چیف جسٹس آف پاکستان‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ کہتے ہوئے کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں لاہور ہائیکورٹ نے وہ ریلیف دیا جو مانگا ہی نہیں گیا‘ اس ریلیف کو حیران کن قرار دیا ہے۔ یاد رہے! پرویز مشرف کو نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار سنبھالنے پر حکمرانی کا جواز دینا بھی ریلیف ہی تھا۔ ہمارے ہاں امتیازی فیصلوں اور بوجوہ ریلیف کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ بالخصوص خوب کو ناخوب اور ناخوب کو خوب بنانے کے اس کھیل میں ریلیف کا معیار اور دورانیہ بھی چہروں کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ پہلے جنہوں نے میاں نواز شریف کو خائن اور نااہل قرار دیا‘ آج وہی انہیں ریلیف دیے چلے جا رہے ہیں‘ جو کم از کم قانون کی کتابوں میں تو درج نہیں۔ ایک ایک کرکے وہ سبھی سستے چھوٹ چکے ہیں جنہیں مہنگے کیسوں میں پکڑ کر حکومتی وسائل‘ توانائیاں اور بھاری رقوم خرچ کی گئی تھیں۔
بدلتی ترجیحات سمیت مصلحتیں اور مجبوریاں کیسے کیسے منظر دِکھاتی ہیں‘ جنہیں بکتر بند گاڑیوں میں لایا جاتا تھا‘ اب وہ سرکاری بابوؤں کے جھرمٹ میں آتے ہیں اور انہیں پروٹوکول کے ساتھ خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ نہ کوئی منصب ہے نہ عہدہ‘ پھر یہ تام جھام اور سرکاری سطح پر پذیرائی خدا ہی جانے کس کھاتے میں؟ نگران سرکار کی نگرانی میں کیسے کیسے ریلیف‘ معافیاں اور آسانیاں فراہم کرنے کے لیے قانون اور ضابطوں کو اس طرح سرنگوں کر ڈالا گیا ہے کہ منطق اور دلیل بھی لاجواب ہے۔ جس طرح پرویز مشرف کیس میں ملنے والا ریلیف حیران کن قرار دیا جا چکا ہے‘ اسی طرح مستقبل میں دورِ حاضر کے کیسز اور ریلیف کو بھی یقینا حیران کن اور ناقابلِ فہم قرار دیا جائے گا۔ ہمارے ہاں تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے اُسے پیٹنے کا رواج‘ ملک و قوم کو ماضی کے آسیب اور بدعتوں ہی میں جکڑے ہوئے ہے۔ ماضی کا سیاپا حال میں اور حال کا سیاپا مستقبل میں کرنا ایسے ہی ہے جیسے سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنا۔
مملکتِ خداداد میں لکیر کا کردار اس قدر اہم ہے کہ یہ کہیں پیٹنے کے کام آتی ہے تو کہیں گدھوں پر لگا کر زیبرے بنانے کے... یہ اور بات ہے کہ اپنے ہی ہاتھوں سے گدھوں کو زیبرے بنانے کے بعد ہنر مندان‘ ان گدھوں سے وہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں کہ جیسے یہ سچ مچ کے زیبرے ہوں۔ توقعات کے برعکس دولتیاں مارنے پر ان زبیروں کی لکیریں مٹا کر دوبارہ گدھے بنانے میں ذرا دیر نہیں لگائی جاتی۔ کاش! گدھوں پر لکیریں کھینچ کر زبیرے بنانے کے بجائے کچھ اور اصلی اور نسلی زبیروں پر انحصار کر لیا جاتا تو ان دولتیاں جھاڑتے گدھوں سے پالا نہ پڑتا‘ نجانے یہ کیسے بھول جاتے ہیں کہ جس طرح ڈنگ مارنا بچھو کی فطرت ہے‘ اسی طرح گدھا بھی اپنی خصلت سے اس طرح مجبور ہے کہ وہ دولتیاں جھاڑے بغیر رہ نہیں سکتا۔
وطنِ عزیز پر ہونے والے تجربات میں ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے اور تیسرے کے بعد پھر پہلے کو آزمانے کا نتیجہ یہی نکلا ہے کہ سبھی اپنی خصلت اور فطرت سے مجبور ہونے کے علاوہ نہلے پر دہلے ہی ثابت ہوئے ہیں۔ قومیں غلطیوں سے نہیں بلکہ غلطیوں پر اصرار اور ضد سے برباد ہوتی ہیں۔ قوم کو ایک بار پھر اسی ضد اور اصرار کا سامنا ہے جس کی قیمت چکاتے چکاتے ہلکان اور برباد ہو چکی ہے۔ جوں جوں عوام برباد ہوتے چلے جا رہے ہیں‘ سیاسی و انتظامی اشرافیہ اس طرح آباد ہو رہی ہے کہ نجانے اب تک کہاں کہاں جا کر آباد ہو چکی ہے۔ کوئی سات سمندر پار جنت بسائے ہوئے ہے تو کوئی دنیا کے مہنگے ترین علاقوں میں بیش قیمت محلات اور جائیدادوں میں جا بسا ہے اور کوئی مملکتِ خداداد میں سلطنت بنائے ہوئے ہے۔ الغرض عوام روز بروز بکھرتے تو یہ سبھی سنورتے اور نکھرتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ضد اور اصرار کا انجام بھگتنے اور دیکھنے کے ساتھ ساتھ نیا دور ہو یا اعتبار‘ عوام کے لیے مرگِ نو ہی بنتا چلا آیا ہے۔
