پچھلے دو تین مضامین میں ہم نے ریاستوں کی مجموعی ساخت کے اندر سیاسی جماعتوں کے متعین کردار کا ناقدانہ جائزہ لیا تو کئی دوستوں نے سماج میں جماعتوں کی فکری رہنمائی کا مقام‘نظریاتی اہمیت اورفیصلہ سازی میں عوامی تلویث کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے انہیں جمہوری نظام کیلئے مفید ثابت کرنے کے علاوہ پارٹی پالیٹیکس کو سیاسی ارتقاء اورسماجی فلاح کا ناگزیر محرک تسلیم کرانے پہ اصرار کیا۔اس لیے اس موضوع پہ مزید خامہ فرسائی کی ضرورت پیش آئی۔سیاسی جماعتوں کی ابتداء چونکہ بنیادی حقوق کے حصول اور سیاسی آزادیوں کی بحالی کے مطالبات سے ہوئی‘اس لیے لوگوں نے آسانی کے ساتھ انہیں عوامی مفادات کا نگہبان مان لیا؛ حالانکہ ہر سیاسی جماعت کا منشورحصول ِاقتدار سے مشروط رہا‘ یعنی پہلے مینڈیٹ دیکر عوام انہیں اقتدار کے ایوان تک پہنچائیں‘بعد میں وہ ان کے حقوق کی بازیابی اورسیاسی آزادیوں کی بحالی ممکن بنائیں گے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ جماعتیں بجائے خود ایسا وجود ہیں‘ جو انفرادی آراء اور شخصی آزادیوں کو پارٹی حرارکی میں سمو کے اپنے حامیوں پہ نفسیاتی کمانڈ قائم کرنے کے بعد بالآخر وسیع تر ریاستی کی تکمیل میں بروکار آتی ہیں۔پولیٹیکل پارٹیز کے ورکرزکو بظاہرتحفظ کا احساس ملتا ہے ‘مگر عملاً وہ جماعتی نظم و ضبط کے اسیر بن کے رہ جاتے ہیں‘جوں جوں جماعت کے حامیوں اورکارکنوں کی جماعتی انسیت بڑھتی ہے تُوں تُوں قبائلیت کی طرح ان کی پارٹی عصبیت گہری ہوتی جاتی ہے‘یوں بتدریج جماعتی سیاست سے وابستہ لوگ ایسی کیفیت ذہنی میں ڈوب جاتے ہیں‘ جس میں پلٹ کے اپنے رجحانات کا ناقدانہ جائزہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔آج سے کم و بیش چھ ہزار سال قبل معلوم تاریخ کے پہلے شہنشاہ حمورابی نے وسیع و عریض علاقوں میں پھیلے سماج کو قبائلی سرداروں کے ذریعے ریگولیٹ کیا۔ بعد ازاںوقت نے کروٹ بدلی اور انسانی سماج جب انبوہی جمہوریت کی طرف بڑھا تو ذہنی طور پہ مربوط گروہ اہمیت اختیار کرنے لگے‘جس کی موہوم سی شکل ہمیں سقراط کے یونان میں نظر آتی ہے۔
بلاشبہ ہر پھلتے پھولتے تمدن پہ ایسا زمانہ بھی ایسا ضرور آتا ہے‘ جب پرانے رجحانات نئے حالات پہ قابو پانے کیلئے ناکافی ثابت ہوتے ہیں؛چنانچہ ایک ہزار سال تک مغربی دنیا نے جمہوری جدلیات کی مختلف صورتوں کو آزمانے کے بعد بالآخر اس جمہوری نظام کے تصور کو اخذ کرلیا‘ جس میں سیاسی جماعتوں اور نظریاتی گروہوں کے علاوہ پیشہ ور تنظیمیں ریاستی وجودکو مربوط رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں؛چنانچہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ جب انتظامی گورنروں‘روایتی قبائلی سرداروں اور بااثر مذہبی رہنماؤں کی گرفت سماج پہ ڈھلی پڑ ی تو لوگوں کو کمانڈکرنے کی سائنس بدل گئی‘اسی ضرورت نے ریاست کو مقبول سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کی افزائش کی راہ دکھائی۔یہ ایک مشکل ‘مگر نفیس آرٹ تھا‘ جسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے سماجی نفسیات کا گہرا مطالعہ کرنے والے ماہرین کی خدمات لی گئیں۔اب ‘ ذرا غور کیجئے کہ جس وقت انگریز نے ہندوستان کی عنان سنبھالی تو اسے کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘ کیونکہ ریاست کی مرکزی اتھارٹی کمزور تھی‘اس لیے وہ مرکز گریزگورنروں‘سرکش راجوں اور مغرورقبائلی سرداروں کی قوت قہرہ کے ذریعے ریاست کو منظم رکھنے کی قوت کھو بیٹھی؛ایک فرسودہ بادشاہت کے بوجھ کے علاوہ بے لگام حاکموں کی ستم ظریفیوں نے رعایا کو پامال کر کے رکھا دیا تھا‘ظلم ناروا کی اس لہر نے لوگوں سے قومی وحدت کا ادراک‘شخصی خود داری کا شعور اور وطن سے وفاداری کا احساس چھین لیا‘یعنی سربراہ مملکت‘گورنروں‘راجاؤں اور نوابوں پہ محمول ریاستی ڈھانچہ منتشر اورلاکھوں انسانوں پہ مشتمل قومی وجود مضمحل ہو چکی تھی۔اس منہدم ہوتی سلطنت کے ملبہ تلے دبے مجبور لوگ کسی ایسے مسیحا کی تلاش میں تھے ‘جو انہیں امن اور نظم و ضبط عطا کرے۔انگریزوں میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی؛ چنانچہ چند سال کے اندر ایسٹ انڈیا کمپنی نے جدید سٹیٹ کرافٹ کی مدد سے بنگال میں اپنی اتھارٹی قائم کرکے نظم و ضبط قائم کر لیا‘ بلکہ کمپنی نے چند دہائیوں کے اندر برصغیر میں ایسا مربوط ریاستی ڈھانچہ کھڑا کر لیا جس میں بے پناہ کشش موجود تھی۔
برطانیہ عظمیٰ نے تھکے ہوئے مہاراجوں کی یبوست اور فرسودہ نوابوں کو ریاست کا ٹول بنانے کی بجائے عوامی حمایت کی حامل نئی لیڈرشپ پیداکر نے کیلئے پارٹی پالیٹیکس کا سسٹم متعارف کرایا‘ جسے عوام میں تیزی سے پذیرائی ملی‘کانگریس اور مسلم لیگ کو پنپنے کیلئے ساز گار ماحول دیا؛البتہ مطلوب سیاسی جماعتوں کی آبیاری کے دوران غیر ضروری طور پہ ابھرنے والی مذہبی تحریکوں کی حوصلہ شکنی کی گئی‘ریاستی مقتدرہ نے احرار اور خاکساروں کی مذہبی تحریکوں کو بے رحمی سے کچل دیا‘ہر سطح کی انتظامی اتھارٹی کو انہیں دھتکارنے کی ہدایت ملی‘انگریز کی جیلوں میں احراریوں کے ساتھ سختیاں روا رکھی جاتیں۔حسرتؔ موہانی جیسا عظیم انسان کئی سال تک صرف ایک نیکر میں جیل کی چکی پیستا رہا۔ دوسری جانب کانگریسی رہنماوں کو جیلوں میں بی کلاس ملتی‘انہیں پڑھنے کیلئے اخبارات‘ پان‘سگریٹ اور فنجان مہیا کئے جاتے‘مسٹر گاندھی اپنی فرمائش پہ جب چاہتے جیل چلے جاتے‘جس وقت وہ باہر آناچاہتے‘ وائسر کو خط لکھ کے ملاقات کیلئے وقت مانگ لیتے‘تاہم سیاسی تنظیم سازی اور نئی لیڈرشپ کی تخلیق کا عمل گداز ہونے کے ساتھ مہنگا بھی تھا ‘اس لیے اسے مہارت کے ساتھ انسانی نفسیات سے ہم آہنگ رکھنے کے علاوہ انڈیا کے بڑے سرمایہ داروں کو انہیں مالی معاونت دینے کا اشارہ بھی دیا گیا۔کانگریس کیلئے مسٹر ٹاٹا اور مسلم لیگ کیلئے اصفہانی‘سہگل‘حبیب‘عبداللہ ہارون اور دیگر بزنس ٹیکون سرمایہ فراہم کرتے رہے‘اگر سیاسی تحریکیں ریاست کی دشمن ہوتی تو انہیں کوئی سرمایہ دار یوں اعلانیہ مدد فراہم نہ کر سکتا۔
ذرا غور کیجئے ریاست کی اجتماعی وِل نے جب چند افراد کو نمایاں کرنے کا تہیہ کیا‘تو پہلے راہ میں انتظامی رکاوٹ کھڑی کر کے ان کی جدوجہد کی رفتار تیز کی گئی‘پھر گرفتاریاں کر کے عوامی ہمدردی کا رخ ان کی کی طرف موڑا گیا‘گرفتاری کی خبروں کو اخبارات میں نمایاں کوریج ملتی رہی‘اس عہد کے نظریاتی قلم کار اپنی شعلہ فگار تحریروں میں ان کے سیاسی کردار کو عوامی امنگووں کی ترجمانی قرار دیکرانہیں قومی ہیرو بنانے میں لاشعوری طور پہ مددگار بنے؛چنانچہ جب پیچیدہ قانونی عمل کے ذریعے کانگریسی لیڈروں کو جیل سے رہائی ملتی تو جذباتی عوام کا جم غفیر استقبال کیلئے موجود ہوتا۔مقبولیت کے نشہ سے سرشار ہو کے وہ بھی خود کو حقیقی ہیرو سمجھنے لگتے‘عوامی مقبولیت‘سیاسی اثر و رسوخ اور سماجی مقام مراتب جہاں عوام پہ ان کے سیاسی اثر کو بڑھانے کا وسیلہ بنتے‘ وہاں انہی مقام و مراتب کے کھو جانے کا خوف انہیں ریاستی اتھارٹی کے ساتھ وابستگی پہ مجبور رکھتا۔
اگر آپ گاندھی‘نہرو اور ابوالکلام آزاد کی خود نوشت پڑھیں تو ان کی سیاسی جدوجہد رومانوی داستانوں سے کم نہیں‘ لیکن عملاً وہ آزادی کے نقیب نہیں ‘بلکہ ریاستی مقتدرہ کے سہولت کار تھے‘اسی مقبول لیڈر شپ کی وساطت سے انگریز نے پہلے کروڑوں لوگوں کو قابو کیا‘ انہی کے ذریعے ہندوستان کو اپنا سیاسی کلچر ودیت کرنے کے بعد اس شان کے ساتھ یہاں سے رخصت ہواکہ ان کا سیاسی اثر و رسوخ آج بھی قائم ہے اور آج بھی اِسی تسلسل میں ہماری سیاسی جماعتیں ریاستی مقتدرہ کی سہولت کار ہیں؛چنانچہ ان سے کسی انقلابی تبدیلیوں کی امید رکھنا عبث ہو گا۔