"AAC" (space) message & send to 7575

ٹرین پٹڑی پہ چڑھ گئی؟

ہماری سیاسی تاریخ میں 1970ء کے بعد شفاف اور غیر متنازعہ الیکشن کا انعقاد کرانے کی مثال نہیں ملتی۔ بد قسمتی سے سن ستّر کے شفاف الیکشن ایسے المناک انجام پہ منتج ہوئے تھے، جس سے ملک دو لخت ہوگیا‘ اس طرح جمہوریت بدنام اور ہماری ریاست آزادانہ انتخابات کے تصور سے خوفزدہ ہو گئی؛ چنانچہ ستّر کے بعد ہونے والا ہر الیکشن ہمیں دھاندلی کے الزامات سے آلودہ دکھائی دیتا ہے۔ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف پی این اے کی نظام مصطفیﷺ تحریک سے نظریہ پاکستان کی نشاۃ ثانیہ تو ہو گئی‘ لیکن ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دورِ آمریت میں سیاست میں مذہبی نظریات کی تلویث سے جنگجو گروپوں کی تشکیل اور تشدد کے رجحانات کی آبیاری ہوئی، جس کے مضمرات کو ہم چالیس سالوں سے بھگت رہے ہیں۔ کیا تحریکِ انصاف کی کامیابی ہماری سیاسی تاریخ کا فیصلہ کن موڑ ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ 1977ء میں قومی سیاست کی گاڑی جس پٹڑی سے اتری تھی، چالیس سال بعد وہ پھر اسی پرانی لائن پہ واپس چڑھ آئی ہے۔
امر واقعہ بھی یہی ہے کہ الیکشن دو ہزار اٹھارہ کے انتخابی نتائج نے قومی سیاست میں مذہبی جماعتوں کے کردار کا باب بند کر کے مملکت کو ایک بار پھر معمول کے اسی پُرامن عہد کی طرف موڑ دیا ہے، جو 1977ء سے پہلے یہاں رائج ہوا کرتا تھا، مذہب کو جس دروازے سے سیاست میں داخل کیا گیا تھا، اسی سے باہر کر دیا گیا، بلا شبہ تاریخ کی رفتار اور معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ بہ تسلسل اور متواتر تشدد اور من مانی کارروائیوں کا دائرہ تنگ اور صلح و امن کے خط میں توسیع ہوتی رہے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ شہباز شریف کی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں ماضی میں اس قسم کے انجینئرڈ انتخابات کے نتائج سے استفادہ کرتی رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی قیادت کو ملک بدر کر کے جنرل مشرف نے جب 2002ء کے انتخابات سے من مانے نتائج حاصل کئے تو اس کی سب سے بڑی بینافشری ایم ایم اے تھی‘ جس نے خیبر پختون خوا میں تنہا حکومت بنائی اور پیپلز پارٹی سے کم نشستوں کے باوجود قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈری کے لبادوں میں پانچ سال تک مشرف کے ساتھ شراکت اقتدار کے مزے لوٹے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008ء کے انتخابی نتائج بھی ایک طے شدہ فارمولا کے مطابق ڈیزائن کئے گئے، جسے طوعاً و کرہاً تمام جماعتوں نے قبول کیا۔ 2013ء کے انتخابات کو آر اوز کا الیکشن قرار دے کر لاک ڈائون اور دھرنوں سے مزیّن تحریک چلائی گئی۔ سیاست دانوں کو سمجھنا چاہیے کہ وقت کے دھارے کو واپس پلٹنا ممکن نہیں۔ اب وہ میسّر مواقع کو بروئے کار لا کے حالات کے جبر کا سامنا کریں‘ اور پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کے اعداد و شمار کی گیم کو بدلنے کی کوشش کریں۔ اس وقت مرکز میں جو پارٹی پوزیشن ہے‘ اس میں پی ٹی آئی کے لئے گورنمنٹ بنانا اور چلانا مشکل ہو گا۔ دوسرا‘ انتخابی نتائج نے بکھری ہوئی اپوزیش کو یکجا کر کے عمران کی آزمائش بڑھا دی؛ تاہم اجتماعی قومی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ مزاحمت کی راہ اختیار کرنے کی بجائے اپوزیشن مرکز میں قومی حکومت بنانے کے فارمولا پہ اتفاق رائے حاصل کرے۔ بہرحال! قطع نظر اس بحث کے کہ پی ٹی آئی کو اقتدار کیسے ملا، عمران کو موقعہ ملنا چاہیے کہ وہ اپنے ان وعدوں کی تکمیل اور خوابوں کی تعبیر پیش کر سکیں، جنہیں وہ بائیس سال سے دہراتے آئے ہیں۔ 
