تحریک انصاف نے پچھلے دورِ حکومت میں صحت، تعلیم اور بلدیات کے شعبوں میں جتنی بھی اصلاحات متعارف کرائیں وہ تا حال تکمیل کے مراحل سر نہیں کر سکیں۔ اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر مختلف محکموںکے پرانے ڈھانچے تو توڑ دیئے گئے لیکن نئے نظام کی تشکیل سیاسی مصلحتوں اور قانونی پیچیدگیوں کی بھول بھلیوں میں الجھ گئی۔ ہر چند کہ ہماری سیاسی اشرافیہ مربوط زاویہ نگاہ سے عاری اور منظم اصلاحات کے تصور سے نا واقف تھی‘ لیکن پھر بھی وہ نت نئی اصلاحات کے ذریعے نظمِ اجتماعی کو وقفِ اضطراب رکھنے کے شوق سے باز نہیں آئی۔ اگر ہم پلٹ کے دیکھیں تو گزشتہ ستّر سالوں میں ہر سول اور فوجی حکمران نے بے ربط تجربات کر کے ریاست کے اس مضبوط انتظامی ڈھانچہ کو کمزور کیا، انگریزوں نے جسے ڈیڑھ سو سال پہ محیط منظم تجربات کے ذریعے استوار کیا تھا۔
ماضی و حال گواہ ہیں کہ حکمران اشرفیہ نے صدیوں سے آزمودہ قوانین سے خود کو ہم آہنگ بنانے کی بجائے قانونی حدود و قیود کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھالنے کی روش اختیار کر کے زندگی کے تلخ حقائق کو دانستہ نظر انداز کیا۔ وہ تمام لوگ جو اٹھتے بیٹھتے دورِ غلامی کے استرداد اور انگریزوں سے نسبت رکھنے والے ہر قانون کو مٹا دینے کا راگ الاپتے ہیں، وہ بھی جب اپنی نئی دنیا کی تعمیر کا سوچتے ہیں تو انہیں انگریز کی نقالی کے سوا کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ ابھی کل ہی کی بات ہے، جنرل مشرف نے اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کی خاطر جو نیا بلدیاتی نظام متعارف کرایا، اسے یورپ سے مستعار لے کر اپنے وطن میں لانچ کراتے وقت فقط اس کے عواقب پہ غور کرنے کی زحمت تک گوارا نہ کی۔ مغرب کے ذہنی طور پہ ترقی یافتہ سماج میں تشکیل پانے والے اس نئے بلدیاتی نظام کو اپنے جمود پرور ماحول میں پرکھنے کی بجائے ایک آمر نے پہلے پورے انتظامی ڈھانچے کو منہدم کر کے یک لخت اس اجنبی نظام کو نافذ کر دیا‘ جو اس ملک کی سیاسی فضا، سماجی ضروریات اور بلدیاتی نمائندوں کی استعدادِ ذہنی سے کوئی نسبت نہیں رکھتا تھا۔ نئے نظام میں ضلعی انتظامیہ اور ڈسٹرکٹ ناظم خورد بینوں کے ذریعے اپنے اختیارات کی حدود تلاش کرتے پانچ سال گزار بیٹھے‘ لیکن کسی منتخب نمائندے کو اختیار ملا نہ شہریوں کو سہولیات؛ تاہم رسی کودنے کے اس شوق میں بیوروکریسی اپنی انتظامی اتھارٹی اور روایتی شکوہ گنوا بیٹھی۔ اگر اس وقت ہر صوبے میں ایک ماڈل ڈسٹرکٹ منتخب کر کے وہاں نئے بلدیاتی نظام کو خوب جانچ پرکھ کے بتدریج نافذ کیا جاتا تو آج ہمیں ادارہ جاتی انتشار اور انتظامی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ بالکل ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہمیں خیبر پختون خوا میں کرنا پڑا، جہاںکی حکومت پچھلی اصلاحات کو ادھورا چھوڑ کے ایک بار پھر صحت کے شعبہ میں پریفرل ہیلتھ کیئر یونٹس ریفارمز ایکٹ لانے کی تازہ کوشش کے ذریعے صحت کے مزید بارہ یونٹس کو ''خود مختار‘‘ بنانے کی سکیم بنائے بیٹھی ہے، جس میں ٹی بی کنٹرول پروگرام، صاف اور محفوظ پانی کی فراہمی، زچہ و بچہ کی صحت، بچوں کے حفاظتی ٹیکے، فیملی پلاننگ، نیوٹریشن پروگرام، ملیریا کنٹرول پروگرام، ہیلتھ ایجوکیشن اور مریضوں کی نگہداشت کے پروگرام شامل ہیں۔
چھ سال قبل بھی پی ٹی آئی گورنمنٹ نے عمران خان کے کزن ڈاکٹر نوشیروان برکی کی مہارت سے فائدہ اٹھانے کی خاطر خیبر پختون خوا میں صحت کے شعبے میں اصلاحات لانے کے لئے آٹھ بڑے اضلاع میں میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ ایکٹ متعارف کرایا تھاتاکہ محکمہ صحت کو اپنے پائوں پہ کھڑا کر کے حکومت کے معاشی اور انتظامی تسلط سے آزاد کرایا جا سکے۔ بلا شبہ کتابی لحاظ سے یہ بہترین سسٹم تھا‘ لیکن یہ نظام غیر معمولی سیاسی مداخلت اور انتظامی بے حسی کی وجہ سے پنپ نہ سکا؛ چنانچہ پہلے مرحلے میں ایم ٹی آئی نظام کے خلاف سینئر ڈاکٹرز نے مزاحمت کی‘ اور محکمہ صحت کے دیگر اہل کاروں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا، دوسرے مرحلے میں قانونی چارہ جوئی کے ذریعے ایم ٹی آئی سسٹم کے خالق اور بانی چیئرمین نوشیروان برکی کو منصب سے الگ کر دیا گیا۔ اس طرح ایم ٹی آئی نظام کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ ایم ٹی آئی سسٹم کے تحت صوبہ بھر کے آٹھ بڑے ہسپتالوں اور ان سے منسلک ہیلتھ یونٹس کو چلانے کی خاطر خود مختار بورڈ آف گورنرز تشکیل دے کر انہیں سیکرٹری اور ڈی جی ہیلتھ کی انتظامی گرفت سے نکال لیا گیا تھا۔ ہر بورڈ آف گورنرز کو ایک چیئرمین سپروائز کرتا ہے، جو روزمرہ کے انتظامی امور چلانے کی خاطر بڑے ہسپتالوں کے مختلف شعبہ جات کے ڈائریکٹرز کی تعیناتی، مالیاتی وسائل کی فراہمی، ڈاکٹرز اور دیگر اہلکاروں کی مراعات و ذمہ داریوں کے تعین کا اختیار رکھتا ہے۔ ابتدائی طور پہ اس سسٹم کو چلانے کی خاطر وسائل حکومت فراہم کر رہی ہے‘ لیکن منصوبہ یہ ہے کہ ایم ٹی آئی سسٹم کے ہسپتال بتدریج اپنے وسائل خود پیدا کرنے کے قابل ہو کے مکمل خود مختار ہو جائیں گے۔ دریں اثناء حکومت نے محکمہ صحت کے تمام اہلکاروں کو چوائس دی کہ وہ محکمہ صحت کے سرکاری سسٹم کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر ایم ٹی آئی کے خود مختار نظام سے وابستگی چاہتے ہیں لیکن ابھی تک کسی ایک اہلکار نے بھی حکومتی پیشکش کا جواب نہیں دیا، اس لئے ایم ٹی آئی سسٹم میں وہ ینگ ڈاکٹرز‘ جنہیں فوری ملازمت درکار ہوتی ہے‘ یا پرائیویٹ ہسپتالوں میں تربیت پانے والا وہ پیرا میڈیکل سٹاف کام کر رہا ہے‘ جسے سرکاری نوکری ملنے کی امید نہیں تھی۔ واقفانِ حال کہتے ہیں: ایم ٹی آئی سسٹم جوائن کرنے والے تمام اہلکاروں کی تعیناتی محض تین سال کے لئے کنٹریکٹ پہ کی جاتی ہے۔ اہلکار اگر ڈلیور کرے تو اسے توسیع ملتی ہے‘ بصورت دیگر فارغ کر دیا جاتا ہے۔ اس نظام میں کسی اہلکار کو پنشن نہیں ملتی اور ملازمت کا تحفظ ڈاکٹرز کی کارکردگی سے منسلک ہوتا ہے‘ اس لئے محکمہ ہیلتھ کے اہلکار سرکاری ملازمت چھوڑ کے نئے نظام کی سخت کوشی میں کام کرنے کو تیار نہیں۔ بد قسمتی سے سیاسی مداخلت کے باعث پچھلے چھ سالوں میں صرف پشاور لیڈی ریڈنگ اور حیات میڈیکل سنٹر کے سوا باقی تمام ایم ٹی آئی ہسپتالوں کو ریگولر بورڈ آف گورنرز نہیں مل سکے۔ اخبارات میں مشتہری کے باوجود ہر جگہ با اثر سیاستدان اور بیوروکریٹ اپنے منظور افراد کو عارضی بنیادوں پہ بورڈ آف گورنرز کا ممبر بنوا کے سسٹم کی جڑ لگنے نہیں دیتے۔ بی او جی کے سیاسی پشت پناہی کے حامل ممبران کو ملازمین کی بھرتیوں اور اپنی مراعات لینے کے سوا ہسپتال کے انتظامی امور سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی۔ نوشہرہ میں ایک وفاقی وزیر کی مداخلت کے باعث غیر محدود مقدمہ بازی نے ایم ٹی آئی سسٹم کو مفلوج بنا رکھا ہے۔ ابیٹ آباد، سوات، صوابی، مردان، نوشہرہ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے ایم ٹی آئی سسٹم کو کم و بیش ایک ہی جیسی سیاسی مداخلت کا سامنا ہے۔ جب سے لکی مروت سے تعلق رکھنے والے ہشام انعام اللہ صوبائی وزیر صحت بنے، انہوں نے جنوبی اضلاع میں وفاقی وزیر علی امین گنڈہ پورکی من مانیوں کی راہ روک کے اپنی بالا دستی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں۔ وزیر موصوف نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان میں لکی مروت سے تعلق رکھنے والے دو ریٹائرڈ ڈاکٹرز کو بورڈ آف گورنرز کا ممبر بنانے کے علاوہ اپنی ہی برادری کے ایک ڈاکٹر کو گومل میڈیکل کالج کا پرنسپل تعینات کر دیا۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ اس وقت ایم ٹی آئی سسٹم کے بورڈ آف گورنر کے تمام ممبران، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ٹیچنگ ہسپتال کے ڈائریکٹر، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے چیئرمین سمیت اکثر حساس پوسٹوں پہ ایک ہی برادری کے لوگوں کی تعیناتی سے مقامی آبادی میں اضطراب بڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان صاحب نے خیبر پختون خوا کے بعد، امریکہ بیسڈ ڈاکٹر نوشیروان کو، پنجاب اور بلوچستان میں بھی ایم ٹی آئی سسٹم متعارف کرانے کا ٹاسک سونپ دیا‘ لیکن پنجاب میں ڈاکٹرز اور محکمہ ہیلتھ کے اہلکاروں نے ایم ٹی آئی سسٹم کے خلاف مزاحمت کے لئے کمر کس لی ہے۔