"AAC" (space) message & send to 7575

تاریخ کی جبریت یا مکافاتِ عمل

تاریخی اعتبار سے خیبر پختونخوا کا دوسرا بڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اپنے سماجی روّیوں اور سیاسی فعالیت کی بدولت ہمیشہ برصغیر پاک و ہند کی سیاست کے مرکزی دھارے پہ اثر انداز ہوتا رہا اور یہاں کے عظیم سیاسی کارکنوں اوربلند قامت رہنماوں نے قومی سیاست پہ ناقابل فراموش نشانات مرتب کئے۔ہرچند کہ روایتی اعتبار سے شہر کی مقامی سیاست نوابوں‘سرداروں اور جاگیرداروں کے گرد گھومتی رہی ‘لیکن قومی اور نظریاتی سیاست کے حوالہ سے یہ بیدار شہر روزِ اول سے ہی جمعیت علمائے ہند کا سیاسی گڑھ تھا‘تاہم 1931 ء کے ہندو مسلم فسادات کے بعد پہلی بار یہاں کے سیاسی تمدن میں آل انڈیا مسلم لیگ کو قدم جمانے کے مواقعے ملے(یہ اچانک کایا کلپ جس جامع بحث کی متقاضی ہے‘ اس کی ان صفحات میں گنجائش نہیں)۔
1937ء کے الیکشن میں یہاں کی تمام صوبائی نشستیں آزاد امیدواروں نے جیت لیں ‘تاہم کانگریس نے آل انڈیا قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں جمعیت علمائے ہند کے کوٹہ میں سرداراسد جان گنڈا پورکو ایم ایل اے منتخب کرا لیا۔اس نشست کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انتخابی مہم چلانے کیلئے مولانا حسین احمد مدنی خود ڈیرہ اسماعیل خان تشریف لائے تھے‘اسی سال ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی اورنگ زیب خان گنڈا پور نے صاحبزادہ عبدالقیوم خان کے ساتھ ملکر این ڈبلیو ایف پی(اب خیبرپختونخوا )مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور اپنی چھوٹی سی مورس گاڑی پہ مولانا شوکت علی خان کو پورے این ڈبلیو ایف پی کا دورہ کروایا۔صاحبزادہ عبدالقیوم کی وفات کے بعد 1938ء میں مسلم لیگ کی طرف سے سردار اورنگ زیب خان کو صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نامزد کر دیا گیا‘اسی سال مقامی صحافی شہزادہ فضل داد خان نے ڈیرہ اسماعیل خان میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی‘انہی دنوںڈیرہ اسماعیل خان مسلم لیگ کی دعوت پر(صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس فائز عیسیٰ کے والد)قاضی محمد عیسیٰ نے ڈی آئی خان کا دورہ کر کے لیگی کارکنوں کی حوصلہ افزائی فرمائی۔
1939 ء کے ہندومسلم فسادات کے بعد مسلم لیگ اس خطے کی مقبول ترین جماعت بن کے ابھری‘مسلم لیگ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر کانگریسی قیادت1941ء میں موہن چندگاندھی کو ڈیرہ اسماعیل خان لائی ‘لیکن گاندھی جی کی بھاری بھرکم شخصیت بھی مسلم لیگ کی بڑھتی ہوئی پذیرائی کی راہ روک نہ سکی۔1946ء میں کانگریسی وزیراعلیٰ ڈاکٹر خان کی دعوت پر وزیراعظم ہندجواہرلعل نہرو‘ڈی آئی خان تشریف لائے‘ تو لیگی کارکنوں نے ان کے خلاف زبردست مظاہرے کروا کے نہرو کو جلسہ منسوخ کرکے واپس پلٹنے پہ مجبور کر دیا۔اکتوبر1948 ء میں گورنر جنرل قائد اعظم محمدعلی جناح جب پہلی بار ڈیرہ اسماعیل خان تشریف لائے تو یہاں کے مشتعل سیاسی کارکنوں نے انہیں گارے کے تھال میں چارہ پیش کر کے تقسیم ہند کے بعد پیدا ہونے والی معاشی بدحالی پہ انوکھے انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈکرایا۔1964 ء کے صدارتی الیکشن میں مولانا مفتی محمود نے عورت کی حکمرانی کے خلاف فتویٰ دیکر جنرل ایوب خان کی حمایت کی تو یہاں کے جمہوریت پسند باسیوں نے محترمہ فاطمہ جناح کا فقید المثال استقبال کر کے تاریخ رقم کر ڈالی۔اس دورہ کے موقع پر سابق وزیراعظم چوہدری محمدعلی اورعوامی لیگ پنجاب کے صوبائی صدر ملک حامد سرفراز بھی مادر ملت کے ہمراہ تھے۔1968ء میں ذوالفقار علی بھٹو صدرایوب خان کے خلاف اپنی سیاسی مہم کے سلسلہ میں پہلی بار ڈیرہ اسماعیل خان تشریف لائے تو معروف سیاسی کارکن حق نوازگنڈا پور نے انہیں شیشے کی بوتلوں میں ان بارشی جوہڑوں کا کیڑوں والا پانی پیش کیا ‘جہاں سے ان دنوںانسان اور جانور ایک ساتھ پانی پینے پر مجبور تھے۔ڈیرہ اسماعیل خان ہی میں پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو کے جلسہ پہ آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کی گئی‘اس خبر کو تمام عالمی ذرائع ابلاغ نے اٹھایا تو بھٹو صاحب کی سیاسی تحریک راتوں رات مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے لگی۔
