مجہول سیاست کے بازی گروں کے نت نئے کرتب ہوں یا ریاست کے وہ سبھی اقدامات جو عوام کی پریشان حالی میں ریکارڈ اضافوں کا باعث بنتے چلے آرہے ہیں۔ تذلیلِ انسانیت کے جابجا مناظر کو گڈ گورننس ثابت کرنے کی سرکاری شعبدے بازیوں سے لے کر دنیا سنوارنے میں مگن سرکاری بابوؤں کی ہوشربا داستانیں‘ گورننس کو شرمسار اور میرٹ کو تار تار کیے ہوئے ہیں۔ کسی کو نگرانوں سے قربت کا زعم ہے تو کسی کو رسائی کا خمار‘ کوئی مصاحبین میں شمار ہوتا ہے تو کوئی تائبین میں‘ اہلیت اور قابلیت کا معیار اس قدر غیر معیاری ہو چکا ہے کہ سرکاری وسائل کے ساتھ ساتھ پیداواری عہدوں کی بندر بانٹ نے جہاں طرزِ حکمرانی کے سبھی بھید کھول ڈالے ہیں وہاں مایوسی کے گڑھے بھی مزید گہرے ہو چلے ہیں۔
چیئرمین نیب کے اعلیٰ سرکاری بابوؤں سے خطاب نے ان کے اندر چھپے وہ سبھی ڈر اور خوف نکال ڈالے ہیں جن کی وجہ سے وہ کھل کر کھیلنے سے گریزاں اور گھبرائے ہوئے تھے۔ انہیں فری ہینڈ ملنے کے بعد متوقع اُدھم کو چشمِ تصور سے بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ احتساب کی لٹکتی تلوار کے نیچے گل کھلانے والوں نے کون سا گُل نہیں کھلایا‘ کس کس کا نام لوں‘ کون کون سی واردات کے پلندے کھولوں‘ سب کو سبھی جانتے ہیں۔ چند روز قبل ہی اینٹی کرپشن کی اعلیٰ سرکاری بابوؤں کے خلاف کارروائی اور گرفتاری کو چیف سیکرٹری کی اجازت سے مشروط کر دیا گیا۔ اب اینٹی کرپشن والے اپنے پرانے کام یعنی تھانے داروں‘ پٹواریوں سمیت دیگر محکموں کے چھوٹے ملازمین کے خلاف ہی کارروائی کر سکیں گے۔ اینٹی کرپشن کی طرف سے سرکاری افسران کے خلاف حالیہ کارروائیوں بالخصوص مقدمات پر بھی ایک انکوائری اس لیے ضرور ہونی چاہیے کہ اس ادارے میں فرمائشی پروگرام کے تحت دوستیاں اور دشمنیاں نبھانے کے ساتھ ساتھ بغض اور کینہ نکالنے کے علاوہ پرانے حساب چکانے کا رواج پروان چڑھ چکا تھا جبکہ دائرہ کار سے نکل کر کارروائیاں کرنے کی بازگشت بھی زبان زدِ خاص و عام رہی ہے۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے پرنسپل سیکرٹری محمد خان بھٹی کی تقرری کے پروسیجر کو چلانے والے افسران کے خلاف مقدمات درج کرنے کا واقعہ ہو یا بلدیہ عظمیٰ لاہور کے افسران پر مقدمات ‘ یہ سبھی کارروائیاں فرمائشی اور مخصوص خوشنودیاں حاصل کرنے کے لیے ہی کی گئی تھیں۔ سابق وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کی تقرری کی مجاز اتھارٹی کے بجائے ماتحت افسران کو بَلی کا بکرا بنانے پر سرکاری بابو نالاں اور شدید بے چین تھے اور مسلسل باور کروا رہے تھے کہ یہ روایت اگر چل نکلی تو کل دوسرے اعلیٰ افسران بھی اس بدعت کی بھینٹ چڑھ سکتے ہیں۔ بالخصوص سالِ رواں میں انتظامی مشینری کے سبھی اقدامات اور فیصلے کل کو کوئی بھی چیلنج کرکے انہیں ماروائے آئین اور خلافِ ضابطہ قرار دے کر نیا پنڈورا باکس کھول سکتا ہے‘ تاہم جو آگ ہمارے گھر لگی ہوئی ہے اس کے شعلے لپک کر دوسرے گھروں میں بھی جا سکتے ہیں اگر ایسا ہوا تو یہ آگ یونہی لگتی رہے گی اور ہم باری باری اس کا ایندھن بنتے رہیں گے۔ چیف سیکرٹری کو کچھ دیر تو لگی لیکن حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے انہوں نے سرکاری بابوؤں کے خلاف ان سبھی کارروائیوں پر بند باندھ دیا جو انسدادِ کرپشن کا ادارہ بے دریغ کیے چلے جا رہا تھا۔
ایک معمہ اکثر پریشان کیے رکھتا ہے کہ یہ کیسا احتساب ہے‘ یہ کیسی انسدادی کارروائیاں ہیں کہ ان کے پھندے خواص اور اشرافیہ کے لیے تو چھوٹے پڑ جاتے ہیں لیکن چھوٹے اور معمولی ملازمین کے راہ جاتے گلے پڑ جاتے ہیں۔ تاریخ اور صحافت کا طالبعلم ہونے کے ناتے یہ سبھی کھیل تماشے نجانے کب سے دیکھتا چلا آرہا ہوں کہ کوئی بڑا پھنستے نہیں دیکھا اور کوئی چھوٹا بچتے نہیں دیکھا۔ روزمرہ کے اخراجات اور زندگی کو آسان بنانے کے لیے اختیارات سے تجاوز و رشوت لینے والے سرکاری ملازمین کو سزاؤں کے ساتھ ساتھ نوکریوں سے بھی ہاتھ دھوتے دیکھا ہے لیکن بڑے اور اعلیٰ سرکاری بابو ہوشربا وارداتوں اور ناقابلِ تردید حقائق کے باوجود معمولی جھٹکوں اور انکوائریوں کے بعد نہ صرف بچتے چلے آئے ہیں بلکہ کلین چٹ کے بعد مزید بڑے اور اہم عہدے حاصل کرکے مزید ہاتھ کی صفائی دکھاتے پائے گئے ہیں۔
بڑے مالیاتی سکینڈلز اور محکمانہ بے ضابطگیوں سمیت انصاف کی ضد بنے پولیس افسران چھوٹے تھانیداروں اور کانسٹیبلز کو غیر حاضریوں‘ معمولی غفلت اور رشوت کی پاداش میں تنزلی اور برخاستگی کی سزائیں دیتے ہوئے اپنے گریبانوں میں ہرگز نہیں جھانکتے۔ اپنی کوٹھیوں‘ بنگلوں‘ اثاثوں اور سیر سپاٹوں سمیت شاہانہ طرزِ زندگی سے آنکھیں چراتے ہوئے یہ بڑے افسران ماتحت رینکرز کی معمولی غفلت اور بدعنوانی پر بدکلامی اور تذلیل سے لے کر ان کی نوکریاں کھاکر کس ڈھٹائی سے فرض شناسی اور انصاف کی فراہمی کے بھاشن دیتے ہیں‘ کس کس کا نام لوں‘ سب کو سبھی جانتے ہیں۔
اس خطاب میں سرکاری بابوؤں کو یہ خوشخبری بھی دی گئی ہے کہ مفادِ عامہ کے کیسز میں افسران سے پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔ نیب کی طرف سے یہ کلین چِٹ ان بابوؤں کے لیے کسی لاٹری سے ہرگز کم نہیں کیونکہ مفادِ عامہ کے منصوبے ہی تو اصل دھندا اور کمائی کا ذریعہ ہیں۔ گویا نیب کا دھارا اسی ویژن کی طرف موڑ دیا گیا ہے جس کے تحت پچیس سال قبل اسے بنایا گیا تھا یعنی یہ دائرہ کار اب سیاسی مخالفین کے گرد ہی گھومتا نظر آئے گا۔ نیب میں چیئرمین تحریک انصاف اور ان کی اہلیہ کے خلاف 190ملین پاؤنڈ کا ریفرنس دائر ہو چکا ہے‘ مزید کیسز بھی اُسی طرح دائر ہوتے رہیں گے جس طرح ماضی میں شریف خاندان اور ان کے قریبیوں کے علاوہ زرداری صاحب اور ان کے قریبیوں کے خلاف دائر ہوتے رہے۔ ایسے میگا کیسز کا جائزہ لیا جائے تو سزا کا مستحق استغاثہ چلانے والا ہی قرار پایا ہے جبکہ مہنگے کیسز کے سبھی ملزمان تو ایک ایک کرکے سستے چھوٹتے اور بری ہوتے چلے آئے ہیں۔ چند اعلیٰ افسران کو نیب نکالا پروانہ جاری ہو چکا ہے جس کے تحت انہیں مختلف محکموں میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ واضح رہے یہ سبھی وہ افسران ہیں جو ماضی کے بڑے کیسز سے منسلک رہے ہیں۔ بالخصوص نیب لاہور میں سبھی ہائی پروفائل کیسز کو دائر کرنے اور چلانے والی شخصیت کو مثال بنا کر وزارتِ تعلیم میں بھجوانے کی بھی اطلاعات گرم ہیں۔
ایون فیلڈ ریفرنس سمیت دیگر سبھی کیسز میں بھی سزا افسران کو ہی ملی ہے۔ آگے آگے دیکھئے‘ 190ملین پاؤنڈ کے ریفرنس کی سزا ملزمان کو ملتی ہے یا یہی روایت برقرار رہتی ہے۔ افسران اور دیگر انتظامی مشینری ان سبھی حالات سے سیکھنے کے بجائے احتسابی بھٹی کا ایندھن بنتی چلی آئی ہے۔ سبق سیکھنے کے بجائے نیا سبق لینے کے لیے پیش پیش سرکاری بابو اپنے بھائی بندوں کے انجام کے بجائے اپنے آغاز پر ہی فوکس کیے ہوئے ہیں۔ انجام دیکھنے کے بعد آغاز تعجب خیز ہے۔ نیب میں ریفرنسز دائر ہوتے رہیں گے‘ ملزمان بھی بدلتے اور بری ہوتے رہیں گے‘ وقت اور ضرورت کے ساتھ ساتھ قوانین کے غبارے میں ہوا بھری اور نکالی بھی جاتی رہے گی۔ کیسز پر اٹھنے والی خطیر رقوم کے بھاری اخراجات ملک و قوم کو مالی صدمات سے دوچار کرتے رہیں گے۔ بری ہونے والوں کی سزائیں استغاثوں اور افسران میں ایسے ہی تقسیم ہوتی رہیں گی۔ انجام سے باخبر تازہ دم افسران انجان بنے دستیاب رہیں گے اور راج نیتی کا کھیل یونہی جاری رہے گا۔