ایران اور امریکہ نے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے مناسب حد تک تناؤکم کر کے براہ راست تصادم کے فوری خطرات سے خود کو نکال لیا ہے‘ لیکن باوجود اس کے دونوں ملکوںکے مابین ایسے تنازعات موجود ہیں جو جنگ کے امکانات کی افزائش کا سبب بنتے رہیں گے۔اگرچہ ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے ٹویٹ کیا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے ردعمل میں ہم نے عراق میں امریکہ کے فوجی اڈوں پہ حملوںکو نمٹا لیا اور میرا ملک کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتا‘ تاہم ایران کسی بھی جارحیت کے خلاف اپنے دفاع کے حق سے دستبردار نہیں ہو گا۔یعنی ایرانی مقتدرہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا انتقام اور 2018 ء کے بعد لگائی گئی اقتصادی پابندیوں کے خلاف مزاحمت ترک نہیں کرے گی اور اسی مقصد کے حصول کی خاطر ایران ایک بار پھر اپنی پراکسیز کے ذریعے دنیا بھر میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی اپنائے گا۔دوسری جانب امریکہ اور بالخصوص صدر ٹرمپ کے بارے کوئی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔ان کی افتادِ طبع ہر آن نئے بحرانوں کو تخلیق کرتی رہے گی۔صدر ٹرمپ نے قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد اپنی پہلی میڈیا رونمائی میں ایران کی ٹیکسٹائل اور لوہے کی برآمدات کو محدود کرنے کی خاطر اقتصادی پابندیاں مزید سخت کرنے کا عندیہ تو دیا تھا‘ لیکن ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے معاملے میں خاموشی اختیار کر کے ابہام کو برقرار رکھا۔پوری دنیا کی طرح خود پینٹا گون کو بھی معلوم نہیں کہ وہ مڈل ایسٹ کی طرف جا رہے ہیں یا وہاں سے نکلنے والے ہیں۔ جس صدر ٹرمپ نے عراق ‘ شام اور افغانستان سے فوجیں نکالنے کا ببانگ دہل اعلان کیا‘وہی اب مڈل ایسٹ میں اضافی فورسز کی تعیناتی کے اسباب خود مہیاکر رہا ہے۔جس وقت پینٹاگون نے خط لکھ کر عراق سے فوجیں واپس بلانے کی تجویز دی اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ایران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی بات کر رہا تھا‘ عین اُسی وقت امریکن صدر کی ایران کو'' صفحہ ہستی سے مٹانے‘‘ کی دھمکی نے دنیا کو ششدرکر دیا۔وائٹ ہاؤس کی طرف سے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل بارے دی گئی کلاسیفائیڈ بریفنگ نہ صرف ڈیموکریٹ اراکین کے اطمنان کیلئے ناکافی ثابت ہوئی بلکہ کم از کم دو ریپبلکن ارکان نے بھی فیصلہ سازی کے عمل سے مقننہ کو دور رکھنے کی پالیسی پہ برہمی کا اظہار کیا۔تاہم مغربی سفارت کار پیش گوئی کر رہے ہیں کہ ایرانی قیادت جانتی ہے کہ وہ امریکہ سے براہ راست جنگ کی سکت نہیں رکھتی‘ اس لیے وہ بدلہ لینے کی خاطر دوبارہ پراکسی جنگوں کی مہیب تاریکی میں پلٹنے کی خواہشمند ہے اورغالب امکان یہی ہے کہ دونوں ممالک براہ راست جنگ کی بجائے امکانی طور پہ ایک بار پھرکسی تیسرے فریق کی وساطت سے اسی روایتی کشمکش کی طرف لوٹ جائیں گے جو پچھلے چالیس سالوں سے ان کے مابین برپا چلی آ رہی تھی‘یعنی خلیج فارس میں امریکی آئل ٹینکرز کو ہراساں کرنے کے علاوہ سعودی عرب کی تیل کی صنعت اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے اوراسرائیلی ریاست کے خلاف کھلی یا چھپی کارروائیاں کی جا سکتی ہیں۔
ابھی حال ہی میں ایرانی قیادت نے دھمکی دی ہے کہ اب اگر امریکہ نے جارحیت کی تو ایران براہ راست اسرائیل کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرے گا۔امریکہ‘برطانیہ اور روس سمیت عالمی طاقتوں نے ایران کی اس دھمکی کو نہایت سنجیدگی سے لیا‘ کیونکہ مغربی ممالک کی خارجہ پالیسی اسرائیل کی سلامتی کے محور پر گھومتی ہے‘اس لیے ایران کی جانب سے اسرائیل کے خلاف ممکنہ جارحیت نے دنیا کو الرٹ کر دیا۔حقیقت یہ ہے کہ یورپی ممالک کوپچھلی کئی صدیوں سے یہودیوں کی آباد کاری کا مسئلہ درپیش رہا ‘تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی طاقتوں نے یہودیوں کیلئے فلسطین میں نہ صرف الگ مملکت کا قیام یقینی بنایا بلکہ اسے مشرقِ وسطیٰ کی طاقتور ریاست کے طور پہ اُبھرنے میں بھی مدد دی؛چنانچہ اب بھی اگر اسرائیل محفوظ نہیں تودنیا ایک بار پھر عالمی جنگ کی طرف بڑھ جائے گی۔گویا‘عالمی جنگ کی کنجی اس وقت ایران کے ہاتھ میں ہے‘ وہ جس وقت چاہیے اسرائیل پہ حملہ کر کے پوری مغربی دنیا کو ایٹمی جنگ کے جہنم میں گھسیٹ سکتا ہے۔اسی لیے عالمی طاقتیں ایران کے خلاف براہ راست کارروائی کی بجائے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے اسے بتدریج تحلیل کرنے کی حکمت عملی پہ عمل پیرا ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابوبکر بغدادی کی داعش‘بن لادن کی القاعدہ اور ابو مصعب زرقاوی کی التوحید و الجہاد جیسی تنظیمیں صرف ایران کی دشمن نہ تھیں بلکہ اسرائیل کو بھی ان سے خطرات لاحق تھے‘اس لیے مغربی طاقتوں نے ان تنظیموں کو ختم کرنے کیلئے بلواسطہ اور بلاواسطہ طور پہ ایران کے ساتھ گٹھ جوڑ قائم رکھا۔ ایران کے صدر روحانی نے بھی اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ''جنرل قاسم سلیمانی نے مڈل ایسٹ میں برسرپیکار جہادی گروپوں کے خلاف دلیرانہ مزاحمت کرکے یورپ کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا‘ لیکن اب ہم مڈل ایسٹ سے امریکی فورسز کو نکال کر دم لیں گے‘‘۔
بلاشبہ اوباما انتظامیہ نے خاموش حکمت عملی کے تحت ایران کی پاسدانِ انقلاب کی القُدس فورس کو عراق اور شام میں جہادی تنظیموں کے خلاف زمینی کارروائیوں میں استعمال کیا تو ایران کی گراؤنڈ فورسز نے متذکرہ ممالک کے طول و ارض میں اپنی گرفت مضبوط بنا لی۔اب اگر امریکہ نے عراق اور شام سے اپنی فورسز نکال لیں تو ایرانی فورسز وہاں اپنی گرفت مضبوط کر لیں گی۔تاہم اس وقت مغربی طاقتوں کا مخمصہ یہ بھی ہے کہ اگر مڈل ایسٹ سے ایرانی پراکسیز کی بساط لپیٹ دی گئی تو داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں پھر سر اُٹھا لیں گی جو ایران اور امریکہ نواز عرب مملکتوںکے علاوہ اسرائیل کیلئے بھی خطرہ بن سکتی ہیں اور اگر ایران اسی طرح عراق‘شام اور لبنان میں برسرپیکار رہا تو وہ مڈل ایسٹ کی زوال پذیر ریاستوں پہ اپنی بالا دستی قائم کر لے گا؛چنانچہ اس پیچیدہ صورتحال میں امریکہ سمیت مغربی طاقتیں سوئس گورنمنٹ کی مدد سے ایران کو بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے انگیج رکھنے کی منصوبہ بندی میں سرگرداں نظر آتی ہیں‘ تاکہ ایرانی قیادت کے عزائم کو محدودکر کے کسی جنگ کے بغیر ایران کی تسخیر کر لی جائے۔ عالمی معیشت کا پہیہ بھی مڈل ایسٹ کے تیل سے چلتا ہے‘ اس لیے خلیج عرب اور آبنائے ہرمز میں ایرانی بالادستی عالمی معیشت کیلئے مستقل خطرہ بن جائے گی ؛چنانچہ عالمی برادری خطے میں توازن پیدا کرنے کی خاطر ایران کے کردار کا تعین کرنے پہ مجبور نظر آتی ہے؛چنانچہ مستقبل میں مڈل ایسٹ میں امریکہ اور روس کے ساتھ ایران بھی ریجنل پاور کے طور پہ ایک حصہ دار بنتا دکھائی دیتاہے۔
اگرچہ جنگ کے موضوع پہ بحث ناگوار عمل سمجھا جائے گا ‘لیکن میرا خیال ہے کہ بتدریج ڈوبتی ہوئی اس مسلم دنیا کیلئے مغربی بالادستی سے نجات کا بہترین آپشن غیر محدودعالمی جنگ ہے۔ امریکہ‘ جس نے اپنے خطرناک اور جانبداراصولوں کے ذریعے دنیا بھر میںانسانی آزادیوںکا احاطہ کر لیا‘اس کا زوال تیسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں میں چھپاہے۔جس طرح دوسری جنگ عظیم میں فتح کے باجود برطانیہ کی وہ عظیم سلطنت تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو گئی‘ جس میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا‘ اسی طرح آج بھی ایک عالمی جنگ مغرب کی فتح کے باوجود امریکی زوال کے اسباب مہیا کر سکتی ہے۔بصورت دیگرمغربی طاقتیں اپنی شاطرانہ چالوں سے مسلم دنیا میں جمہوری آزادیوں کو بحال ہونے دیں گی نہ مسلمانوں کیلئے اقتصادی خوشحالی کی راہیں کشادہ ہوسکیں گی۔