ترکِ انتقام اور عام معافی کے اعلان کے ساتھ وطن لوٹنے والے نواز شریف اپنے اصل روپ اور اُس کیفیت کی طرف لوٹ رہے ہیں جو اُن کی شخصیت کا خاصہ اور خلاصہ ہے۔ افتادِ طبع سے مجبور نواز شریف وزارتِ عظمیٰ کے ادوار میں تصادم اور مزاحمت کے وہ ریکارڈ قائم کر چکے ہیں کہ اوسط نکالی جائے تو تین ادوار میں نو شخصیات اور اداروں سے ٹکراؤ کی روش برقرار رکھی۔ صدر غلام اسحاق خان سے شروع ہونے والی محاذ آرائی جنرل عبدالوحید کاکڑ‘ جنرل آصف نواز جنجوعہ‘ جنرل جہانگیر کرامت‘ چیف جسٹس سجاد علی شاہ‘ صدر فاروق لغاری‘ جنرل پرویز مشرف اورجنرل راحیل شریف سے ہوتی ہوئی جنرل قمر جاوید باجوہ تک جاری رہی۔ کبھی ایوانِ صدر سے سینگ پھنسائے تو کبھی عدلیہ اور عسکری اداروں سے جا ٹکرائے۔ میاں صاحب آج بھی روایتی غم و غصے میں اپنی حکومتیں گرانے کا حساب مانگے چلے جا رہے ہیں‘ گڑے مردے اکھاڑنے کے ساتھ ساتھ وہ سوالات بھی اٹھا رہے ہیں جن پر وہ خود بھی لاجواب رہے ہیں۔ حصولِ اقتدار ہو یا طولِ اقتدار جگاڑ‘ سمجھوتوں اور مصلحتوں کے سبھی عقدے اگر کھل گئے تو حساب مانگتے مانگتے کہیں اُلٹا حساب ہی نہ دینا پڑ جائے۔
خدا جانے کوئی آسیب ہے یا افتادِ طبع کا کرشمہ کہ اقتدار میں آنے کے لیے تَرلے منتوں سے لیکر خوشامدوں سمیت تابعدار بنے آگے پیچھے پھرنے والے برسرِ اقتدار آتے ہی یوں رنگ بدلتے ہیں کہ پہچانے نہیں جاتے۔ اداکاریوں اور مکاریوں کے سبھی رنگ اس طرح اُترتے چلے جاتے ہیں کہ صبح شام آداب بجا لانے والے دیوانہ وار للکارے مارتے پھرتے ہیں۔ شخصی عناد سے لیکر اقتدار اور اختیار کیلئے اس قدر بے حال ہوتے چلے جاتے ہیں کہ خیال ہی نہیں رہتا کہ جن کندھوں کو زینہ بنا کر مسندِ اقتدار پر پہنچے انہی کے خلاف سازشیں اور نت نئے حربے اور ہتھکنڈے آزمانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ 2018ء میں نااہل ہو کر کوئے اقتدار سے نکلنے والے نواز شریف اپنی اداؤں اور وجوہات پر غور کرنے کے بجائے اداروں پر چڑھ دوڑے‘ زبان و بیان اس طرح شدت اختیار کرتا چلا گیا کہ ادھوری خواہشات اور حسرتیں شعلہ بیانیوں میں واضح نظر آنے لگیں۔ بالخصوص سات سمندر پار دیارِ غیر میں بیٹھ کر انتقام اور انتشار میں ڈوبے ہوئے وہ تیر بھی برسا ڈالے جو حب الوطنی اور غیرتِ قومی کو بھی گھائل اور چھلنی کرتے چلے گئے۔ اس مہم جوئی میں ان کی صاحبزادی بھی شانہ بشانہ‘ ہم قدم اور ہم زبان بن کر نفرت اور انتشار کے تڑکے خوب لگاتی رہیں۔ مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری بھی اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بڑھکیں مار کر ملک سے رفوچکر ہو گئے اوربعد ازاں معاملات رفع دفع ہونے اور طے پانے کے بعد واپس چلے آئے۔ عمران خان بھی اسی طرح برسرِ اقتدار آنے سے پہلے جن اداروں کے احترام و تقدس کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے‘ مگربوئے سلطانی کا رنگ چڑھنے کے بعد اُنہی اداروں کے خلاف انتشار اور ہرزہ سرائی میں اس قدر آگے نکل گئے کہ پاکستانیت اور غیرت قومی کہیں پیچھے رہ گئی۔ عمران خان کے شعلہ بیان بریگیڈ نے وہ آگ لگائی کہ تحمل‘ برداشت‘ وضعداری‘ سیاسی رواداری اور اخلاقی قدریں بھی بھسم کر ڈالیں۔ وہ اودھم مچایا کہ جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظوں کے بارے ان کی شان کے منافی وہ نازیبا زبان استعمال کی جس نے سارا ماحول ہی انگار وادی بنا ڈالا۔ میر جعفر اور میر صادق کے استعارے استعمال کرنے والے عمران خان کی ہرزہ سرائی بھارتی میڈیا میں نہ صرف ٹاپ ٹرینڈ بنتی رہی بلکہ پون صدی میں بھارتی ایجنسیاں پاک فوج کے بارے میں وہ پروپیگنڈہ نہیں کر سکیں جو عمران خان نے چند ماہ میں کر ڈالا۔
تاریخ کے یہ چند صفحات پوری کتاب کا وہ خلاصہ ہیں جو اُس مخصوص مائنڈ سیٹ کی نشاندہی کرتا ہے جو اقتدار میں آنے سے پہلے چاپلوسی اور خوشامد کرتا نظر آتا ہے اور برسرِ اقتدار آنے کے بعد اس طرح رنگ بدلتا ہے کہ محاذ آرائی اور تصادم کے ساتھ ساتھ ہرزہ سرائی اور کردار کُشی کے گمراہ کن پروپیگنڈے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ یہی مائنڈ سیٹ ناکام طرزِ حکمرانی کی وجہ بننے کے علاوہ اداروں کے درمیان توازن اور مثالی تعلقات کی ضد رہا ہے۔ یہ رویہ جہاں بددماغی کو دوام بخشتا رہا ہے وہاں راج نیتی میں سودے بازی کے کلچر کو بھی اس طرح پروان چڑھانے کا باعث رہا ہے کہ کبھی نامزدگیوں کا تاوان مانگتا رہا ہے تو کبھی تقرریوں کے دام‘ توسیع کا خراج وصول کرنے کی دُھن میں یہ سبھی اپنی بدترین طرزِ حکمرانی اور مفادات میں لتھڑے ناموافق فیصلوں کی تائید اور مہر ِتصدیق کے تمنائی رہے ہیں۔
ماضی کے کم و بیش سبھی ادوار میں بندہ پروری اور بندہ نوازی کے کچھ کردار رنگین اور سنگین الزامات کا استعارہ رہے ہیں۔ بھائیوں اور قریبی عزیزوں سے لیکر دوست احباب اس طرح بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے ہیں کہ دنیا سنوارنے کے ساتھ ساتھ دیارِ غیر میں بھی جنتیں بسا چکے ہیں۔ کمان کی تبدیلی کے بعد 377واں سورج طلوع ہو چکا ہے لیکن ملک کے طول و عرض سے کوئی بازگشت سنائی دی نہ خبر آئی‘ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے سبھی کبھی گنگا ڈھونڈتے پھرتے ہیں تو کبھی اُن خالی ہاتھوں کو تکے جا رہے ہیں جو کبھی نوٹوں سے تو کبھی اراضی کی دستاویزات سے بھرے ہوتے تھے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے لیکر ملک کے دور دراز کونوں تک ایکڑوں اور مربعوں کے سودے تو دور کی بات ایک انچ کی بھی بازگشت سنائی نہ دی‘ نہ کہیں بندہ پروری کا اشارہ ملا نہ بندہ نوازی کا۔ ماضی کی سبھی بدعتوں اور بہتی گنگاؤں پر بند باندھ کر تاریخ ساز اقدامات اس جذبے اور نیت سے جاری ہیں جس کی ضرورت تو شدت سے رہی ہے لیکن احساس کا اعزاز قدرت نے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر ہی کو بخشا ہے۔ افغان مہاجرین کی واپسی کے کڑے اور بڑے اقدام سے لے کر معیشت کے لیے زہر قاتل سمگلنگ جیسے ناسور کے خلاف بلا امتیاز گرینڈ آپریشن اور دوست ممالک کے دورے جہاں معاشی اشاریوں کو بلند کرنے کا باعث ہیں وہاں ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدگی میں کمی مثالی تعلقات کی طرف بڑا سنگِ میل ہے۔ بالخصوص پاک چین دوستی اور سی پیک منصوبے پر اَٹی گرد جھاڑنے کے علاوہ وہ تحفظات بھی دور کیے جا چکے ہیں جو اس قیمتی دوست ملک سے دوری کا باعث بن رہے تھے۔ اس تناظر میں جہاں اقتصادی استحکام کی اُمید اور امکان روشن ہوتے چلے جا رہے ہیں وہاں ریاست کے دیگر ذمہ داران پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاک فوج کی اس مہم جوئی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے کردار ضرور ادا کریں۔
بیوروکریسی کو لاحق تحفظات اور خدشات چیئرمین نیب دورکر ہی چکے ہیں‘ سرکاری بابو اب تو کچھ کر دکھائیں۔ اسی طرح سول سوسائٹی کو بھی سولائیزڈ ثابت کرنے کی اشد ضرورت ہے‘ بھیڑ چال اور اشتعال انگیزی کی رو میں بہنے والے ذمہ دار شہری ہرگز نہیں ہوتے جبکہ سیاسی اشرافیہ کے کارناموں اور کرتوتوں کے لیے تو کئی کالم بھی ناکافی ہوں گے۔ مزید تمہید کے بجائے یہ تقابلی جائزہ سنگینی اور نزاکت کی بہتروضاحت کر سکتا ہے کہ عالمی درجہ بندی میں پاک فوج 7ویں نمبر پر‘ عدلیہ 129ویں نمبر پر جبکہ کرپشن کی میراتھن میں پاکستان 139 ممالک سے آگے ہے۔ ریاست سے مستفید تو سبھی ستون برابر ہو رہے ہیں لیکن کارکردگی اور ذمہ داری کے تناظر میں کون کہاں کھڑا ہے‘ کوئی انہیں بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