"AAC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی نظام کی تشکیل نو

خیبر پختونخوا کی حکومت لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 ء میں سولہویں بار ترامیم کے ذریعے نچلی سطح کے بلدیاتی اداروں کو زیادہ فعال بنانے کے قوانین میں کچھ نئی ترامیم متعارف کرنا چاہتی ہے۔وزیر بلدیات شاہرام ترکئی نے صوبائی اسمبلی میں جو ترمیمی لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 ء پیش کیا اس میں ڈسٹرکٹ گورنمنٹس کو ختم اور لوکل گورنمنٹ 2013ء کے تحت اضلاع کو منتقل کئے گئے محکموںمیں سے دس مزید ڈیپارٹمنٹس صوبائی حکومت کو واپس دینے کی شق شامل ہے۔واضح رہے2013 ء میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی خاطر صوبائی حکومت نے جن چوبیس محکموں کو ڈسٹرکٹ گورنمنٹس کے سپردکیا تھامختلف مواقع پہ ایکٹ میں ترامیم کر کے ان میں سے چھ ڈیپارٹمنٹ پہلے ہی واپس لئے جا چکے ہیں۔بدقسمتی سے صوبائی محکموں کو ضلعی حکومتوںکے زیرانتظام لانے کا اچانک تجربہ خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکا۔ایک تو ادھوری مساعی اور جلدبازی میں کی گئی ناقص قانون سازی کی بدولت ڈیوالو ڈیپارٹمنٹس مالیاتی و انتظامی پیچیدگیوں میں پھنس کر روزمرہ کے امور تک نمٹانے کی صلاحیت کھو بیٹھے۔دوسرے متذکرہ ڈیپارٹمنٹس کے ڈسٹرکٹ سطح کے اہلکار اختیارات کی غیرمنطقی تقسیم کے باعث صوبائی اور ضلعی اتھارٹی کے درمیان رولنگ سٹون بن کے رہ گئے جس سے نہ صرف ان کی کارکردگی متاثر ہوئی بلکہ غیرمربوط قواعد وضوابط کی کنفیوژن اورہنگامی بنیادوں پہ کی گئی انتظامی اُتھل پُتھل بڑے پیمانے پہ قومی وسائل کے زیاں کا سبب بنی؛چنانچہ انہی قباحتوں پہ قابو پانے کی خاطر صوبائی حکومت نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران مختلف مواقع پہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں پندرہ ترامیم کرنے کے علاوہ چھ ڈیوالو محکموں کو اضلاع سے واپس لے لیا ‘لیکن پھر بھی بہتری کی کوئی صورت نہ نکل سکی۔اب ایک بار پھر بلدیاتی ایکٹ کو قابل عمل بنانے کی خاطرپی ٹی آئی حکومت لوکل گورنمنٹس کے دائرہ کار کا ازسرنو تعین‘انتظامی درجہ بندی اور عوامی نمائندگی کے حجم کو متوازن بنا کے ان تضادات اور پیچیدگیوں سے نجات پانے کی کوشش کر رہی ہے‘جو پچھلے دور میں درد سر بنی رہیں۔2013 ء کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں میونسپل سروسز کی فراہمی اگرچہ تحصیل حکومتوں کے ذمہ تھی لیکن صحت‘تعلیم‘آبپاشی‘پبلک ہیلتھ انجینئر نگ اور سی اینڈ ڈبلیو سمیت جن چوبیس محکموں کو ضلعی حکومتیں کنٹرول کرتی تھیں ان کے مالیاتی امور ناظمین کے پاس ‘مگر انتظامی امور صوبائی ہیڈکوارٹر میں بیٹھے سیکریٹریز کے ہاتھ میں تھے ۔متذکرہ محکموں کو بجٹ کے لئے ضلعی حکومتوں کی طرف اور انتظامی امور میں رہنمائی کے لئے صوبائی اتھارٹی کی جانب طلبگار نظروں سے دیکھنا پڑتا تھا۔اس دوعملی کی بدولت ڈیوالو ڈیپارٹمنٹ دن بدن مالیاتی و انتظامی مشکلات کی دلدل میں اترتے گئے۔
ہمارے دفتری کلچرکے مطابق اہلکاروں کو منافع بخش عہدوں پہ تعیناتی کی خاطر صوبائی ہیڈکوارٹر میں بیٹھے افسرانِ بالا کی''خوشنودی‘‘چاہئے تھی جبکہ ترقیاتی فنڈ لینے کے لئے انہیں ضلعی ناظمیں کی ''عنایات‘‘ کی ضرورت رہتی تھی۔اس دوطرفہ خراج کا بوجھ لامحالہ قومی خزانہ پہ پڑتا رہا۔ایک دلچسپ کیس سٹڈی یہ تھی کہ جب سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ ضلعی حکومت کے ماتحت تھا تو اس زمانے میں ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں تعینات کسی کمشنرنے محکمہ کے ایک سب انجینئر کی وساطت سے ایم اینڈ آر فنڈ سے ایبٹ آباد میں اپنا ذاتی بنگلہ بنوا لیا کیونکہ ترقیاتی کام کرنے والے محکموں سے پہلے صرف ان کی چین آف کمانڈ استفادہ کرتی تھی‘ ڈیوال ہونے کے بعد ان محکموں سے تقاضا کرنے والوں میں انتظامی افسران اور ڈسٹرکٹ ناظمین بھی شامل ہو گئے‘جس سے لوٹ کھسوٹ کے دائرے زیادہ وسیع ہوتے گئے۔بلاشبہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت وقتاً فوقتاً انگریز کے بنائے ہوئے اس منظم ریاستی نظام سے جو نئی شاخیں نکالیں اب وہ اتنی گھنی ہو گئی ہیں کہ انہیں تراشنا بھی ممکن نہیں رہا۔صرف ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں درجنوں ایسی ترقیاتی سکیموں کی نشاندہی ہوسکتی ہے جنہیں وزیراعظم پروگرام کے تحت ایک بار پاک پی ڈبلیو ڈی نے تعمیرکرایا‘دوسری بار سینیٹر فنڈ سے ڈی ڈی اے والوں نے مکمل کرایا اور پھر اسی مالیاتی سال میں وہی سکیم پبلک ہیلتھ انجینئر نگ اور سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں ایم این ایز اور ایم پی ایز فنڈ سے تعمیر دکھائی گئی‘ لیکن افسوس کہ کسی بھی سطح پہ اس داغ دوزی کو چیک نہ کیا جا سکا کہ ایک ہی سکیم کو بیک وقت چار مختلف محکموں نے ایک ہی وقت میں کیوں اور کیسے بنایا؟
حیرت انگیز طور پہ پچھلے دس سالوں میں سینیٹرز‘ایم این اے اور ایم پی ایز کے سالانہ ترقیاتی فنڈز کے علاوہ سپیشل فنڈ کے ذریعے سیاستدانوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں جتنے ہینڈ پمپس تقسیم کئے اتنی تو اس شہر کی آبادی نہیں۔اگر قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی صرف اسی ایک کیس کو اٹھا لے تو اس کے چودہ طبق روش ہو جائیں گے‘ لیکن وہ اس معاملے میں ہاتھ ڈالے گی نہیں کیونکہ اس بدعنوانی کے بڑے بینیفشریز ممبران اسمبلی خود ہیں۔آج بھی سینیٹرز‘ایم این ایز اور ایم پی ایز کو جس قدر فنڈ ملتا ہے اس میں سے کم و بیش 80 فیصد کرپشن کی نذر اور بقیہ بیس فیصد ویسے ہی ضائع ہو جاتا ہے۔قصہ کوتاہ ! پی ٹی آئی حکومت اب سسٹم کو ریشنلآئز بنا کے اضلاع میں جاری تمام ترقیاتی سکیموں کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی مربوط میکنزم بنانا چاہتی ہے‘اسی مقصد کی خاطر ڈسٹرکٹ گورنمنٹس سسٹم کی بساط لپیٹ کے اس کے کچھ پاورز تحصیل حکومتوں کو باقی صوبے کو منتقل کردے گی۔نئے ترمیمی ایکٹ کے تحت ضم شدہ قبائلی اضلاع کو بھی لوکل گورنمنٹ سسٹم کے تابع لانے کا پلان شامل ہے‘جس کے بعد صوبہ بھر میں نیبرہڈ کی تعداد4203 اور ویلج کونسلوں کی تعداد3501 تک بڑھ جائے گی۔
2013ء کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں نیبرہڈ اور ویلج کونسلیں دوہزار سے لیکر دس ہزار نفوس کی نمائندہ تھیں لیکن اب ان کی نمائندگی کا دائرہ پانچ سے پندرہ ہزار تک کی آبادی تک پھیلا دیا گیا۔پچھلے ایکٹ میں ہر نیبرہڈ اور ویلج کونسل میں دس سے پندرہ ممبران کو نمائندگی ملی لیکن اب اسے کم کر کے چھ اور سات کونسلرز تک محدود کر دیا گیا‘جس میں 33 فیصدخواتین‘پانچ فیصد نوجوان اور اقلیتوں کی نمائندگی بھی شامل ہو گی۔تحصیل اورسٹی گورنمنٹ‘نیبرہڈ اور ویلج کونسل کے ناظمین کے نام بدل کے چیئرمین تحصیل گورنمنٹ اور چیئرمین نیبر ہڈ اورویلج کونسل رکھ دیا گیا۔ہر نیبر ہڈ کونسل کا چیئرمین بربنائے عہدہ سٹی گورنمنٹ اور ویلج کونسل کا چیئرمین تحصیل کونسل کا ممبر ہو گا۔تحصیل کونسل کے چیئرمین کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے جماعتی بنیادوں پہ کرایا جائے گا تاکہ ممبران کی خرید وفروخت کے دھندہ کی حوصلہ شکنی ہو‘ تاہم نیبرہڈ اور ویلج کونسلوں کے انتخابات غیرجماعتی بنیادوں پہ منعقد کرائے جائیںگے۔سٹی و تحصیل گورنمنٹس کے چیئرمین کی طرف سے پیش کردہ بجٹ‘ہاؤس کو لازماً منظور کرنا ہو گا‘ بصورت دیگر اسے ازخود منظور تصور کیا جائے گا۔اس نئے ایکٹ کے ذریعے صحت‘تعلیم‘سماجی بہبود اور پولیس جیسے اہم ڈیپارٹمنٹس سٹی گورنمنٹس کو تفویض کئے گے ہیں۔یہاں چونکہ بلدیاتی نمائندوں کی استعدادکار اور صلاحیتوں کی تعمیر کا کوئی نظام موجود نہیں اس لئے خدشہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کے چیئرمین کے ذریعے متذکرہ اداروںکو کنٹرول کرنا محال ہو گا۔اس مشکل کے حل کی خاطر حکومت محکمہ بلدیات کے اہلکاروں اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹس کے ٹیچرز کی بجائے انتظامی امور کی مہارت رکھنے والے صوبہ بھر کے پی ایم ایس آفیسرز کو ٹی ایم اوز اور ای ڈی اوز جیسی انتظامی پوسٹوں پہ تعینات کرنے پہ غور کر رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں