محلاتی سازشوں سے لے کر غلام گردشوں سمیت من مانی کی حکمرانی کے علاوہ گورننس کی دھول اڑاتے ریکارڈ توڑ مسالے کالم کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہیں۔ صدرِ مملکت کی رخصتی کی چہ مگوئیاں باقاعدہ مباحثے کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے حامی تو ہنرمندانِ ریاست کو یہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ آصف زرداری کے بغیر نظام نہیں چل سکتا۔ انہوں نے رخصتی کی دو ٹوک تردید کے بجائے زرداری صاحب کی اہمیت اور افادیت باور کروانے پر زور دے رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل نیّر حسین بخاری کے چشم تصور سے تو مائنس پیپلز پارٹی کوئی حکومت بنتی اور چلتی نظر نہیں آتی۔ بخاری صاحب کی جمع تفریق پارٹی قیادت کی خوشنودی کو ضربیں ضرور لگا سکتی ہے لیکن زمینی حقائق جوں کے توں منہ چڑاتے رہیں گے۔ خاطر جمع رکھیں! مملکتِ خداداد کا نظام شخصیات کے سحر اور گرفت سے نکل کر کچھ اس طرح آٹو پر شفٹ ہو چکا ہے کہ کسی کا آنا جانا کوئی معانی نہیں رکھتا۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو کیسے کیسے ناگزیر‘ نجات دہندہ اور عوام کے محبوب لیڈر قصۂ پارینہ بنتے بنتے اپنے پیروکاروں کے ہاتھوں ہی فراموش ہو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اپنی مقبولیت اور غیرمعمولی عوامی پذیرائی کے باوجود نظام سے اس طرح آؤٹ ہوئے کہ جیسے کبھی آئے ہی نہیں تھے۔ بھٹو صاحب کو ذاتی خواہشات اور ایجنڈوں کے زیر اثر پھانسی جیسے انتہائی انجام سے دوچار کرنے والے کس طرح اپنی کرسی کی مضبوطی کے دعوے کیا کرتے تھے۔ گیارہ سال سیاہ و سفید پر اختیار رکھنے والے ضیا الحق فضائی حادثے کے نتیجے میں سسٹم سے آؤٹ کیا ہوئے‘ وقت کا پہیہ اس طرح گھوما کہ سبھی تدبیریں اور ترکیبیں روندتا ہوا پیپلز پارٹی کے پاس آ رکا۔ اسی طرح دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والی بے نظیر بھٹو صاحبہ طویل جلاوطنی کے بعد میثاقِ جمہوریت کے تحت وطن واپس لوٹیں تو عوام کی بے پناہ پذیرائی کے باوجود نظام میں دوبارہ شامل نہ ہو سکیں اور ایک عوامی اجتماع میں جان کی بازی ہار گئیں۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو نظام سے آؤٹ کرنے والے جنرل پرویز مشرف مکے لہرا کر بڑھکیں مارا کرتے تھے کہ میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں۔ وقت کا پہیہ ایک بار پھر ایسا گھوما کہ جس نواز شریف کو تحریری معاہدے کے تحت خاندان سمیت جلاوطنی سے دوچار کیا تھا‘ اُنہی نواز شریف صاحب کو نظام میں واپس آکر اقتدار کا حصہ بننے سے نہیں روک سکے۔ جنرل مشرف نے جن سیاسی شخصیات پر ملک کی زمین تنگ کی پھر اُنہی کے سامنے ٹھہر نہ پائے۔ ایوانِ صدر سے رخصتی دیس نکالا کا باعث بنی۔ جن کی مرضی کے بغیر اس ملک میں پتا بھی نہیں ہلتا تھا انہوں نے سنگین مقدمات کا سامنا کرنے کے بجائے پردیس بیٹھ کر انتہائی تکلیف دہ بیماری میں زندگی کے دن پورے کیے۔ جس نظام پر نیّر حسین بخاری صاحب نازاں اور اترائے پھر رہے ہیں‘ اسی نظام نے زرداری صاحب کو کمپنی سمیت اور نواز شریف کو خاندان سمیت ایوان سے زندان میں جا پہنچایا تھا۔ اسی نظام کا کرشمہ ہے کہ زندان سے ایوان میں آ پدھارے ہیں‘ اب یہی نظام زرداری صاحب کی رخصتی کی افواہوں کو ہوا دے رہا ہے جبکہ مسلم لیگ(ن) اس معاملے سے خود کو الگ اور لاتعلق رکھے ہوئے ہے۔ گویا: خاموشی ہی بہتر ہے‘ یہ خاموشی کس کے حق میں کتنی بہتر ثابت ہو گی اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔
عمران خان بھی اسی مغالطے میں خطا کھا گئے اور اس گمان میں مبتلا رہے کہ ان کی حکومت عوامی پذیرائی اور مینڈیٹ کا نتیجہ ہے جبکہ واقفانِ حال سمیت سبھی جانتے ہیں کہ عمران خان کو دھرنوں سے نکال کر اقتدار میں کون اور کیسے لایا تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ بھی بدترین طرزِ حکمرانی کے ریکارڈ ریکارڈ مدت میں توڑنے کے بعد نظام میں انجینئرنگ کرنے لگے ‘ نتیجے میں مقبولیت کے باوجود قبولیت سے ہاتھ دھو کر ایوان سے زندان میں جا پہنچے۔
راج نیتی کا یہ نظام بہت بے رحم اور سفاک ہے‘ یہ اپنے سافٹ ویئر اور پروگرام کے مطابق ہی کام کرتا ہے۔ غیرموافق اور ڈبل کراس جیسے خطرات سات پردوں اور بندکمروں سے بھی بھانپ لیتا ہے۔ غلطی اور معافی کی گنجائش سے بے نیاز یہ نظام کسی کو ناگزیر اور حتمی حیثیت دینے سے ہمیشہ گریزاں ہی رہا ہے۔ زرداری صاحب کی رخصتی کی افواہیں گرم خبر بنتی چلی جا رہی ہیں‘ ان کی صداقت اور صحت کا فیصلہ بھی نظام نے ہی کرنا ہے۔ تاہم دور کی کوڑی لانے والوں کے مطابق نہروں کے معاملے پر سندھ اسمبلی میں قرارداد اور دوٹوک مؤقف کے علاوہ شدید احتجاج کے بعد خود کار نظام نے اس Glitch پر کام شروع کر دیا تھا۔ اس نظام میں ایک غلطی کی معافی شاید مل جاتی ہے لیکن مسلسل غلطیوں‘ اصرار اور ضد کا انجام ہمیشہ بھیانک اور ڈراؤنا ہی رہا ہے۔ ماضی کے سبھی حکمران اس نظام کی ریڈ لائن چھو کر اعتبار کے حادثے میں مار کھاتے چلے آئے ہیں۔ گویا سبھی غلطیوں سے اجتناب کے بجائے انہیں دہرانے کی ضد اور اصرار پر ہی بضد رہے۔ نیّر بخاری صاحب خاطر جمع رکھیں! آپ کی پارٹی کے بانی چیئرمین سمیت نجانے کیسے کیسے ناگزیروں کے بغیر نظام بھی چل رہا ہے اور حکمران بھی اپنی اپنی باری پر آجا رہے ہیں۔ مملکتِ خداداد کے میلے ٹھیلے یونہی چلتے رہیں گے اور آنے جانے والے بھی آتے جاتے رہیں گے‘ سسٹم کی فکر نہ کریں۔
کچھ احوال تختِ پنجاب کا بھی‘ بات گورننس کی ہو اور حکومتِ پنجاب کا ذکر نہ آئے؟ ایک ٹی وی چینل پر چلنے والی خبر کے مطابق محکمہ بہبودِ آبادی کو پرائمری ہیلتھ میں ضم کرنے کا پہلا نتیجہ آ چکا ہے۔خبر کے مطابق بہبودِ آبادی کی آٹھ لگژری گاڑیاں جادوئی طور پر غائب ہیں۔ ان میں سے پانچ گاڑیاں ایک ہی سرکاری گھر میں پارک ہونے کے بارے میں صاحبانِ اختیار جانتے بوجھتے انجان بنے پھرتے ہیں اور دیگر تین گاڑیاں بھی حصہ بقدر جثہ کی نذر ہو چکی ہیں جبکہ لیپ ٹاپ سمیت دیگر قیمتی سامان بھی بندر بانٹ کے فارمولے کے تحت خورد برد ہے۔ شنید ہے کہ صحتِ عامہ کی ذمہ داریوں پر مامور مٹھی بھر سرکاری بابوؤں نے جھولیاں بھرنے کے علاوہ سال 2022-23ء میں سات کروڑ روپے کا پٹرول آنیوں جانیوں میں اُڑا ڈالا جبکہ ایک اور بڑے صاحب کی سرکاری گاڑی کے پٹرول کی مد میں جو ہوشربا رقم خرچ ہوئی اس کی جمع تفریق کا حاصل یہ ہے کہ صاحب کی گاڑی اگر 24گھنٹے بھی سرپٹ دوڑائی جائے تو پٹرول کا بل معمہ ہی رہے گا۔ نام کی تبدیلی کے ساتھ پنجاب بھر کے بنیادی و دیہی مراکز صحت اور تحصیل و ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کلی طور پر جبکہ ٹیچنگ ہسپتالوں میں ڈائیگناسٹک سروسز سمیت بیشتر اہم شعبے بھی آؤٹ سورس کر دیے گئے ہیں۔ اگلے مرحلے میں نئے ایکٹ کے تحت ٹیچنگ ہسپتالوں کے انتظامی اختیارات سات پرائیویٹ ممبران کی نگرانی میں سونپے جا رہے ہیں جن کی اہلیت اور قابلیت کا معیار تاحال پوشیدہ ہے جبکہ مریضوں سے متعلق ہسپتال کی سٹیشنری پر حکومت کی باتصویر برانڈنگ بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سرکار عوام کی صحت کو لے کر کس قدر سنجیدہ ہے۔ ان سبھی اقدامات کو ڈی کوڈ کیا جائے تو محکمہ صحت کو چلانے والے سرکاری بابو بھی سرپلس ہی نظر آتے ہیں۔ ان بابوؤں کی جگہ اگر شعبۂ طب سے متعلق اعلیٰ ماہرین کو موقع دیا جائے تو سرکاری وسائل پر بھاری بوجھ اور اَللّے تللّوں سے بخوبی جان چھوٹ سکتی ہے۔ صحت عامہ کے عالمی ماڈل میں ان سرکاری بابوؤں کا کردار اور جواز ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