فی الحال میاں نوازشریف کی علاج کی غرض سے بیرون ِملک روانگی سے جڑی خبریں‘ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی پسپائی پہ سایہ فگن رہیں گی اور مرکزی دھارے کے میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا بھی سیاست میںانسانی مجبوریوں کے استحصال کے خلاف جذباتی فضا بنانے میں مشغول نظر آئے گا‘لیکن یہ عارضی عوامل سیاسی بساط پہ مولانا فضل الرحمن کی شکست کے مہلک اثرات کو زائل نہیں کر سکتے۔
بلاشبہ مولانافضل الرحمن نے چالیس سال پہ محیط اپنی سیاسی متاع کو صرف ایک ہی داؤ میں ہار کے زندگی کا سب سے بڑا جُوا کھیلا۔دونوں بڑی جماعتوں‘پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نے انہیں روکنے کی کوشش کی‘ لیکن مولاناصاحب طوفان اٹھانے کا جو تہیہ کئے بیٹھے تھے ‘سو وہ کر گزرے۔انہوں نے اس آزمائش کی خود آرزو کی اور مصائب سے پنجہ آزمائی کا شوق پورا کیا‘اگر وہ کسی بھی جنگ کے شہداکی مانند اپنے ہی منتخب کردہ راستے پہ ثابت قدم رہ کر زندگی کی بازی ہار دیتے تو اُس متاع غرور کو بچا سکتے تھے‘ جوانہیں اپنے اکابرین سے ورثہ میں ملی تھی‘لیکن شاید وہ کسی اعلیٰ ترین مقاصد کیلئے نہیں ‘بلکہ اپنے حریف کو سبق سیکھانے یا پھر کچھ سیاسی کامیابیوں کے حصول کی توقع پر برسرمیدان آئے‘اس لئے کچھ ہاتھ نہ آنے کی صورت میں وہ سرجھکائے بے نیل و مرام واپس لوٹ گئے۔علامہ اقبالؔ نے کہا ہے۔؎
متاعِ بے بہا‘ لٹ گئی ‘اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزہ خوں ریز ہے ساقی
سیاسی ہزیمت کی خفت کم کرنے کی خاطر مولانا فضل الرحمن نے پلان بی کے تحت اپنے اجڑے ہوئے کارکنوں کو نظم و ضبط قائم رکھتے ہوئے ملک کی دُور افتادہ بستیوں میں علامتی احتجاج اور سڑکیں بلاک کرنے کی تلقین کے ساتھ رخصت کیا؛حالانکہ ایک اچھے جرنیل کی مانند لمبی مزاحمت کیلئے وہ اپنی پوری قوت کو ایک مرکز پہ یکجا کرکے خود سے بڑی طاقت کے ساتھ مقابلہ کرسکتے تھے۔اب‘ ملک کے طول و ارض میں بکھرے ہوئے یہ مضمحل کارکن ریاست کے طاقتور انتظامی ڈھانچہ کے مقابلہ میں خود کو زیادہ کمزور اور بے بس پائیں گے۔
پشین‘لورالائی لکی مروت‘کوٹ ادو اور تونسہ جیسے دُور افتادہ علاقوں میں ہونے والے مظاہرے مرکزی دھارے کی میڈیا میں جگہ بنا پائیںگے ‘نہ حکومت پہ اثرانداز ہونے کے قابل رہیںگے۔ جیسا بھی تھا‘ اسلام آباد میں مولانافضل الرحمن کے دھرنا کو عالمی میڈیا کافی اہمیت دے رہا تھا اور دنیا بھر کے سفارت کار اپنے اپنے ملکوں کو روزانہ کی بنیاد پہ مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد میں دئیے گئے دھرنا کی لمحہ بہ لمحہ رپوٹس بھجواتے دکھائی دیتے تھے۔
اسلام آباد سے دھرنا والوں کی رخصتی حکومت کا نفسیاتی بوجھ ہلکا کرگئی۔ یہ عین ممکن ہے کہ اگلے چند روزمیں احتساب ادارے مولانا فضل الرحمن کے معتمد خاص سابق وزیراعلیٰ اکرم درانی کو غیرقانونی بھرتیوں کے کیس میں گرفتار کرنے کے علاوہ خود مولانا فضل الرحمن کو کسی صحت افزاء مقام پر نظر بند کرکے راہ راست پہ لانے کی کوشش کرے۔مولانافضل الرحمن‘ سیاست میں نو وارد نہیں تھے‘بلاشبہ جہاں دیدہ اور بالغ النظر سیاستدان کی طرح انہیں معلوم ہو گا کہ سیاست میں تبدیلیاں ہمیشہ طاقت کی ایما پہ آتی ہیں۔اس لیے مطلق العنانی کا مقابلہ نظم و ضبط سے نہیں ‘بلکہ بدنظمی اور بے ترتیبی سے کیا جا سکتاہے‘اگر دُور دراز کی سڑکیں بلاک کرنے کی بجائے دھرنے والے اسلام آباد کے ڈی چوک میں ہنگامہ آرائی کرتے تواشرافیہ کی پریشانی قائم رہ سکتی تھی‘لیکن اس قدر آسانی کے ساتھ دھرنا کی تحلیل نے حکمران اشرافیہ کے حوصلے بڑھا دئیے۔واضح رہے کہ اس سے قبل قاضی حسین احمد مرحوم کی ایسی ہی غیرمعمولی فعالیت جماعت اسلامی جیسی منظم اورکہنہ مشق جماعت کو سیاست کے مرکزی دھارے سے جدا کر کے خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن تک محدود کرنے کا سبب بنی۔اب ‘مولانا فضل الرحمن جیسے عملیت پسند سیاستدان کے ذہنی اضطراب نے جے یو آئی جیسی قومی سطح پہ ابھرتی ہوئی مذہبی قوت کو سیاست کے قومی دھارے سے الگ کر کے تنہائی کی تاریکیوں میں دھکیل دیا۔
بلاشبہ مولانافضل الرحمن سیاسی تنہائی کے ان اندھیروں سے ٹٹول ٹٹول کے نکلنے کی کوشش ضرور کریں گے‘ لیکن اسلام آباد دھرنا میں مولانا فضل الرحمن کا آخری خطاب یقین کی قوت سے عاری شخص کی جذباتی التجاؤں کے سوا کچھ نہیں تھا۔؎
کسے معلوم ہے اس کا مقدر پھر کہاں ہو گا
پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہو جائے
لگتا ہے کہ 1977ء کی تحریک نظام مصطفیٰ کے نتیجہ میں قومی سطح پہ ابھرنے والی مذہبی جماعتیں اب واپس اپنے تنگ دائروں میں سمٹتی جائیں گی اور بساط سیاست پہ ایک بار پھر سیکولر جماعتوں کے آشفتہ سر کارکنوں کی راہیں کشادہ ہوتی جائیں گی۔
سویلین بالادستی کی خاطر مقتدرہ قوتوںکے خلاف مزاحمت کی تحریک ختم نہیں ہو گی‘ تاہم اب اس کی عنان ایک بار پھر نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کے ہاتھ آ جائے گی اور یہی مہیب پسپائی بہت جلد قومی سیاست سے جے یو آئی کے تذکرہ کو محو کر کے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سیکولر جماعتوںکو آگے بڑھنے کے مواقعے فراہم کرے گی۔
لاریب‘سویلین بالادستی کے حصول کی یہ پیچیدہ جدوجہد‘جس نے دوستی ودشمنی کے علاوہ سماجی رشتوں کے مفاہیم بدل دیئے‘دراصل ایک ایسے آزاد اور روشن خیال معاشرے کی تشکیل کا ٹول بنتی نظر آتی ہے‘جس سے مذہبی سیاست کی مضمرات کو سنبھالنے میں مدد ملے گی‘لہٰذا مقتدرہ کے خلاف جوں جوں یہ جدوجہد آگے بڑھتی جائے گی‘ توں توں سیاست میں مذہبی قیادت کا کردار گھٹتا جائے گا۔بائیں بازو کیلئے مولانا فضل الرحمن کا یہ یادگار کردار اس لحاظ سے قابلِ صد تحسین سمجھا جائے گا کہ سماجی آزادیوں اور جمہوری حقوق کے حصول کی خاطر ان کی جماعت بارش کا پہلا قطرہ بن کے اس دھرتی کے سینہ میں تڑپتی پیاس کو کچھ کم کرنے کا سامان ضرور بن گئی۔
بلاشبہ قومی سیاست میں برپا یہ ناشائستہ اوراعصاب شکن کشمکش اس جمود پرورمعاشرے کی فکری حرکیات کو بدلنے کے اسباب بھی مہیا کر رہی ہے۔
آج سوشل میڈیا پر ہماری نوخیزنسلیں‘خونی رشتوں کی نزاکتوں‘پاور پالیٹیکس کے تقاضوں‘انسانی رویوں کے ساتھ بدلتی خیر وشر کی صورتیں اور اجتماعی زندگی کے اعلیٰ اخلاقی اصولوںکے درمیاں توازن تلاش کرنے کی بحث میں مصروف نظر آتی ہیں۔یہ صحت مند سرگرمی شاید مذہبی تعصبات سے آلودہ سیاسی نظریات اور نسلی و گروہی عصبیتوں سے مملو سماجی رویوں کو معمول پہ لانے میں مددگار ثابت ہو‘تاہم فطرت اپنی تدبیر مخفی سے زندگی کی بوقلیمونی اور انسانی رویوں میں پائے جانے والے بے پناہ تنوع کو دلچسپی اور مقصدیت سے ہم آہنگ رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ناتواں انسان دکھوں سے لبریز اس مختصر سی زندگی کو خوشگوار بنانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
تصحیح:میرے گزشتہ کالم بعنوان'' تاریخ کی جبریت یا مکافاتِ عمل‘‘ میں قائداعظم محمدعلی جناح کی ڈیرہ اسماعیل خان آمد کی تاریخ مجھ سے سہواً اکتوبر1948ء لکھی گئی۔دراصل بابائے قوم اپریل1948ء میں ڈیرہ اسماعیل خان تشریف لائے تھے۔اس غلطی کی جانب توجہ مبذول کرانے پہ راقم سینئر صحافی اور محبی جنابِ الطاف حسن قریشی کا ممنون ہے ۔