اپوزیشن جماعتوں کی وہ آل پارٹیز کانفرنس بالآخر منعقد ہو گئی‘ جس کے انعقاد کو مولانا فضل الرحمن‘ حکومت گرانے کی تحریک کا نقطہ آغاز باور کراتے رہے‘ لیکن عملاً یہ پیش رفت خود اپوزیشن کی ذہنی تقسیم کو نمایاں کرنے کا وسیلہ بنی۔اے پی سی سے یہ ثابت ہوگیا کہ اپوزیشن جماعتیں ناصرف پراگندہ خیال اور کمزور ہیں‘ بلکہ انتہائی گہرے فکری و سیاسی تضادات میں بھی الجھی ہوئی ہیں۔یہ تو واضح ہے کہ موجودہ بندوبست کی سب سے بڑی بینیفشری ہونے کے ناتے پیپلزپارٹی کافی آسودہ ہے۔پی پی پی کو اپنی سیاسی بیس‘ یعنی سندھ میں نہایت معقول اکثریت کے ساتھ صوبائی اقتدار حاصل ہے۔قومی اسمبلی میں ساٹھ سے زیادہ نشستوں کے علاوہ سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین کا منصب بھی پی پی پی کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے آصف زرداری کو حکومت گرانے کی جلدی ہے‘ نہ کارکنوں کو کسی سنجیدہ مزاحمتی تحریک کی سرگرانی میں الجھنے کی ضرورت‘وہ وقت گزاری کی خاطر حکومت سے ہلکی پھلکی چھیڑخانی سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے؛چنانچہ بلاول بھٹو زرادری کو سیاسی اخلاقیات کے اعلیٰ مقام پے بیٹھ کے گفتگو کرنا زیب دیتا ہے اور شاید اسی لئے فرزند ارجمند نے اے پی سی میں مولانا فضل الرحمن کو فلاسفیانہ انداز میں جمہوری اخلاقیات کا درس دے کر میڈیا‘مقتدرہ اورسول سوسائٹی سے خوب داد پائی۔
شریف خاندان کا معاملہ ان سے بالکل مختلف ہے ‘وہ اپنی سیاسی زندگی کے مشکل ترین عہد سے گزر رہے ہیں اورمسلم لیگ اس وقت حصول اقتدار کی نہیں‘ بلکہ اپنی بقاء کی جنگ میں سرگردان ہونے کی وجہ سے کسی ایسی کشمکش کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہو گی ‘جس کے نتیجہ میں اسے پھر کسی سمجھوتہ کے تحت محدود اختیار والی منتخب جمہوری حکومت بنانے کے سکیم کو قبول کرنا پڑے‘ کیونکہ نوازشریف کا پینتیس سالہ سیاسی سفر انجام سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے‘وہ نہیں چاہتے کہ آزمائش کی اس آخری گھڑی میں اپنے دامن پہ سیاسی سمجھوتوں کا کوئی ایسا داغ لیکر اس دنیا سے رخصت ہوں‘ جس سے تاریخ انہیں ایک بزدل اور موقعہ پرست سیاستدان کے طور پہ یاد رکھے۔نوازشریف اس حقیقت سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں کہ کرپشن کے الزامات بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ان کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی کو سودا بازی پہ مبنی سیاسی تفریح طبع میں ضائع کرنے کی بجائے بہادرانہ انداز میں لڑیں؛چنانچہ اسی فیصلہ کن ارادہ کے پیش نظر نوازلیگ ابتلاء کی تاریکیوں سے ٹٹول ٹٹول کے نکلنے کی کوشش کے علاوہ قافلہ سیاست کو فیصلہ کن معرکہ کی طرف لے جانے کی منصوبہ بندی کرے گی۔ وہ جے یو آئی‘پیپلزپارٹی اور بائیں بازو کی قوم پرست جماعتوں کے ساتھ وابستہ رہنے کے باوجود اپنے منتخب کردہ راستہ کو چھوڑنے کا ارادہ ترک نہیں کرسکتی۔
کہنہ مشق سیاستدان مولانا فضل الرحمن کا مسئلہ؛ البتہ ان سب سے الگ ہے ‘ جنہوں نے ان کے اعتماد کو دھوکہ دیکربساط سیاست پہ انہیں دوبار چاروں شانے چت کیا وہ انہیں سبق سیکھانے کی خاطر اپنی زنبیل میں موجود ہر ہتھیار کو استعمال کرنے کیلئے بیقرار ہیں‘اے پی سی میں انہوں نے جو دو آپشن پیش کئے؛ وہ اسی نفسیاتی اضطراب کی غماضی کرتے ہیں‘پہلی تجویز انہوں نے یہ دی کہ حکومت کو گرانے کی خاطر مبینہ طور پر کچھ ایشوز بنا کے مذہبی تحریک اٹھائی جائے(ہمارے ہاںسیاسی محرکات پہ پردہ ڈالنے کیلئے اس کے استعمال کا رواج عام ہے )دوسرے وہ اپوزیشن کو قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ سے مستعفی ہو کے موجودہ سیاسی بندوبست کومنہدم کرنے جیسے اقدام کی طرف لانا چاہتے تھے۔مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ اس کشمکش کے نتیجہ میں ؛اگر مارشل لاء بھی لگے ‘تو لگنے دیجئے‘ کیوںکہ اس نام نہاد جمہوریت سے وہ مارشل لاء ہزار گناہ بہتر ہو گا‘ جس کے خلاف ہماری مزاحمت کو بھرپورعوامی حمایت اور عالمی تائید مل سکے گی‘لیکن پیپلزپارٹی نے اصولی سیاست کا سہارا لے کر مولانا فضل الرحمن کی ان دونوں تجاویز کو ردّ کرکے مولانا فضل الرحمن کی سکیم ناکام بنا دی اور دیگر شریک جماعتوں نے خاموشی اختیار کر کے مولانا کے فیصلہ کن وار کا بھاری پتھر اٹھانے سے گریز کیا؛اگر اپوزیشن ‘مولانا کی پہلی تجویز مان کے مبینہ ایشوز پہ حکومت مخالف تحریک اٹھانے کی راہ اختیار کرتی‘ تو اس صورت میں دیگر مضمرات کے علاوہ اپوزیشن کو اپنی مہار ایسے رہنماؤں خاص کر مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ دینا پڑتی۔اپوزیشن 1977ء میں اس قسم کا ایک تلخ تجربہ کر چکی ہے۔پیپلزپارٹی جیسی مقبول جماعت تو ایسی تحریک کا شکار بن گئی‘ لیکن پی این اے میں شامل نیپ اور تحریک استقلال سمیت تمام لبرل جماعتیں بھی اسی اتحاد کے ہاتھوں برباد ہوئیں‘مگر تب ایسی تحریک کی مقبولیت ہی مذہبی جماعتوں کی عوامی حمایت بڑھانے کا سبب بنی‘اس لیے اے این پی سمیت تمام علاقائی جماعتیں اے سی پی کے انعقاد سے قبل ہی ان بنیادوں پہ چلائی جانے والی تحریکوں کا حصہ نہ بننے کا عندیہ دے چکی تھیں۔
سیاستدانوں کو ادراک ہے کہ بدلتے حالات میں ہمارے سیاسی ماحول کے اندر مذہبی تحریکوں کیلئے گنجائش کم اور عالمی سیاست میں لبرل تحریکوں کی پذیرائی کے دائرے وسیع تر ہو رہے ہیں‘اس لیے وہ مذہبی قیادت کو قبول کر کے مستقبل کی سیاست میں اپنی راہیں مسدود نہیں کرنا چاہتیں۔اے پی سی میںچیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے پہ اتفاق رائے بھی اس لئے ممکن ہوا ہو گا کہ حالات کے جس جبر نے سنجرانی کو اس منصب تک پہنچایا ‘اب وقت کے وہی تقاضے شاید انہیں پس منظر میں دھکیلنے کا تہیہ کر چکے ہوں گے۔موجودہ سیاسی بندوبست کو چلانے کی خاطر اپوزیشن کو کچھ نہ کچھ گنجائش تو ضرور دینا پڑے گی؛اگر سینیٹ کی چیئرمین شپ اور نوازشریف کی ضمانت پہ رہائی کی قیمت پہ سیاسی بحران ٹل سکتا ہے تو یہ کوئی بڑی قیمت نہیں ہو گی‘لیکن اوپر بیان کردہ تضادات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مولانا فضل الرحمن اب آرام سے بیٹھ جائیں گے یا نواز لیگ اور پیپلزپارٹی نرم مزاحمت کی راہ ترک کر دیں گی‘ بلکہ قرائین بتاتے ہیں کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں کی خواہش ہو گی کہ مولانا دینی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے مبینہ ایشوز کو لیکر الگ سے مخالفانہ تحریک چلا کر حکومت کو کمزور کریں اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتیں جمہوری انداز میںآئینی طور طریقوں کے ذریعے دباؤ بڑھا ئیں۔
تاہم ان ساری لن ترانیوں کے باوجود سیاسی جماعتوں کی مجموعی رائے یہی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت ملک کو معاشی مشکلات کی دلدل سے نکالنے کی صلاحیت نہیں رکھتی؛ چنانچہ الجھنے کی بجائے ‘اگر اسے حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا جائے‘ تو معاشی حالات کی سنگینی کے پیش نظر مقتدرہ بہت جلد سیاسی جماعتوں کی راہ میں بچھائی بارودی سرنگوں کو صاف کرنے پہ تیار ہو جائے گی‘لیکن اس صورت حال میں بھی پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کی ترجیحات مختلف ہوں گی‘پیپلزپارٹی ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے موجودہ پارلیمنٹ کو پانچ سال تک چلانے کو اپنی سیاسی بقا کیلئے ناگزیر سمجھتی ہے ‘جب کہ نواز لیگ مڈٹرم الیکشن ہی میں اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کرے گی۔