''نئے پاکستان ‘‘کے ایڈوینچر نے مملکتِ خداداد کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ نیا تو رہا نہیں اب ڈھونڈے سے پرانا بھی نہیں مل رہا۔ ہنرمندانِ سیاست کے یکے بعد دیگرے تجربات کے نتائج ملک کے طول و عرض میں جابجا دکھائی تو دے رہے ہیں لیکن کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ پانچ سال قبل نیا پاکستان اس طرح بنایا گیا کہ چند ماہ میں ہی پرانا پاکستان یاد آنا شروع ہوگیا۔ تقریباً ڈیڑھ سال قبل دوبارہ پرانے پاکستان میں لوٹے تو نہ نیا ملا نہ پرانا۔ خدا خدا کر کے حالیہ حکمران اتحاد کے اقتدار کے دن پورے ہوئے تو راج نیتی نگرانوں کے ایسے ہتھے لگی کہ منطق اور جواز سے محروم شوقِ حکمرانی اس طرح طوالت اختیار کرتا چلا گیا کہ آئین اور ضابطے تاحال حیران اور گم سم ہیں۔ گورننس مسلسل شرمسار ہے تو میرٹ بدستور تار تار جبکہ انتظامی ڈھانچہ تو بتدریج ڈھانچہ ہی بنتا چلا گیا۔ امورِ حکومت چلانے والے نگران حکمران ہوں یا سہولت کار سرکاری بابو‘ سبھی پر جانبداری اور وابستگیوں کے سوالات مزید کڑے ہوچکے ہیں۔ وفاقی کابینہ میں شامل دو سابق سرکاری بابوؤں کو ہٹانے کی درخواست پر سماعت بھی جاری ہے۔ سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو انتخابات ڈی ریل کرنے سے منسوب کر کے معطل کر ڈالا ہے ‘اب انتخابات منعقد کروانے کی ذمہ داری انہی سرکاری بابوؤں پر آن پڑی ہے جن کی غیر جانبداری پر سنگین سوالات کے علاوہ شدید تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔
انتخابی شیڈول جاری ہوتے ہی تقرریوں اور تبادلوں پر پابندی لگنے کے بعد اُن سبھی سرکاری بابوؤں کی تبدیلی کا امکان بھی ختم ہو چکا ہے جن کے زیر انتظام انتخابات پر ایک سیاسی پارٹی تحفظات رکھتی ہے‘ تاہم شفاف اور یکساں لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ مزید شدت اختیار کرتا نظر آرہا ہے۔ عمران خان نے افتادِ طبع اور ہٹ دھرمی سے مجبور ہو کر قبل از وقت دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے جو چال چلی تھی وہ اس طرح اُلٹی پڑی کہ سب کچھ الٹ پلٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ہاتھوں سے نکلتا ہی چلا گیا۔ حکومت کیا گئی پارٹی اور سیاست کے بھی لالے پڑ گئے‘ دونوں صوبے آئینی اور قانونی جواز کے بغیر حکمرانی کے نام پر اودھم مچائے ہوئے ہیں۔ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی الیکشن لڑنے کے لیے مستعفی ہو چکے ہیں‘ آگے آگے دیکھئے منہ کو لگا اقتدار مزید کس کس کو مجبور کرتا ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے تو ایک نگران وزیراعلیٰ کو بھی مستقبل کی راج نیتی اور کوئے سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ انتخابی شیڈول آنے کے بعد الیکشن کمیشن کی سرگرمیاں تیز تر ہوگئی ہیں جبکہ انتخابی اُمیدواروں کی بھاگ دوڑ بھی طوفانی ہوتی چلی جا رہی ہے۔
دو روز قبل ہی سقوطِ ڈھاکہ کی برسی گزری ہے‘ باون برس بیت گئے لیکن ہم انہی بھول بھلیوں میں بھٹکنے کے علاوہ بھرپور مستقل مزاجی کے ساتھ جوں کے توں اور وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ نصف صدی پہلے بھی شفاف انتخابات کا مطالبہ تھا‘ آج بھی وہ مطالبہ جوں کا توں ہے۔ عوامی رائے اور انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کا خمیازہ ہم آدھا ملک گنوا کر پہلے ہی بھگت چکے ہیں۔ مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے ایک بار پھر بساط بچھائی جا رہی ہے‘ مہرے‘ پیادے اور چالیں برابر چلی جا رہی ہیں۔ تاریخ اور صحافت کا طالب علم ہونے کے ناتے شفاف انتخابات سے خاصہ خائف ہوں‘ کہیں ایسا نہ ہوجائے‘ کہیں ویسا نہ ہو جائے کیونکہ قائداعظم کی طرف سے آزاد مملکت کا آدھا احسان تو ہم نے ابتدائی 24سالوں میں ہی اُتار ڈالا تھا‘ باقی ملک کا حشر نشر کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر شب و روز جاری ہے۔
شفاف انتخابات سے خائف ہونے کی وجوہات اور توجیہات کے علاوہ مزید دانشوری کے بجائے سال رواں کے ابتدائی مہینوں میں شائع ہونے والا ایک کالم ''شفاف انتخابات کا خوف‘‘ مجھے لاحق خدشات‘ خوف اور وسوسوں کی بہتر وضاحت اور استعارہ ہو سکتا ہے: ''پون صدی بیت چکی ہے اقلیت اکثریت کو غلام بنائے وہ مینڈیٹ انجوائے کر رہی ہے جو اکثریت نے اسے کبھی دیا ہی نہیں۔ نہ سمت کا تعین کیا ہے نہ منزل کا پتا‘ من مانی ہی طرزِ حکمرانی بن جائے تو آئین میں پیوند اور قوانین میں نقب کیسے نہ لگیں؟ دوسری طرف عوام شخصیت پرستی کی مہلک بیماری میں اس طرح گِھر چکے ہیں کہ کہیں اپنے اپنے بت کی پرستش جاری ہے تو کہیں طواف‘ عوام اپنے محبوب قائدین کی نیت اور ارادوں سے بے خبر ہیں تو کہیں سب کچھ جانتے بوجھتے اندھی تقلید میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ رہبر کون ہے‘ راہزن کون۔ آزمائے ہوؤں کو پھر آزمانے جا رہے ہیں‘ لٹیروں کے ہاتھوں پھر لٹنے جا رہے ہیں‘ سیاست کو تجارت بنانے والے پھر منڈی لگائے ہوئے ہیں۔ خواب فروش تعبیر سے محروم سہانے خواب دکھانے پھر آگئے ہیں‘ دھوکا منڈی لگ چکی ہے‘ جھانسوں اور دھوکوں کے سودے سجائے جا چکے ہیں۔ صفر کارکردگی اور نامعلوم اہلیت کے باوجود ایک بار پھر ووٹ کے طلبگار ہیں۔ عوام ہر بار کی طرح لٹنے‘ مٹنے اور برباد ہونے کو پھر تیار ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ عوام کو ان سے ڈسے جانے کی لت پڑ چکی ہے۔ تازہ ترین منظرنامہ بھی ماضی کے ادوار کا تسلسل لگتا ہے‘ ہم تو اس خوف سے غیر جانبدار انتخابات کی دعا بھی نہیں مانگتے کہ مملکتِ خداداد کے'' واحد شفاف‘‘ انتخابات کے نتیجے میں ملک دولخت ہو گیا تھا۔‘‘ اب تو ہمارے پاس لٹانے اور گنوانے کو بھی کچھ نہیں ‘ تاریخ کے پوشیدہ گوشے کھلنے کے بعد سبھی بھید بھی کھل چکے ہیں۔ انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی ہٹ دھرمی سے ملک دشمن قوتوں اور ہمسایوں نے اس طرح فائدہ اٹھایا کہ آدھے ملک کا خسارہ ہی ہمارا نصیب بنا ڈالا۔ 50سال کی پختہ عمر میں جس ملک کا آئین غیر فعال اور معزول دکھائی دیتا ہو وہاں 52سال بعد بھی متوقع عام انتخابات سے خدشات کی بازگشت کیوں نہ سنائی دے؟ خدا خیر کرے میرے آشیانے کی!
اقتدار کی دھینگا مشتی اور عوامی مینڈیٹ کا عدم احترام وہ سنگین غلطی بن گیا جس کا ازالہ ناممکن اور پچھتاوا اگلی نسلوں تک منتقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ اقتدار کی شدت طلب اس قدر بے حال کیے ہوئے ہے کہ عوامی مقبولیت کے حامل ہو یا محروم سبھی ہر قیمت پر برسر اقتدار آنا چاہتے ہیں۔ جگاڑ اور حربوں سے لے کر ہتھکنڈے آزمانے سے بھی گریز نہ کرنے والے سماج سیوک نیتا پہلے ہی ملک کو انگار وادی بنا کر تحمل‘ برداشت اور رواداری جیسے رویوں کو بھسم کر چکے ہیں۔ ملک کی خیر مانگنے کے بجائے اپنی اپنی دنیا سنوارنے کی دھن میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں عوام کی حالتِ زار کا احساس ہے نہ خیال۔ ان کے منشور ہوں یا ایجنڈے اور نظریات سبھی حصولِ اقتدار اور طولِ اقتدار کے گرد ہی طواف کرتے ہیں۔ عوام کی محرومیوں کو اور بھوک کو اتنا نہ بڑھا ڈالیں کہ وہ حاصل اور لاحاصل سے ہی بے نیاز ہو جائیں۔ ماضی کو پیٹنے اور بیچنے کے بجائے تھوڑا سبق اس ہونی کو روکنے کے لیے حاصل کر لیں جسے شاید کل روکے بھی نہ روک پائیں۔ بقول منیر نیازی:
جو ہویا اے ہونا ای سی
تے ہونی روکیاں رکدی نئیں
اِک واری جدوں شروع ہو جاوے
گل فیر ایویں مکدی نئیں