سیاست کو تجارت بنانے والوں نے انتظامی اشرافیہ کی بیساکھیوں کو اس طرح قابو کر رکھا ہے کہ سہولت کاری ہی اہلیت اور معیار بن چکی ہے۔ تقرریوں اور تبادلوں سے دھندوں اور ایجنڈوں کی بو آتی ہے تو کہیں پیداواری عہدوں پر براجمان بابوؤں کو دیکھ کر ٹینڈر کا گماں ہوتا ہے۔ کہیں اونچے عہدوں کو نچلے گریڈ والے قابو کیے ہوئے ہیں تو کہیں اونچے گریڈ والے دربدر اور سمجھوتوں پر مجبور ہیں۔ کہیں گورننس شرمسار ہے تو کہیں میرٹ تار تار۔آنے والے دنوں میں یہ کھیل تماشا کئی اضافوں اور نئے آئٹمز کے ساتھ دہرانے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ بساط بھی پرانی ہے‘ چالیں اور مہرے بھی پرانے‘ چہرے بھی وہی ہیں تو روپ بہروپ بھی وہی‘ پون صدی سے جاری اس تماشے کا اَنت دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔ دادا کے بعد پوتا اور باپ کے بعد بیٹا عوام پر حکمرانی کے سبھی شوق پورے کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔ اشرافیہ کے سپوتوں کو اوائل عمری سے ہی یہ ٹریننگ دی جاتی ہے کہ انہوں نے باپ دادا کی گدی اور ریاست کے معاملات سنبھالنے ہیں۔ جہاں حال مایوسیوں اور ناامیدیوں کی گہری کھائیوں میں اوندھے منہ پڑا ہو‘ وہاں مستقبل کے اندیشوں اور خدشات سے سہمے ہوئے عوام ایک اور مرگِ نو کے لیے ووٹ کی سیاہی اپنے مقدر پر ملنے جا رہے ہیں۔
سونے پے سہاگہ یہ کہ نگران سرکار مخصوص سماج سیوک نیتاؤں سے کافی متاثر ہے۔ کارکردگی کے تناظر میں آج کل سپیڈ کی برانڈنگ زوروں پر ہے۔ تعریفی اور ستائشی کلمات اور مضامین کے علاوہ تشہیر کا اہتمام بھی خوب کیا جا رہا ہے۔ کوئی انہیں بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا کہ گورننس اور کارکردگی صرف تعمیراتی کام سے شروع ہوکر وہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ گورننس کی وسعت اور معنویت کی گہرائی میں اُتریں تو معلوم پڑے کہ تعمیراتی کام فقط ایک محکمے کی وہ ذمہ داری ہے جو اسے ڈھول پیٹے بغیر تواتر سے کرتے رہنا چاہیے۔ اینٹ‘ گارے‘ سیمنٹ اور سریے پر کھڑی گورننس کو کچھ خبر دائیں بائیں کی بھی لینی چاہیے۔ تھانہ‘ ہسپتال اور پٹوار میں دھتکار اور پھٹکار کے مناظر جوں کے توں اور اضافوں کے ساتھ جاری ہیں۔ غیر سرکاری فنڈز سے تھانے سجانا لا اینڈ آرڈر کا کون سا ماڈل ہے۔ یہ کیسا امن و امان ہے کہ نہ کہیں امن ہے اور نہ کسی کو امان حاصل ہے۔ ہسپتالوں میں سیمنٹ‘ ریت اور سریے سے کہیں بڑھ کر ادویات‘ آلات اور متعلقہ مشینری کے علاوہ اس رویے پر توجہ کی بھی ضرورت ہے جو مسیحائی کی ضد بن چکا ہے۔
نام کیساتھ سپیڈ کے لقب پر مجھے ہرگز کوئی اعتراض ہے نہ نقصان‘ میں ان کے وِژن اور صلاحیتوں کا پہلے ہی مداح ہوں لیکن ان کا یہ وِژن اور قابلیت طرزِ حکمرانی میں وہ رنگ نہیں بکھیر پایا جس سے اُجڑے اور پھیکے رنگوں میں جان پڑ جاتی۔ سپیڈ بھلے غیرمعمولی اور کتنی ہی تیز ہو‘ سمت کا تعین درست نہ ہو تو سفر رائیگاں ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ پولیس و انتظامی بابوؤں سمیت انسدادِ بد عنوانی کے شعبوں پر اکثر افسران کی تقرری اور منہ زوری اگر نگران سرکار کا انتخاب نہیں ہے تو یقینا مجبوری ہو گی۔ فرمائش اور مطالبوں کے نتیجوں میں اہم اور پیداواری عہدوں پر دنیا سنوارنے والے یقینا بدنامی اور سُبکی کے علاوہ جوابدہی کا باعث بھی بنتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں سپیڈ بھلے جتنی چاہے رکھیں لیکن اہداف اور سمت کا تعین درست ہونا چاہیے۔ عام آدمی کی زندگی روز بروز خستہ حالی اور بدحالی کا شکار ہے‘ قوتِ خرید کے ہاتھوں مرنے والے روز جیتے اور روز مرتے ہیں۔