شاید اسی لئے 1970ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے لاڑکانہ‘کراچی(لیاری)‘ملتان اور لاہور کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 13 سے الیکشن لڑ کے اس خطے کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنا ضروری سمجھا۔ این ڈبلیو ایف پی کے اس دورافتادہ حلقہ میں بھٹو صاحب کی طرف سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد کونسل مسلم لیگ کے صدر ممتازدولتانہ‘یوسف خٹک‘بہروز سعید اور سرانجام خان جیسے اینٹی بھٹو رہنماؤںنے بھی یہاں انتخابی جلسوں سے خطاب کیا؛اگرچہ مولانا فضل الرحمن کے والد گرامی مولانا مفتی محمود نے اس حلقہ میں بھٹو صاحب کو شکست کا مزا چکھایا (بھٹو صاحب کے مقابلے میںمفتی محمودکی کامیابی کا اصل راز کیا تھا؟ اس پر سے کسی مناسب وقت پر پردہ اٹھائیں گے)‘تاہم انتخابی شکست کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے اس خطے سے اپنی ذہنی اور سیاسی وابستگی کو کبھی کمزور نہ ہونے دیا۔وزیراعظم بننے کے فوری بعد بھٹو صاحب نے ڈیرہ اسماعیل خان میں گومل یونیورسٹی کے قیام کے علاوہ سی آر بی سی کینال کی تعمیر کی بنیاد رکھ کر اس خطے کی تقدیر بدل ڈالی۔گومل یونیورسٹی کی بدولت غریب و نادر خاندانوں کے ہزاروں ذہین طلبہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے بہترین روزگار کے علاوہ معاشرے میں باعزت مقام پاچکے اور سی آر بی سی کینال نے ساڑھے تین لاکھ ایکڑ اراضی کو آبپاشی کے وسائل مہیا کر کے یہاں کے دیہی سماج سے غربت و افلاس کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ڈیرہ اسماعیل خان کے باسی بھٹو صاحب کے ان احسانات کو کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے‘پھر قومی تاریخ میں ایک ایسا وقت بھی آیا‘جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں قائد ایوان ذوالفقار علی بھٹو اوراپوزیشن لیڈر مفتی محمود ‘ دونوں کا انتخابی حلقہ ڈیرہ اسماعیل خان تھا‘پھر 1977ء میں بھٹو صاحب کے خلاف پی این اے کی تحریک کی قیادت ڈیرہ اسماعیل خان سے منتخب ایم این اے مفتی محمود کے حصہ میں آئی۔بدقسمتی سے نظام مصطفیٰؐ کی یہ تحریک ضیا الحق کے مہیب مارشل لاء پہ منتج ہوئی۔دلچسپ امر یہ ہے کہ 1997ء کے انتخابات میںوزیراعظم عمران خان بھی اسی حلقہ سے مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں الیکشن لڑ چکے ہیں۔ اس الیکشن میںمسلم لیگ ن کے عمرفاروق بیاسی ہزار ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے تھے۔مولانا اور عمران دونوں الیکشن ہار گئے۔
آج گردش ایام ایک بار پھر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے مولانا فضل الرحمن کو1997ء میں ڈیرہ اسماعیل خان ہی سے اپنے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے وزیراعظم عمران خان کے خلاف ویسی ہی ملک گیر تحریک اٹھانے میں سرگرداں ہیں ‘جیسی 1977ء میں وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف ان کے والدگرامی مفتی محمود نے چلائی تھی‘لیکن تاریخ کس طرح تقدیر کی مجبوریوں کو بے نقاب کرتی ہے‘42 سال قبل‘ جس مفتی محمود نے تحریک نظام مصطفیٰؐ چلا کر منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کے ضیا الحق کے مارشل لاء کی راہ ہموار بنائی تھی‘ آج انہی کے بیٹے مولانا فضل الرحمن ایک سویلین بالادستی کی تحریک منظم کر کے اپنے والد گرامی کی ہاتھوں سے لگائی گئی گانٹھوں کو اپنے دانتوں سے کھولنے کی کوشش میں مشغول ہیں۔
ستم ظریقی کی انتہا دیکھئے کہ جنرل ضیا الحق کے مارشل سے سب سے زیادہ فیض پانے والے شریف خاندان کی عورتیں‘مرد اور بچوں سمیت سب لوگ اس وقت آمریت کے خاتمہ اور سویلین بالادستی کی خاطر ناقابل ِفراموش قربانیاں دیکر اپنے گناہوں کی تلافی کرنے پہ ویسے ہی مجبورنظر آتے ہیں‘جیسے ایوبی آمریت سے فیضیاب ہونیوالے بھٹو صاحب اور ان کے خاندان کو جمہوریت کی بحالی کیلئے لازوال قربانیاں دینا پڑیں ۔
جولیٹ سیزر نے کہا تھا کہ ''میں حیران ہوں کہ مختلف طریقے اختیار کرنے کے باوجود لوگ ایک ہی جیسے انجام سے دوچار کیوں ہوتے ہیں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں