وزیراعظم عمران خان نے سول سروس سٹرکچر کی تشکیل ِنو اور پولیس میں اصلاحات کیلئے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں جو اعلیٰ سطحی ریفارمز کمیٹی بنائی تھی‘ اس نے 14 ماہ کی عرق ریزی کے بعد مجاز اتھارٹی کوتجاویز پیش کر دیں‘جس میں انتظامی ڈھانچہ پہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کی گرفت مضبوط بنانے کے علاوہ ‘عام آدمی کو پولیس فورس کی دست درازی سے بچانے اورشہریوں کی نجی زندگی کو خفیہ اداروں کی مداخلت سے محفوظ بنانے کی قابل ِعمل تجاویز شامل ہیں‘لیکن توقع کے عین مطابق‘ پولیس خود کو کسی بھی قسم کے سول کنٹرول اور جوابدہی کے کسی میکانزم کے تحت لانے کیخلاف مزاحمت پہ اتر آئی۔دراصل ریفارمز کمیٹی کے پیش ِنظر فوری توجہ کے طالب دو مسائل ہیں؛پہلا یہ کہ پولیس فورس اور سروسز فراہم کرنے والے محکموں پہ ملک یا صوبہ کے چیف ایگزیکٹوکی اتھارٹی کیسے قائم ہو؟دوسرے عام شہری کو پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگراداروں کی دست درازیوں سے کیسے بچایا جائے؟
امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے پاس عام شہریوں کیخلاف پولیس فورس کی دست درازیوں کے مداوا کا کوئی نظام موجود نہیں۔پولیس ‘اگرکسی کو تشدد کا نشانہ بنائے یا گولی ماردے تو اس کیخلاف انکوائری یا تفتیش بھی خود پولیس کرے گی۔یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی پولیس اہلکار منصفانہ تفتیش کر کے اپنے پیٹی بند بھائی کو تختہ دار تک پہنچائے؟یہی وجہ ہے کہ پولیس کے ہاتھوںانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ہزاروں واقعات منظرعام پہ آنے کے باوجود ہمارا نظام عدل آج تک کسی بھی پولیس اہلکارکو سزا نہیں دے سکا۔سینکڑوںملزمان کی مبینہ پولیس مقابلوں میں ہلاکت‘بیگناہوںکو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرکے ان کی زندگیاں برباد کرنے‘تھانوں میں مردوں‘عورتوں اور بچوںکو حبس ِ بیجا میں رکھ کے ان سے غیر انسانی سلوک روا رکھنے کے سینکڑوں واقعات میڈیا میں ہر روز رپورٹ ہوتے ہیں ‘لیکن یہ ساری قہرمانیاں قانونی پیچیدگیوں میں گم ہوکے رہ جاتی ہیں۔ہرچند کہ عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر وقتی طور پہ پولیس اہلکاروں کیخلاف کیس درج کر کے گرفتاریاں بھی کی گئیں‘ لیکن ایسے مقدمات کوہموار عدالتی عمل کے ذریعے منطقی انجام تک پہنچانے کی نوبت کبھی نہیں آئی۔پہلے تو ایسے تمام مقدمات کی تفتیش خود پولیس کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے قانونی عمل کے ذریعے کسی بھی پولیس والے کوانجام تک پہنچانا ممکن نہیں ہوتا۔ دوسرا پولیس مظالم کیخلاف قانونی چارہ جوئی کرنے والوں کو عدالتیں تحفظ نہیں دے سکتیں‘لہٰذا پولیس کے ستم رسیدہ تمام مظلوم خاندان بالآخر تھک ہارکے صلح پہ مجبور ہو جاتے ہیں‘اگر اس ملک کے عدالتی نظام میں کوئی ایک ایسی نظیر موجود ہو‘ جس میں پولیس اہلکار کوکسی بیگناہ شہری کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے ‘حبس ِ بیجا میں رکھ کے جسمانی اور ذہنی اذیت پہنچانے‘چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرنے یا مبینہ پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل کے جرم میں کبھی سزا ملی ہو‘ تو سامنے لائی جائے۔انہی ستم کاریوں کے باعث معاشرے میں بڑھتی ہوئی گھٹن اور بے بسی رفتہ رفتہ نفرتوں میں ڈھل جائے گی۔آج بھی منتخب حکومت نے اگر پولیس میں اصلاحات متعارف نہ کرائیں‘ تو سوسائٹی کا پیمانہ صبر لبریز ہو جائے گا۔شاید اسی اجتماعی خواہش کے پیش ِنظر وزیراعظم عمران خان کی ریفارمز کمیٹی نے سسٹم میں توازن لانے کی خاطر حسب ِذیل تجاویز مرتب کی ہیں:۔
۱)شہریوں کی شکایات کے ازالہ کیلئے پولیس کمپلینٹ اتھارٹی قائم کی جائے گی‘ جو کسی بھی کیس میں پولیس کے مبینہ غیرمناسب رویہ کی چھان بین کرے گی۔
۲)یہ اتھارٹی ایک ریٹائرڈ پولیس افسر‘ایک قانون دان‘سرکاری وکیل استغاثہ اورایک سرکاری افسر پہ مشتمل ہو گی‘جو شہریوں کے مسائل اورشکایات پہ ازخود کارروائی کر سکے گی۔
۳)وزیر اعلیٰ کے ماتحت اس اتھارٹی کے اراکین کو پولیس ریکارڈ تک رسائی ہو گی ۔
۴)صوبائی حکومت اور آئی جی پولیس تفتیش کے طریقہ کار اور دیگر کاموں سے متعلق جامع طریقہ کار مرتب کریں گے۔
۵) فرانزک سائنس ایجنسیوں کو صوبوں میں متحرک کیا جائے گا۔
۶)ہرسال آئی جی پولیس صوبائی حکومت کو محکمہ کے جائزہ کا شیڈول فراہم کرے گا۔
۷)تمام جائزہ رپورٹس کو صوبائی کابینہ کی منظوری کے بعد شائع کیا جائے گا۔
۸)ان رپورٹس کو کابینہ کی کمیٹی برائے امن عامہ کی میٹنگ میں پیش کیا جائے گا۔
۹)جائزہ یونٹوں میں تعینات تمام اہلکاروں کا سندیافتہ ہونا لازمی ہو گا۔
۱۰)صوبائی محکمہ داخلہ کے تحت پبلک سیفٹی کمیٹی کیلئے کمیشن بنایا جائے گا‘جو ایک ڈائریکٹر جنرل اور چھ انسپکٹرز پہ مشتمل ہو گا۔
۱۱)ایک ڈیموکریٹک احتساب کمیٹی بھی بنائی جائے گی‘جو وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے ماتحت کام کرے گی‘جس میں ایک کنوئنرسمیت‘تین یا چار صوبائی وزرائ‘ چیف سیکرٹری‘سیکرٹری داخلہ‘ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ‘جوائنٹ ڈائریکٹر آئی بی اور آئی جی پولیس شامل ہوں گے۔
۱۲) کمیٹی پولیس اصلاحات کیلئے مختص فنڈ اور امن و امان کے حوالے سے سفارشات پیش کرے گی۔
۱۳)تھانوں کے فنڈز پہ ایس ایچ اوز کو کامل اختیارات حاصل ہو گا۔
۱۴)صوبائی حکومت محکمہ پولیس کے تمام اخراجات سے متعلق تفصیلی طریقہ کار جاری کرے گی۔
۱۵)ہر تھانہ کے اخراجات کا تعین کیا جائے گا۔
۱۶)افسران کی تعیناتی(ڈی پی اوز‘آر پی اوز اور ایڈیشنل آئی جی)کیلئے سینئر افسران پر مشتمل بورڈ بنایا جائے گا۔یہ بورڈ افسران کی کاکردگی سے متعلق رپورٹ آئی جی پولیس کو دے گا‘ جو تین افسران کے نام وزیراعلیٰ کو بھجوائیں گے۔
۱۷)حکومت جواز پیش کر کے کسی بھی پولیس افسر کا قبل از وقت تبادلہ کر سکے گی۔
۱۸)انتظامی اور تحقیقاتی عہدوں پہ صرف تربیت یافتہ پولیس افسران تعینات ہونگے۔
۱۹)تمام شراکت داروں کی مشاورت سے ڈھانچہ تیار کیا جائے گا‘ جو کابینہ سے منظور شدہ ہو گا۔مزید یہ کہ پولیس میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا۔سیف سٹی اتھارتی کو تمام صوبوں میں قائم کرنا۔آئی جی کے تابع سیف سٹی اور سپیشل برانچ کو وزیراعلیٰ کے ماتحت لانا۔آئی بی اور آئی ایس آئی کی طرح پولیس افسران کے علاوہ سویلین کیڈر کی علیحدہ بھرتی کرنا۔استغاثہ کو بااختیار اور مستحکم کرنا۔
محکمہ داخلہ کے تحت کابینہ کی سب کمیٹی برائے قانون و آرڈر مقدمات کو جلد نمٹانے سے متعلق جائزہ لے گی۔پولیس کی آپریشنل خود مختاری کو یقینی بناتے ہوئے حکومت کو اختیار ہو گا کہ وہ پولیس سے کارکردگی بارے جواب طلب کر سکے۔
یہ ہیں وہ سمجھ میں آنے والی اصلاحاتی تجاویز‘ جن کے خلاف مزاحمت کر کے پولیس نے اپنی سرکشی کو بے نقاب کردیا۔وہ لوگ جو عوام کیلئے لامحدود تعزیرات کے دام بچھاتے ہیں اور اس دام کو قانونی تحفظ کا نام دیتے ہیں‘ان سے اگر اپنی قانونی حدود و قیود پوچھی جائیں تو وہ تڑپ اٹھتے ہیں‘حکومت اصلاحات کے ذریعے ہی پولیس فورس کو ریگولیٹ کر کے اپنی اتھارٹی قائم کر سکتی ہے‘ کیونکہ وہ حکومت جسے اپنی فورسز پہ مناسب کنٹرول حاصل نہیں ہوتا‘عوام اسے اپنی نظروں سے گرا دیتے ہیں۔بے شک‘جب تنخواہ دار سرکاری اہلکار شہریوں کے جان مال اور عزت کی قیمت پہ اپنے ادارہ جاتی مفادات کو پروان چڑھانے پہ کمربستہ ہوں تو ریاست کمزور ہوجاتی ہے۔
سپائی نوزا نے کہا تھا کہ مملکت کوشہری کے ذہن پہ جتنا کم اختیار ہو گا‘دونوں کے حق میں مفید ہو گا‘مملکت کا اختیار اگر اجسام و افعال سے بڑھ کرانسانوں کے افکار و ارواح تک جا پہنچے ‘تو نشو ونما ختم اورمعاشرہ برباد ہو جاتا ہے۔