"AAC" (space) message & send to 7575

امیدیں بر آئیں گی؟

حالیہ معاشی بحران ہمارے لئے کوئی نئی مشکل نہیں جس کا ہمیں پہلی بار سامنا ہو۔ ہر پانچ دس سال بعد اس مملکت کو اسی نوعیت کا شدید ترین مالی بحران لپیٹ لیتا ہے اور یہی مخمصہ ہر نئی حکومت کو اپنا فرض نبھانے کی بجائے پچھلی گورنمنٹ کو دوش دینے پہ اکساتا ہے۔ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح تک اور غیر ملکی قرض 92 ارب ڈالرز تک جا پہنچا ہے، یعنی مملکت کے کل بجٹ کا تیس فیصد ہم عالمی اداروں سے لئے گئے قرضوں کی واپسی اور سود کی ادائیگی میں کھپا دیتے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کی تشکیل نو، انرجی سیکٹر میں حکومتی سرمایہ کاری اور سی پیک کی وجہ سے 2017 میں ہماری معاشی شرح نمو 5.04 فیصد تھی اور 2018 میں یہ 5.08 فیصد تک پہنچی جو پچھلے تیرہ سالوں کی بلند ترین سطح تھی۔ برآمدات کا دائرہ بڑھانے اور بیرونی سرمایہ کاری کو پرکشش ماحول دینے میں ناکامی کے علاوہ ٹیکس وصولی کا بوسیدہ نظام ہماری مہنگی مالیاتی پالیسی کی تشکیل کا محرک ہے اور بیرونی ممالک سے ترسیلات زر میں مسلسل کمی ادائیگیوں کا توازن بگاڑ دیتا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی سے افراط زر بڑھا تو مہنگائی کی مہیب لہر نے غریب طبقات خاص کر پیداواری عمل میں حصہ لینے والے مزدور کی کمر توڑ ڈالی۔ معاشی زبوں حالی کے اثرات بتدریج غریب اور امیر کے مابین تفاوت کو بڑھا رہے ہیں۔ غیر محدود بد عنوانی اور اہلیت کا فقدان ریاست کے انتظامی ڈھانچے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے ازالے کی راہ میں حائل ہے اور معاشی اصلاحات کو رائیگاں بنا دیتا ہے۔ ان حالات میں تبدیلی کی علم بردار حکومت نہایت بے تابی کے ساتھ ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی گورنمنٹ نے سب سے پہلے سعودی عرب پھر چین سے مالی معاونت حاصل کرنے کی کوشش کی اور اب آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانے میں سرگرداں ہے لیکن داخلی خرابیوں کا وبال، خطے میں پھیلے پرانے تنازعات اور جنوبی ایشیا میں عالمی طاقتوں کے مابین معاشی و سیاسی پیکار ہر پیش قدمی کی راہ روک لیتے ہیں۔ سعودی حکومت سے وسیع مالی معاونت کے ساتھ یمن کے داخلی تنازعات جڑے ہوئے ہیں جو ایران سمیت مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک سے ہمارے رشتوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف مالیاتی پیکیج کو سی پیک معاہدوں کی تفصیلات جاننے کے علاوہ اذیت ناک معاشی اصلاحات کے فارمولے سے مشروط کرے گا‘ جس میں معاشی سادگی، قومی اداروں کی نجکاری، صنعتی و کاروباری قوانین و ضوابط میں نرمی، درآمدی برآمدی ٹیرف میں کمی، بنیادی پیداواری یونٹ (بجلی) کے نرخوں میں اضافہ، پبلک سیکٹرز کی سبسڈی کے خاتمہ اور سرکاری اداروں کی ریکروٹمنٹ کو محدود کرنے جیسی شرائط شامل ہوں گی، جس کے نتیجہ میں سرمایہ کاری گھٹے گی، کارپوریٹ سیکٹر کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور مہنگائی و بے روزگاری بڑھے گی۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت کی جانے والی معاشی اصلاحات کا پہلا شکار وہ غریب اور پڑھا لکھا طبقہ ہو گا، جس نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا اور جس نے عمران خان صاحب سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھیں ہیں۔ گویا معیشت کی بحالی کی خاطر اٹھائے گئے سخت اقدامات اپنے جُلو میں سیاسی مضمرات بھی لائیں گے؛ البتہ صرف چین ہی وہ ملک ہے جو بظاہر مملکت کی حاکمیت اعلیٰ اور داخلی و خارجی پالیسیوں پہ اثر انداز ہوئے بغیر ہمیں مناسب مالی معاونت فراہم کر سکتا ہے لیکن افغانستان میں عالمی طاقتوں کی مبازرت سے جڑی مشکلات، مسئلہ کشمیر کی پیچیدگیوں اور اب چین سے بڑھتے ہوئے معاشی رشتے بجائے خود ہمارے عالمی تعلقات کی نزاکتوں پہ اثر انداز ہو رہے ہیں۔ 
ماضی میں ہمیشہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے وقتی ریلیف کی خاطر رجوع کیا۔ جونہی عارضی بنیادوں پہ فراہم کی گئی مالیاتی معاونت کا اثر ختم ہوا، مملکت پھر اسی معاشی بحران میں گھر گئی جس سے نکلنے کی کوشش میں اسے بہت سے کڑوے گھونٹ بھرنا پڑتے ہیں۔ ستر سالوں سے عالمی اداروں سے بھاری قرض وصول کرنے کے باوجود ہم اپنی معیشت کو استحکام نہیں دے سکے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا بھر کے مالیاتی اداروں سے ہمیں ایسی مالی معاونت کیوں نہیں ملتی جس کی بدولت ہماری معیشت خود اپنے پائوں پہ کھڑی ہو سکے؟ سات دہائیوں میں ہم سرمایہ دارانہ نظام کے سارے اقتصادی فارمولے آزما چکے ہیں۔ اب جی چاہتا ہے کہ ایک بار کارل مارکس کے کبریائی خیالات سے مزین ان اقتصادی اصولوں کو بھی آزما لیا جائے جن کی ترغیب ہمیں ڈاکٹر لال خان روانہ اپنے کالم میں دیتے ہیں۔ بیشک بعض وظائف‘ جن میں مالیات اور ابلاغ کے وسائل شامل ہیں‘ اتنے طاقتور ہیں کہ آئینی پابندیوں کے بغیر وہ معاشرے کو تباہ کر سکتے ہیں؛ اگرچہ ہمارے عہد میں ریاستی اہلکاروں کو نا اہل، جانبدار اور بد دیانت سمجھا جاتا ہے لیکن سچ پوچھئے تو یہ بات غنیمت ہو گی کہ یہ وسائل ریاست کے اختیار میں ہوں، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے باوجود کسی خوفناک انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس نظام کے پروردہ کئی ترقی یافتہ ممالک جزوی طور پہ اپنے مالیاتی نظام کو ریاست کے کنٹرول میں لانے کے تجربات کر رہے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ کے مالی مشکلات میں گھرے کئی بینکوں کو قومیا لیا گیا ہے۔
اس قوم کو صحت مند معیشت کی افزائش کے لئے معاشی مسائل کا مستقل حل چاہیے، جو اور کوئی نہیں صرف پارلیمنٹ ہی ہمیں دے سکتی تھی‘ لیکن افسوس کہ منتخب پارلیمنٹ اپنے مینڈیٹ کا حق ادا کر سکی نہ عوام کے مفادات کو تحفظ دینے کی فکر۔ توہینِ مذہب کے مقدمہ میں قید آسیہ مسیح کی سپریم کورٹ سے بریت کے فیصلہ کے خلاف ابھرنے والا پُر تشدد احتجاج، مولانا سمیع الحق کا نا گہانی قتل اور پھر ایس پی طاہر داوڑ کی اسلام آباد سے اغوا کے بعد افغانستان میں درد ناک موت کے مضمرات ابھی پوری طرح کنٹرول نہیں ہو سکے۔ بلا شبہ یہ ایک پیچیدہ تر اور مشکل صورت میں ڈھل گئے ہیں، جس سے نمٹنے کیلئے ایسی پختہ کار اور بالغ النظر قیادت کی ضرورت تھی جو قوم کو بقا کے مرکزی نقطہ میں مجتمع کر کے اجتماعی دانش (پارلیمنٹ) کو بروئے کار لا سکتی لیکن بد قسمتی سے یہاں ہر لمحہ سیاسی تفریق بڑھائی جا رہی ہے اور یہی داخلی سیاسی کشمکش پائوں کی زنجیر بن کے گورنمنٹ کو کسی سمت آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتی۔ ان نا گفتہ بہ حالات کے باوجود بھی ہم امید رکھتے ہیں کہ نئی حکومت اقتصادی مشکلات پہ جلد قابو پا لینے کے علاوہ سیاسی، سماجی اور مذہبی تنازعات کو احسن طریقے سے حل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ لا ریب، تحریک انصاف کی حکومت کے پاس صرف عوامی مینڈیٹ ہی نہیں بلکہ اسے فوج اور عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کی مناسب حمایت بھی حاصل ہے؛ چنانچہ ادارہ جاتی یکجہتی کے اس بے مثال توازن کو اگر عمران خان نے اپنی طاقت میں ڈھال کے ملک کو مشکلات کے دلدل سے نکال لیا تو وہ تاریخ میں امر ہو جائیں گے۔ ملک کی معاشی مشکلات اور اس وقت کے عالمی منظرنامہ پہ نظر دوڑائیں تو ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اگر مسلم لیگ الیکشن جیت کر حکومت بنا لیتی تو ایک طاقتور منتخب جمہوری حکومت کا جوڈیشری اور دفاعی اداروں کے ساتھ تصادم یقینی ہو جاتا۔ عالمی حالات کی نزاکتوں اور خطے میں ہر آن بدلتے حالات کے تناظر میں یہ مملکت اس قسم کے داخلی تنازعات کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ اچھا ہوا، مسلم لیگ کامیاب نہیں ہوئی، پی ٹی آئی کی کامیابی سے اور کچھ ملے نہ ملے، اتنا فائدہ تو ضرور ہوا کہ منتخب جمہوری حکومت، فعال عدلیہ اور طاقتور فوج پہلی بار ہم آہنگ نظر آئے، طاقت کے تینوں مراکز کی فکری وحدت اور ہم آہنگی سے ہماری قیادت اجتماعی مساعی کو ایسی قوت میں ڈھال سکتی ہے جو ہمیں مشکلات کے اس دلدل سے نکالنے میں مدد دے سکتی ہے، یقیناً ہم سب مل کر اس بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، جسے ہم سب نے اپنی کج فہمی سے مل کر پیدا کیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں