"AAC" (space) message & send to 7575

سیاسی استحکام ملتا کیوں نہیں؟

پچھلے دس سال کے دوران جس سرعت کے ساتھ معاشی بحران کے دائرے وسیع ہوئے‘ اسی تیزی سے سیاسی تنازعات کی لکیر بھی گہری ہوتی گئی‘ جس کی تلخیاں اب آخری حدّوں کو چھونے والی ہیں۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ رمضان کے مقدس مہینے میں سیاسی سرگرمیاں کچھ ماند پڑیں گی لیکن جون میں بجٹ کی منظوری کے بعد جب مہنگائی کی ممکنہ لہر نچلی سطح کی تجارتی سرگرمیوں کو متاثر کرے گی تو غریب اور متوسط طبقے کے اندر پیدا ہونے والا اضطراب ہمہ جہت سیاسی تنازعات کی شدت کو دوچند کر دے گا۔ اس لئے کارکنانِ قضا و قدر بجٹ کی منظوری سے قبل ہر صورت میں سیاسی تنازعات کو ریگولیٹ کرنے کیلئے سرگرداں نظر آتے ہیں۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ مقتدرہ نے کسی نہ کسی سطح پہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے علاوہ جے یو آئی کو بھی انگیج رکھا ہوا ہے۔ اس وقت ہماری سیاسی اشرافیہ کے پیش نظر تین آپشن زیر غور ہو سکتے ہیں۔ پہلا‘ وسیع تر سیاسی مفاہمت کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو کام کرنے کا موقعہ دینا‘ لیکن مفاہمت پہ منحصر حل خود پی ٹی آئی کی بنیادی ساخت اور سیاسی تربیت سے میل نہیں کھاتا۔ دوسرے‘ اِن ہائوس تبدیلی‘ جس پہ اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق رائے ممکن نہیں ہو گا خاص کر مولانا فضل الرحمٰن سمیت دیوار سے لگی علاقائی جماعتیں اسے تسلیم نہیں کریں گی۔ تیسرے‘ وسطی مدت کے انتخابات جس پہ وسیع تر سیاسی اتفاق رائے تو ممکن ہو جائے گا لیکن فری اینڈ فیئر الیکشن کے انعقاد کی ضمانت کون دے گا؟ اگر مڈٹرم الیکشن کے نتائج بھی متنازعہ بن گئے تو سیاسی عمل بند گلی میں داخل ہو جائے گا؛ چنانچہ فوری طور پہ معاشی و سیاسی بحرانوں پہ قابو پانے کے امکانات بعید ہیں‘ لیکن امید ہے جلد یا بدیر مقتدرہ اور سیاستدان مل بیٹھ کے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لیں گے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اپنے تمام تر دعووں کے باوجود پی ٹی آئی حکومت ملکی معیشت میں بہتری اور سیاست پہ اپنی گرفت مضبوط نہیں بنا سکی اور پے در پے ناکامیوں کے باوجود بھی وہ مثالی سیاست کے اس رومانس سے نکل کے پاور پالیٹکس کی عملیت پسندی کو گلے لگانے کو تیار نہیں‘ جس کے خواب انہیں اپوزیشن کی رومانوی زندگی میں دکھائے گئے تھے۔ عام خیال یہی تھا کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی قیادت کی سوچ چونکہ ریاست کی اجتماعی خواہش سے متصادم رہتی ہے‘ اس لئے مملکت کے نظام کو قرار نہیں ملتا لیکن اب تو عنان ِحکومت ایسی منتخب لیڈرشپ کے ہاتھ ہے‘ جس کی سوچ مقتدر اداروں کی پالیسیوں سے پوری طرح ہم آہنگ اور ان کی حکمت عملی ریاست کی مرضی کے تابع نظر آتی ہے ‘لیکن پھر بھی معاشی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں اور سیاسی بحران کم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صرف جمہوریت ہی نہیں ''ہم‘‘ خود بھی ناکام ہو گئے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے سیاسی ماحول میں مفاد عامہ کی خاطر باہمی استفادہ کی روایات معدوم رہیں‘ یہاں کی اپوزیشن جماعتیں اصلاح دینے میں بخیل لیکن حکومتیں گرانے میں نہایت فعالیت سے کام لے کر سیاسی عمل کے صحت مند ارتقا کی رخ گردانی کرنے میں باک محسوس نہیں کرتیں‘ جس کے مضمرات لا محالہ ان کے اپنے ہی سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ عمران خان بھی ماضی کے اسی رویہ کی بدولت اپوزیشن کی جانب دستِ تعاون بڑھانے کا اخلاقی حق گنوا چکے ہیں‘ اس لئے سیاسی مفاہمت کیلئے جو کچھ کرنا ہے وہ پسِ چلمن حلقے ہی کریں گے‘ تاہم اپوزیشن کے ساتھ معاملات اگر مقتدرہ طے کرے گی تو حکومت خود بخود غیر اہم ہوتی جائے گی۔ شاید ہماری سیاسی پارٹیاں بھی سیاستدانوں کی بجائے ریاستی اداروں کے ساتھ بات چیت میں سہولت محسوس کرتی ہیں۔ کیا تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی سیاسی و معاشی ابتری کے بعد ان معدودے چند افراد کی رائے سچ ثابت نہیں ہو رہی جنہوں نے چند سال پہلے‘ ملک میں قومی حکومت کے قیام کا مطالبہ اٹھایا تھا لیکن اس وقت جمہوریت نواز سیاستدان‘ جنہیں سیاسی قوت پہ ناز اور اپنی اہلیت پہ کامل اعتماد تھا وہ ایسی تجاویز کو پائے حقارت سے ٹھکراتے رہے۔ یہ بجا کہ قومی حکومت بھی ان معاشی مسائل کا مستقل حل نہیں دے سکتی جن سے ہم دوچار ہیں لیکن اس سے ملکی پالیسیز میں چند بنیادی اصلاحات بالخصوص انتہا پسندی کے عفریت پہ قابو پانے میں تو مدد مل سکتی تھی۔ بلا شبہ اب اگر سیاسی نظام میں ہنگامی بنیادوں پہ اصلاحات اور وسیع پیمانے پہ سیاسی مفاہمت کی راہ نہ نکالی گئی تو روایتی سیاسی جماعتیں طاقت کی حکمرانی کے خلاف صف آرا ہو سکتی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں میں در پردہ روابط موجود ہیں‘ وہ بات چیت کے ذریعے معاملات کے حل میں ناکامی کی صورت میں کسی متبادل پلان پہ عمل پیرا ہو جائیں گی۔
سوموار کے دن ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں جزوی طور پہ سیاسی و انتظامی اصلاحات کی بات کی گئی جس میں دینی مدارس کے نظام کو قومی دھارے کی تعلیمی پالیسی کے تحت لانے اور پشتون تحفظ موومنٹ کے تلخ بیانیہ کے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی کا عندیہ دیا گیا۔ یہ بظاہر ایک نئی کشمکش کا ابتدائیہ نظر آیا لیکن اہل ِمغرب کہتے ہیں کہ سیاست کی سطح کے اوپر جتنا بھی شور و غوغا برپا ہو‘ یہ سطح کے نیچے سمندر کی مانند نہایت خاموش اور پُر سکون رہتی ہے۔ جن اصلاحات پہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بات کی‘ ان پہ نواز لیگ کے علاوہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے تو رد عمل دے دیا لیکن حکومتی ایوانوں پہ ایک معنی خیز خاموشی چھائی ہوئی ہے‘ جو اس امر کی غماض ہے کہ جاری سیاسی کشمکش سے پی ٹی آئی آئوٹ ہوتی جا رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ معاملات مقتدرہ خود طے کرے گی‘ لیکن سیاسی مفاہمت کے ٹرانزٹ عمل کے دوران ریاست ان امور کو نمٹانے کی کوشش بھی کرنا چاہتی ہے‘ سیاستدانوں میں جنہیں سنبھانے کی سکت نہیں۔ مقتدرہ اب خوف و ترغیب کے ہتھیاروں سے مرکز گریز قوتوں کے علاوہ ان اداروں کو بھی ریگولیٹ کرنا چاہے گی‘ جو نظریاتی جدوجہد کی آڑ میں ریاست کے متوازی بیانیہ کی آبیاری کرتے رہے۔ اسی طرح ضم شدہ قبائلی اضلاع میں حادثاتی طور پہ پروان چڑھنے والی پشتون تحفظ موومنٹ بھی محل نظر ہو گی‘ جس کے نامطلوب نعرے اور متنازعہ عزائم مغربی سرحدات پہ نئے سیاسی تنازعات کی بنیاد بن رہے ہیں۔ بعض جہاں دیدہ قبائلی رہنما جنگِ دہشت گردی سے متاثرہ اس خطے میں طاقت کے استعمال کی راہ روکنے کی خاطر ناراض نوجوان کو مملکت سے ہم آہنگ رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ شاید اسی رابطہ کاری کی بدولت منظور پشتین نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویوز میں ملکی آئین کی بالا دستی تسلیم کرنے کے علاوہ ریاستی اداروں کے خلاف لگائے جانے والے ان متنازعہ نعروں سے لا تعلقی کا اظہار کیا اور ریاستی اداروں کے اعتراض کے بعد غیر ملکی این جی اوز کے ساتھ کام کرنے والی خواتین سے بھی فاصلہ بڑھا لیا۔ قبائلی مشران کی مداخلت کے نتیجہ میں پی ٹی ایم کی قیادت نے ابھی حال ہی میں سینیٹ کی انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی سے مذاکرات کرکے اپنے مطالبات پیش کئے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جنگ زدہ قبائلی عوام کے کچھ حقیقی مسائل موجود ہیں ‘جن کے حل کی ضرورت کو خود آرمی چیف نے بھی تسلیم کیا۔ ان میں سب سے اہم قبائلی اضلاع سے بارودی سرنگوں کے خاتمہ کا مطالبہ ہے‘ جس سے انسانی جانوں کے زیاں کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔ فاٹا انضمام کے بعد صوبائی حکومت آپریشن کے متاثرین کیلئے زر تلافی کی ادائیگی اور چیک پوسٹوں کے معاملات کو تو کسی حد تک نمٹا لے گی‘ لیکن لا پتہ افراد کی بازیابی کا معاملہ توجہ کا حامل ہے۔ یہ معاملہ ملکی سطح کا ایشو ہے‘ مسنگ پرسنز میں مبینہ طور پہ سندھ‘ بلوچستان اور پنجاب کے لوگوں بھی شامل ہیں‘ اس تنازعہ کو ملکی تناظر سے الگ کر کے دیکھنا اور حل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں