سوشل میڈیا پر اُدھم کا سماں ہے۔ لمحہ بہ لمحہ جنگی اَپ ڈیٹ سے لے کر ٹرمپ کی فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات پر دور کی کوڑیاں لانے سے لے کر طرح طرح کے راز و نیاز افشا کیے جا رہے ہیں۔ ایران اور اسرائیل میں جاری جنگ جہاں شدت اختیار کرتی چلی جا رہی ہے وہیں بھرپور امریکی مداخلت کے امکانات بھی پکڑے نہیں جا رہے۔ ٹرمپ نے تو اگلا ہفتہ اہم قرار دے ڈالا ہے۔ ان سبھی کارروائیوں کے دوران فیلڈ مارشل کی امریکہ میں موجودگی کئی اعتبار سے اہم اور معنی خیز ہے۔
صدر ٹرمپ کے پاکستان کے واری واری جانے کی خبریں جہاں خوش گمانی کا باعث ہیں‘ وہاں یہ دھڑکا بھی لاحق ہے کہ امریکہ سے خیر کی خبر کم ہی آئی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے سبھی سربراہانِ مملکت مخصوص حالات میں امریکہ یاترا کرتے رہے ہیں۔ اپنے دورے کو کامیاب سفارتی فتح قرار دینے کے علاوہ پاک امریکہ تعلقات کو مثالی ثابت کرنے کے لیے کیسے کیسے جتن اور حیلے بھی کرتے رہے مگر ا س کے باوجود عملی طور پر تہی دست ہی رہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان امریکی دورے پر گئے تو اچانک بڑی خبر دے ڈالی کہ امریکہ نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر دی ہے۔ جس پر ان کی جماعت کے حامیوں کی طرف سے وہ دھمال ڈالی گئی کہ الامان و الحفیظ۔ انہوں نے اس دورے کو 'تاریخ ساز‘ ثابت کرنے کے لیے سرکاری وسائل سے لے کر نجانے کون کون سے حربے بھی استعمال کر ڈالے۔ جشن کا ایسا سماں تھا کہ ذرائع ابلاغ پر دانشوروں سے لے کر سفارتی ماہرین نے عقل و دانش کے جوہر بکھیرنے کے ساتھ ساتھ ایسی ایسی پیش گوئی کر ڈالی جو بمشکل چند دن ہی نکال سکی۔ اُس وقت بھی میرا ایک ہی سوال تھا کہ امریکہ سے لے کر کیا آئے ہیں اسے چھوڑیں‘ قوم کو فقط یہ بتائیں کہ دے کے کیا آئے ہیں؟ عمران خان وطن لوٹ کر کامیاب امریکی دورے کے سحر سے ابھی نکلے بھی نہ تھے کہ بھارت نے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کر کے کشمیر کی مخصوص حیثیت کو ختم کر ڈالا۔ خدا جانے عمران خان کو امریکہ بہادر نے کیا کہا اور وہ کیا سمجھے۔ امریکہ سے مذاکرات میں زیر بحث موضوعات کی تشریح اور ترجمے کا ہنر اچھے اچھے ہنرمندوں کے پاس بھی نہیں ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ خفیہ پیغام ڈی کوڈ کرنے والے ہی کچھ اخذ کر سکتے ہیں۔ گویا کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کے بعد امریکی صدر نے حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ فیلڈ مارشل سے ملاقات میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ تعریفی اور ستائشی کلمات کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ پاکستان ایران کو دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتر طور پر جانتا ہے۔ دو گھنٹے کی اس ملاقات میں صدر ٹرمپ نے مہمان نوازی کے علاوہ خوب پذیرائی بھی کی۔ اس تاریخی اور منفرد ملاقات کے چرچے ہوں یا گونج‘سبھی کے تانے بانے خطے کے امن اور مستقبل سے جا ملتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف پہلے ہی امریکی صدر کو اَمن کا داعی قرار دے چکے ہیں‘ لیکن اس لقب کی خبر شاید امریکی ایوانوں تک نہیں پہنچی۔ اس تمہید کی جمع تفریق کریں یا اسے اُلٹا پلٹا کر دیکھ لیں تو تان کچھ یوں ٹوٹتی ہے:
یونہی روز ملنے کی آرزو بڑی رکھ رکھاؤ کی گفتگو
یہ شرافتیں نہیں بے غرض اسے آپ سے کوئی کام ہے
کہاں اب دعاؤں کی برکتیں وہ نصیحتیں وہ ہدایتیں
یہ مطالبوں کا خلوص ہے یہ ضرورتوں کا سلام ہے
ماضی میں امریکی مطالبے ہوں یا فرمائشیں‘ سبھی کے عذاب و عتاب قوم نسل در نسل بھگتتی چلی آئی ہے۔ جنرل ضیا الحق نے افغان جہاد کے نام پر جو تحفے قوم کو دیے ان میں سے بیشتر ناسور بن کر آج بھی ملک کے کونے کونے سے رِستے دکھائی دیتے ہیں۔ کلاشنکوف اور ہیروئن جیسے عذاب اپنی جگہ‘ افغان مہاجرین کی تیسری نسل آج نکالے نہیں نکالی جا رہی ہے۔ ملک کے طول و عرض میں ان کی جائیدادیں ہوں یا وسیع و عریض کاروبار‘ قابلِ اعتراض سرگرمیاں ہوں یا دھونس اور اجارہ داری‘ یہ سبھی وبال دھمال ڈالے ہوئے ہیں۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر ''ڈو مور‘‘ کے مطالبے کو اس طرح نصب العین بنایا کہ غیرتِ قومی سے لے کر شخصی آزادی سمیت شہریوں کے بنیادی حقوق بھی بیچ ڈالے۔ قوم کو پتھر کے دور سے ڈراتے ڈراتے ایسے پتھر دِل ہوئے کہ تفصیل میں جائیں تو ایسے کئی کالم ناکافی ہوں گے۔ وقت کا پہیہ آج پھر اُسی دوراہے پر لے آیا ہے۔ بقول شاعر: یہ تو وہی جگہ ہے‘ گزرے تھے ہم جہاں سے۔
اس وقت پوری قوم کی نظریں فیلڈ مارشل عاصم منیر پر مرکوز ہیں۔ دوراہے پہ کھڑے ملک کو کس راستے کا انتخاب کرنا ہے‘ یہ ان کے وژن اور مردم شناسی کے مرہونِ منت ہے۔ پارلیمان سمیت پوری قوم کی ترجمانی کی ذمہ داری اب انہی کے توانا کندھوں پر آن پڑی ہے۔ مملکتِ خداداد کے ایوانوں میں پُراسرار خاموشی خوف اور خواہش کے درمیان جھولتے پینڈولم کا استعارہ دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں چین کی دبنگ اور ڈرامائی انٹری نے وہ سکوت توڑ ڈالا ہے‘ جس کی ہیبت کا دائرہ لمحہ لمحہ پھیلتا چلا جا رہا تھا۔ چینی صدر نے اقوامِ عالم پر برملا واضح کیا ہے کہ کوئی سلطنت ہمیشہ نہیں رہتی‘ دنیا امریکہ کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔ امریکی دھاک میں سہمے اور دبکے ممالک کے لیے چین کا یہ انتباہ ہوش مندی کے لیے کافی ہے۔ تاریخ کے اوراق الٹیں تو چینی صدر کا یہ کھلا پیغام زمین پر شوقِ حکمرانی پورے کرنے والوں کی اصل اوقات کا ڈی این اے ہے۔
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
خلافتِ عباسیہ کی بات کریں یا خلافتِ عثمانیہ کی‘ مغل سلطنت کی بات کریں یا منگولوں کی‘ سلطنت ہسپانیہ کی بات کریں یا سلطنتِ فرانس کی‘ سوویت یونین کا ذکر کریں یا چین کی سپر پاور اور صفوی سلطنت کا‘ زوال عروج کو نہیں غرور کو ہے۔ کس کس کا نام لوں؟ تاجِ برطانیہ کے طول و ارض کا یہ عالم تھا کہ سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ مجموعی طور پر ہزاروں سال نسل در نسل حکمرانی کرنے والوں کا خاصہ گھمنڈ‘ تکبر‘ سفاکی اور بے رحمی ہی رہا ہے‘ ماں جائیوں سے لے کر جانثاروں تک کس نے کس کو بخشا ہے؟ ان سبھی کے آگے امریکہ کی منہ زوری ہو یا سینہ زوری‘ زیادہ سے زیادہ کیا معنی رکھتی ہے؟ امریکہ بہادر خود سری کے گھوڑے پر سوار اسرائیل کی حمایت میں ایران کے خلاف جارحانہ روّیہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ایران کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے جواز و اسباب گھڑے اور تراشے جا رہے ہیں جبکہ مسلم اُمہ اپنی باری سے بے نیاز ڈھکی چھپی اور لفظی حمایت پر مجبور نظر آتی ہے۔ ایران پر کھلے امریکی حملے کی صورت میں چینی صدر نے متوقع صورتحال کا پرچہ آؤٹ کر دیا ہے۔ ایسی صورت میں خطے کا توازن بھی بگڑ کر درست ہو سکتا ہے۔ اہم ترین یہ ہے کہ دوراہے پر کھڑے سبھی ممالک کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں؟