"AAC" (space) message & send to 7575

شہری حقوق اور سکیورٹی اقدامات

پچھلے آٹھ دنوں میں پشاور میں ہارون بلور کے انتخابی جلسہ، بنوں میں سابق وزیر اعلیٰ اکرم درانی کے قافلے پہ ریموٹ کنٹرول ڈیوائس اٹیک اور بلوچستان کے شہر مستونگ میں بی اے پی کے امیدوار سراج رئیسانی کی انتخابی تقریب میں خود کش دھماکے سے لگ بھگ تین سو افراد کی شہادت کے بعد خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں انتخابی مہمات کی ہموار روانی دشوار ہو گئی۔ نیکٹا نے ملک کی تمام بڑی جماعتوں کی نمایاں لیڈرشپ کو خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے نقل و حمل محدود رکھنے کا مشورہ دیا، مالا کنڈ میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو انتخابی جلسہ کی اجازت نہیں ملی، سکیورٹی خدشات کے پیش نظر بنوں میں عمران خان کی ریلی بھی منسوخ کر دی گئی۔ اگرچہ انسانی سماج میں ایسی فطری لچک موجود ہوتی ہے، جس سے معاشرہ بڑی سے بڑی آفاتِ سماوی و دنیاوی کو جھیلنے کے باوجود اجتماعی حیات کے دھارے کو جلد ہموار بنا لیتا ہے، زخم جتنا بھی گہرا کیوں نہ ہو وقت کا مرہم رفتہ رفتہ اسے مندمل کر کے تلخیوںکو تجربات میں ڈھال کر زندگی کی توانائی بنا دیتا ہے‘ لیکن ایسے حالات میں نظمِ اجتماعی (مملکت) کا رسپانس نہایت اہم ہوتا ہے۔ افسوس کہ اس وقت دونوں صوبوں کی انتظامی اتھارٹی عضوِ معطل اور ان کی سکیورٹی حکمت عملی ناکام نظر آتی ہے۔
معروف عسکری دانشور میجر ریٹائرڈ عامر خان نے درست کہا کہ کم خطرات سے دوچار صوبہ پنجاب میں تو انتہائی تجربہ کار سابق آئی جی کو وزیر داخلہ بنایا گیا‘ مگر مہیب خطرات میں گھرے خیبر پختون خوا کا وزیر داخلہ کون اور کہاں ہے؟ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ نگران حکومت نے معلوم خطرات اور تھریٹ الرٹ بارے کتنے اجلاس اور کتنے اقدامات کیے۔ انہوں نے کہا: ایسا لگتا ہے، نگران صوبائی حکومت استحقاق رکھنے والوں کا اولڈ ایج ہاؤس ہے، جہاں دو ڈھائی مہینے وہ آسودہ زندگی اور لگژری پکنک منانے آئے ہیں۔ امرِ واقعہ بھی یہی ہے کہ خیبر پختون خوا کی نگران حکومت نے فرض کی ادائیگی کی بجائے مختصر سی مہلتِ عمل میں اپنی پوری قوت کو فقط مراعات کے حصول پہ مرتکز کر لیا، پولیس اور بیوروکریسی کے تبادلوں میں میرٹ کو بالائے طاق رکھ کے جس طرح پسند و ناپسند کو فوقیت دی گئی، اس پہ سول افسران کو خط لکھ کے وزیر اعلیٰ کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرنا پڑا، سکیورٹی لیپس کے نتیجے میں ہارون بلور سمیت پچیس افراد کی شہادت پہ خود مستعفی ہونے کی بجائے وفاق کو چیف سیکرٹری اور آئی جی پی کو تبدیلی کی سفارش کر کے نگران وزیر اعلیٰ نے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ پچھلے 20 سالوں سے دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور تشدد کی ہولناک وارداتوں کو بھوگنے کے باوجود خیبر پختون خوا پولیس ان ہمہ گیر مصائب کو اپنے ادارہ جاتی تجربات کا جُز بنا سکی‘ نہ سکیورٹی کا کوئی ایسا میکانزم تشکیل دینے میں کامیاب ہوئی، جس سے تشدد کی وارداتوں کو روکنے کے علاوہ شہریوں کی سماجی زند گی اور فطری آزادیوں کو متاثر ہونے سے بچایا جا سکے۔ بد قسمتی سے ایسے واقعات کے بعد ملزمان کے تعاقب کی بجائے انتظامیہ اپنے وجود کا احساس دلانے کے لئے پُرامن شہریوں کو ہراساں کر کے دہشت گردی کی جنگ کے دوران عوام کو پولیس سے عدم تعاون پہ مجبور کرتی ہے۔ اس اذیت ناک عمل کے دوران مایوسی کا شکار ہو کے کئی نوجوان مزاحمت پہ اتر آتے ہیں، جس سے سکیورٹی نظام کا ڈیٹرنٹ کمزور ہو رہا ہے، اس فرسودہ طرز عمل کی بدولت ہی سوات، مالا کنڈ اور بونیر جیسے حساس شہروں میں چیک پوسٹوں کے خلاف مظاہرے ہوئے، جس سے گھبرا کے کہیں انتظامیہ اور کہیں سپریم کورٹ کے حکم پہ ضروری و غیر ضروری چیک پوسٹیں ختم کر کے حفاظتی بندوبست کو مزید دگرگوںکر دیا گیا، خاص طور پہ پی ٹی ایم کے مطالبہ پر قبائلی علاقوں سے ہٹائی گئی چیک پوسٹوں کی وجہ سے پشاور، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے علاوہ بلوچستان کے ملحقہ اضلاع میں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کی ایسی مہیب لہریں اٹھیں جنہوں نے امن عامہ کو تہہ و بالا کر ڈالا۔ اس سے بھی بڑھ کے، خیبر پختون خوا میں مہیب دہشت گردی نے معاشرے کو ریگولیٹ کرنے والی سویلین فورس کی ہئیت ترکیبی ہی بدل ڈالی، پولیس جیسی کرائم فائٹنگ فورس اب عسکری فورس کی مانند غیر لچکدار رویّوں میں ڈھل کے نظر نہ آنے والے دشمن سے نبرد آزما ہونے کے خبط میں معاشرے کے فطری بانڈ کو توڑنا چاہتی ہے۔ تشدد کی ان لہروں میں اگرچہ ستّر ہزار سے زیادہ شہری جاں بحق، ہزاروں زخمی اور سینکڑوں عمر بھر کے لئے معذور ہو گئے‘ لیکن یہ ساری ٹریجڈی تو سماج کی فطری لچک میں تحلیل ہو گئی‘ اور افق کے اس پار جانے والے مظلوم شہریوں کے صرف اعداد و شمار باقی رہ گئے؛ تاہم پولیس کے شہدا کی یادگاریں اور چوکوں و چوراہوں پہ سجی قدِ آدم تصاویر ہمیں ہر روز فورسز کی قربانیوں کی یاد دلا کے اپنی پیٹھ پہ انتظامی کوڑے کھانے کی ہمت عطا کرتی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ معاشرہ اگر مدد نہ کرے تو پولیس کام نہیں کر سکتی‘ لیکن عہدِ جدید کے دہشتگردوں نے اپنی تزویری حکمت عملی سے پولیس فورس کو معاشرے کے خلاف صف آرا کر کے پیچیدہ صورت حال پیدا کر دی ہے۔ جب بھی کسی شہر میں دہشت گردی کی واردات ہو تو شہری سہم جاتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ پولیس دہشتگردوں کا پیچھا کرنے کی بجائے راہ گیروں کی جامہ تلاشیاں، موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پہ پابندی اور شہریوں کی نقل و حمل کو محدود کر کے سماجی آزادیاں چھین لے گی۔ 
دہشت گردی کی اس جنگ میں پولیس فورس کی پیش قدمی اور سماجی دبائو پہ پسپائی کے متذبذب عمل نے سکیورٹی پالیسی کی افادیت کو صفر کر دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ شہریوں کی حفاظت کے ان فرسودہ طریقوں نے ماحول میں ایسی گھٹن پیدا کر دی‘ جو اس بے مقصد جبریت کو کسی نا گہانی حادثہ سے دوچار کر کے سیاسی تشدد میں بدل دے گی۔ ناقدین کہتے ہیں کہ خیبر پختون خوا میں پچھلے بیس سالوں میں جنگ دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کے دوران پولیس نے لا شعوری قربانیوں کے عوض غیر معمولی مراعات اور لا محدود اختیارات تو سمیٹے لیکن ان اذیت ناک تجربات سے سیکھا کچھ نہیں جو سینکڑوں انسانوں کو نگل گئے۔ بلا شبہ پولیس اپنے تجربات و مشاہدات سے استفادہ کر کے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے سکیورٹی کا کوئی ایسا میکنزم تشکیل دے سکتی تھی‘ جس سے شہریوں کے بنیادی حقوق تلف کئے بغیر سماجی وظائف کا تحفظ ممکن بنایا جا سکتا تھا۔ علیٰ ہذالقیاس! دنیا بھر میں پولیس اور سکیورٹی ادارے شہریوں کے جان و مال اور عزت کی حفاظت کے لئے دن رات محو غم دوش رہتے ہیں لیکن وہاں بنیادی حقوق سلب ہوتے ہیں نہ شہری آزادیوں کو محدود کرنے پہ اصرار کیا جاتا ہے۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ کوئی شخص مرنے کے لئے پولیس میں بھرتی نہیں ہوتا، دنیا بھر میں پولیس کا ماٹو بھی یہی ہے کہ ''خدمت کے لئے زندہ رہو‘‘ لیکن یہاں سماجی جرائم تک محدود رکھنے کی بجائے ان ڈھیلے ڈھالے پولیس اہلکاروں کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونک کے انتہائی تربیت یافتہ اور جان پہ کھیلنے والی جنگجو تنظیموں کے خلاف صف آرا کر کے پورے سماجی بندوبست کو مضمحل کر دیا۔ اس خونیں کشمکش میں اعلیٰ پولیس افسران کو غیر محدود اختیارات اور غیر معمولی مراعات کے علاوہ فول پروف سکیورٹی بھی میسر رہی‘ لیکن فیلڈ میں کام کرنے والے سپاہی اور دور افتادہ علاقوں کی چیک پوسٹوں پہ دن رات ڈیوٹی پہ مامور اہلکاروں کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ دینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ بہتر یہ ہو گا کہ پولیس کو جنگ دہشت گردی کی جدلیات سے نکال کے سماجی جرائم کی بیخ کنی تک محدود رکھا جائے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انسان کی انفرادی جبلتیں ریاست کے قانونی ڈھانچے اور اس سماجی نظام سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں جس نے معاشرے کی حرکیات کو محیط کر رکھا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں