو کبھی طولِ اقتدار کے لیے ہر دور کی طرح آج بھی برابر آزمائے جا رہے ہیں۔ عوام کے معدے اور جسم تو زائدالمیعاد خوارک اور ادویات کے اس طرح عادی ہو چکے ہیں کہ اگر کچھ خالص میسر آجائے تو استفادے کے بجائے اُلٹا نقصان ہی کر بیٹھتے ہیں۔ عوام کے مزاج اور عادتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زائدالمیعاد حکومتوں کا نیا ایڈیشن بھی متعارف کروایا جا چکا ہے۔ اس طرزِ حکمرانی کے بعد زائدالمیعاد سیریز شاید مکمل ہو چکی ہے۔ مملکتِ خداداد میں خوراک اور ادویات سے لے کر حکومتوں تک سبھی کچھ زائدالمیعاد ہی ہو چکا ہے۔
ہنرمندانِ ریاست کا یہی اعجاز ہے کہ وہ عوام کے مزاجوں اور خصلتوں کے مطابق ہی ان کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کی استطاعت اور طاقت سے بڑھ کر بوجھ اس مہارت سے ڈالتے ہیں کہ عوام سبھی ناقابلِ برداشت بوجھ اٹھائے بھی چلے جا رہے ہیں اور روئے بھی چلے جا رہے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں جب سبھی کچھ اپنی حدود اور مدت سے تجاوز کر چکا ہو تو طرزِ حکمرانی پیچھے کیوں رہ جائے‘ وہ بھی ان سبھی علتوں کے ہم قدم اور شانہ بشانہ ہو کر اس دھارے میں شامل ہے۔ دو صوبائی حکومتوں کی مدت پوری ہوئے چھ ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے جبکہ وفاق سمیت دیگر دو صوبائی حکومتیں ماہ ِرواں میں اپنی مدت پوری کر چکی ہیں۔ گویا وفاق سمیت چاروں صوبوں کی نگران حکومتیں اپنی اپنی میعاد پوری کرکے تجاوز کے سفر پر رَواں دواں ہیں۔
جمہوریت کے علَم بردار ہوں یا انتظامی بابو‘ آئین کی تشریح کرنے والے ہوں یا قانون پر عملدرآمد کروانے والے‘ انسانی حقوق کی تنظیمیں ہوں یا دیگر سماجی تنظیمیں‘ سبھی ضرورت مند بنے کس قدر نازاں و شاداں ہیں۔ ماروائے آئین حکمرانی کے جوہر بھی اس طرح جاری ہیں کہ مصاحبین کے ناز نخروں سے لے کر اللوں تللوں سمیت فرمائشیں بھی برابر پوری ہو رہی ہیں۔ کہیں شریکِ اقتدار ہیں تو کہیں شریکِ کار‘ محفلِ یاراں سے لے کر بزمِ ناز تک کیسی کیسی داستانیں اور قصے زبان زدِ عام ہیں۔ ایک طرف میرٹ کی درگت جاری ہے تو دوسری طرف من پسند اور سرچڑھے سرکاری بابوؤں کی من مانیاں گورننس کی ضد بنتی چلی جا رہی ہیں۔ کہیں نمائشی اقدامات ہیں تو کہیں حقائق کے برعکس دلفریب اعداد و شمار‘ کہیں الفاظ کا گورکھ دھندا ہے تو کہیں دعوے اور جھانسے‘ مخصوص سیاسی اشرافیہ کو انتخابی معرکہ سر کروانے کیلئے کہیں سر جوڑے ہوئے ہیں تو کہیں جگاڑ لگائے ہوئے‘ لیول پلیئنگ فیلڈ کی ڈیمانڈ اس قدر بڑھتی چلی جا رہی ہے کہ سبھی اس کے طلبگار بنے بھاگے پھر رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے تحفظات‘ گلے شکوے اور خدشات میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جبکہ مسلم لیگ(ن) کو لیول پلیئنگ فیلڈ دینے کا الزام بھی نگران سرکار پر کڑے سوالات کا باعث ہے۔ وفاقی کابینہ سے لے کر تختِ پنجاب کی انتظامی مشینری تک‘ نجانے کتنے ہی لیول پلیئنگ فیلڈ کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں اور جُتے ہوئے ہیں۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ تقرریوں اور تبادلوں کے فیصلے بھی لیول پلیئنگ فیلڈ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی کیے جا رہے ہیں۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کے طلبگار اپنے ہر دورِ اقتدار میں عوام کو کیسے کیسے عذابوں سے دوچار کرتے چلے آئے ہیں۔ گویا سارے لیول اور فیلڈز بس انہی کے لیے ہیں‘ عوام کا تو انہوں نے نہ کوئی لیول چھوڑا ہے اور نہ ہی کبھی انہیں کوئی فیلڈ فراہم کی ہے بلکہ وہ حقوق بھی سلب کرتے چلے آئے ہیں جو بحیثیت انسان عوام کا بنیادی حق ہے۔ دراصل انہوں نے عوام کو کبھی انسان کے مرتبے پر فائز ہی نہیں کیا‘ ان کے نزدیک عوام کا اصل مصرف تو مینڈیٹ لینا ہی ہے‘ بھلے جھانسہ دے کر لیا جائے یا لارے اور وعدے سے۔ تعجب ہے کہ انہیں ریلیف اور ضمانتوں سے لے کر رہائیاں اور معافیاں بھی اس طرح دی جارہی ہیں کہ قانون اور ضابطے بھی حیران اور گم سم ہیں جبکہ عوام کی ضمانتیں تو ان ناکردہ گناہوں میں نجانے کب سے ضبط ہیں جو ان سے کبھی سرزد ہی نہ ہوئے۔ نسل در نسل ضمانتیں ضبط کرواتے اور سزائیں بھگتتے عوام کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ کس جرم کی پاداش میں ان کا شوقِ حکمرانی بھگتتے چلے آرہے ہیں۔
اس نسل در نسل شوقِ حکمرانی سے عوام بھی اب ضمانت اور رہائی مانگتے ہیں۔ دادا کے بعد پوتا‘ باپ کے بعد بیٹا آخر کب تک؟ اس پر ستم یہ کہ مملکتِ خداداد میں پیدا ہونے والا ہر ذِی رُوح اس بھاری ہوشربا قرضے کا نادہندہ ہے جس سے اس کا کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے۔ آباؤ اجداد سے لے کر آنے والی نسلوں تک کوئی بھی اس قرضے کی ایک پائی کا بینیفشری رہا ہے نہ ہی آئندہ کبھی ہو گا۔ یہ سبھی ناقابلِ برداشت قرضے ان حکمرانوں نے نجانے کہاں لگائے اور کہاں اُجاڑے؟ ان قرضوں کا نصف بھی اگر ملکی استحکام اور مفادِ عامہ پر لگا دیا جاتا تو صورتحال اس قدر مایوس کن اور نازک نہ ہوتی۔ ان قرضوں کے ساتھ ساتھ یہ ملکی معیشت کا پیندہ بھی چاٹ چکے ہیں۔ ماضی کے تناظر میں مستقبل کا منظرنامہ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ جس طرح ماضی کا آئینہ حال اور حال کا آئینہ مستقبل ہوتا ہے اُسی طرح حکمرانوں کے فیصلوں اور اقدامات کے نتائج ان کی نیت اور ارادوں کا بھید کھول دیتے ہیں‘ سبھی پردے چاک اور چہرے بے نقاب تو ہو چکے ہیں‘ خدا جانے تقریباً چار دہائیوں سے راج نیتی کے کھیل میں کرتب اور تماشے دکھانے والے اب کون سا آئٹم لے کر آئیں گے۔
سیاسی سرکس کے بازی گروں کے کرتب یونہی چلتے رہیں گے‘ عوام تالیاں بجاتے بجاتے اپنے ہاتھ لہولہان کرتے رہیں گے‘ حکومتیں آتی جاتی رہیں گی‘ باریاں لگتی رہیں گی‘ انہیں ضمانتیں‘ ریلیف‘ معافیاں اور رہائیاں ملتی رہیں گی لیکن عوام کی ضمانتیں ضبط اور اسیری یونہی برقرار رہے گی۔ چلتے چلتے تختِ پنجاب کی پولیسنگ کا انوکھا نمونہ بھی پیش کرتا چلوں۔ جہاں صوبائی دارالحکومت میں امن و امان پر سمجھوتے گورننس کا ماڈل بن جائیں تو باقی صوبے میں عوام کی جان و مال اور عزت کا خدا ہی حافظ ہے۔ ایک طرف بڑے تعمیراتی منصوبے جاری ہیں تو دوسری طرف امن و امان سے مشروط پولیس کی گاڑیوں کی ٹینکیاں پٹرول سے خالی اور خشک پڑی ہیں۔ عرصہ دراز سے پٹرول کی عدم فراہمی نے پٹرولنگ کا نظام ناصرف بند کر ڈالا ہے بلکہ سٹریٹ کرائمز بھی آؤٹ آف کنٹرول ہیں۔ مسلسل عدم ادائیگی کی وجہ سے آئل کمپنیاں ادھار پر مزید پٹرول دینے سے انکاری ہیں۔ منت ترلوں اور اثر ورسوخ سے ادھار پٹرول لینے والے افسران بھی اب آئل کمپنیوں سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ اس صورتحال کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے کریمنلز نے دن دیہاڑے اور رات کے اندھیرے میں لوٹ مچا رکھی ہے۔ دوسری طرف آئی جی صاحب ماڈل تھانے بنانے کے لیے اس طرح سرگرم ہیں کہ ایس ایچ اوز کو فنڈز فراہم کیے بغیر لاکھوں روپے کا خرچہ ڈال دیا گیا ہے۔ حکمِ حاکم مرگِ مفاجات کے مصداق ایس ایچ اوز کہیں ٹھیکیداروں کی منت کر رہے ہیں تو کہیں فٹیکیں ڈال کر تھانوں کی تزین وآرائش میں جُتے ہوئے ہیں‘ گویا مال بناؤ اور تھانے سجاؤ۔