حیرت انگیز طور پہ پاکستان کے حالیہ الیکشن میں دنیا بھر کی غیر معمولی دلچسپی بھی محلِ نظر ہے، عالمی اخبارات نے بالعموم اور انڈین میڈیا نے بالخصوص جس طرح پری پول دھاندلی کو نمایاں کر کے بھارت اور مغرب کی طرف سے عمران خان کی مخالفت کا تاثر پیدا کیا، اندرون ملک اس سے تحریک انصاف کی ساکھ کو فائدہ پہنچا‘ اور عمران کو یہودی لابی کا مہرہ کہنے والی مذہبی جماعتوں کی پی ٹی آئی مخالف مہم کی دھار کند ہوتی گئی۔ عمران کو مغربی تہذیب کا نمائندہ ثابت کرنے والے سیاستدان یورپی میڈیا کی شوخ خبروں کو اپنے حق میں پیش کرکے لا شعوری طور پہ عمران خان کو مشرقی تہذیب کا فرزند بنا کے پیش کرتے رہے۔ ہمیں نئی حکومت کے ساتھ عالمی طاقتوں کے برتائو کا بھی باریک بینی سے جائزہ لینا ہو گا‘ کیونکہ یہاں آنے والی تبدیلی کی نوعیت کا تعین عالمی طاقتوں کے رویّوں سے کیا جائے گا۔ البتہ خیبر پختون خوا میں تبدیلی کا رنگ قدرے گہرا واقع ہوا، دہشتگردی، مذہبی و نسلی تشددکے ہاتھوں پامال سماج نے امن اور معاشی خوشحالی کی امید پہ پی ٹی آئی کا ساتھ دیا۔ ایک معروف پختون دانشور نے کہا ہے کہ ''دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں پختونوں نے پُرتشدد مذہبی سیاست اور نفرت و تعصب کی نقیب علیحدگی پسند پارٹیوں کو مسترد کر کے کراچی سے چترال تک پھیلی ملک گیر جماعت کو کامیاب بنا کر پاکستان پہ اپنی اونرشپ قائم کر لی، پی ٹی آئی سے توقع ہے، وہ دیرپا امن اور معاشی خوشحالی لا کر ہمارے مینڈیٹ کا حق ادا کرے گی‘‘۔ 
تمام تر تحفظات کے باوجود گرینڈ اپوزیشن بھی جمہوری روایات کی پختگی اور آئینی نظام کو آگے بڑھانے کی خاطر منتخب سویلین حکومت کا تختہ الٹنے سے اجتناب کرے‘ بصورت دیگر 19 سالوں پر محیط جمہوری جدوجہد کا وہ سفر رائیگاں چلا جائے گا‘ جس میں ہم بے نظیر بھٹو جیسی عظیم لیڈر گنوا بیٹھے، عالمی حالات کے تناظر میں یہی نا مطلوب سیاسی کشمکش قومی سلامتی کو ناقابل تلافی نقصان پہچانے کا سبب بن سکتی ہے۔ توقع ہے کہ ہمارے بالغ النظر سیاستدان وسیع تر قومی مصالح کے تحت 22 کروڑ عوام کو تشدد اور انارکی سے بچانے کی خاطر تحمل، برداشت اور حکمت سے پیش قدمی کریں گے۔ لا ریب، نواز شریف اور اس کی بیٹی نے جس ثابت قدمی کے ساتھ مشکلات کا سامنا کیا‘ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہماری قومی قیادت کسی بزدل کنواری بڑھیا کی مانند دنیا کے آلام سے خوفزدہ ہو کے کنجِ عافیت میں پناہ تلاش کرے گی‘ نہ ان کی تابناک آنکھیں دن کی روشنی سے خائف ہوں گی، اب وہ خطرات سے نمٹنے اور جمہوریت کے غلبہ کی جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے تیار ہو چکی ہے لیکن اسے معلوم ہونا چاہیے کہ غیر شفاف انتخابات کے وسیلے سے برسر اقتدار آنے کے باوجود تحریک انصاف کی گورنمنٹ ایک صحت مند تبدیلی ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ قوم، جو مذہب کی پکار کو بہت جلد سنتی ہے، اسے معمول کے سماجی وظائف کی طرف واپس لانا بہت کٹھن کام تھا۔ ہمارے جمہوریت پسند سیاست دانوں میں اتنی سکت کہاں تھی کہ وہ اپنی مساعی سے ملکی سیاست کے جمود کو توڑ کے جمہوری آزادیوں اور تہذیبی نشوونما کی افزائش کو ممکن بناتے، یہ ''تحریک انصاف‘‘ ہی تھی‘ جس نے سماجی جمود کو توڑ کے معاشرے کو کھلی فضا میں سانس لینے کا ماحول فراہم کیا۔
بلا شبہ ہمیں حقیقی جمہوریت اور وہ سماجی آزادیاں ایک دن میں واپس نہیں مل سکتیں‘ جن کی ایک جھلک ستّر کی دہائی میں نظر آئی تھی، قوموں کی زندگی میں پانچ سال کوئی زیادہ طویل مدت نہیں سمجھے جاتے، اس لئے سیاستدانوں کو قدم بہ قدم آگے بڑھنے کی حکمت عملی پہ اکتفا کرنا پڑے گا۔ اپوزیشن انتخابی دھاندلیوں کے خلاف پرامن احتجاج ضرور جاری رکھے لیکن آئینی و قانونی پیچیدگیوں اور تقسیمِ اختیارات کے فارمولے کی اصلاح کے لئے نو منتخب حکومت کو تعاون پیش کر کے ان آہنی زنجیروں کو توڑنے کی راہ بھی نکالے جن کے ذریعے آمروں نے آئینی نظام کو پا با جولاں بنائے رکھا، متحدہ اپوزیشن پی ٹی آئی گورنمنٹ سے مل کرمتنازع آئینی شقوں میں ترامیم کرا سکتی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں